بلاشبہ یہ بات یقینی ہے کہ کراچی شہر کی روشنیاں اور رونقیں پچھلے کچھ سالوں میں مکمل ختم نہیں تو کچھ کم ضرور ہوئی ہیں۔۔ یہ ماند ہوتی روشنیاں شاید ملکی حکمرانوں کے لئے فکر کا باعث نہ ہوں ۔۔ لیکن کراچی والوں نے یقیناْ اسے دل سے محسوس کیا ہوگا۔۔ کراچی سے ویسے بھی کراچی والوں کا رشتہ ایسا ہی ہے جیسے بچپن کے دوست سے ہوتا ہے۔۔ آپکو اُس دوست کی فکر اور محبت عمر کے اُس حصے سے لاحق ہوتی ہے جب آپ خود فکر اور محبت کا مطلب تک نہیں جانتے۔۔ اور عمر کے کسی بھی حصے میں پہنچنے تک ہزار ہا اختلافات ، ناراضگیوں اور مصروفیت کے باوجود بھی اُسکی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔۔ وہ ہمیشہ سردیوں کی مہربان دھوپ ہی لگتا ہے۔۔ کراچی شہر تو یوں بھی بیگانوں کو اپنا بنا لینے والا شہر ہے۔۔ اِس کے وسیع و عریض دامن میں ہمیشہ بے سہاروں کے لئے سہارا ، اور ناداروں کے لئے رزق ہوتا ہے۔۔ مگر افسوس کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ جو شے اُسے سب سے زیادہ فائدہ اور سکوں پہنچاتی رہے آہستہ آہستہ وہ اُسکی اہمیت فراموش کردیتا ہے۔ اور ہم تو بحیثیتِ قوم ہی ناشکرے ہیں ! کراچی شہر کی پامالی کے ہم خود کتنے ذمہ دار ہیں اِسکی بات آج رہنے دیں! آج تو نوکِ قلم نے کچھ اور ہی زہر اگلنا ہے۔۔
لڑکپن کے زمانے کی یاد ہے کہ جہاں گزرو کھدائی ہوئی ہوتی تھی اور لکھا ہوتا تھا ’’ زحمت کے لئے معذرت ، ترقیاتی کام جاری ہے ‘‘ اُس وقت سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہے۔۔ پھر ایک دن نجی ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھا جس میں سیاستدانوں کا مذاق بنا کر خود کو عظیم ذہانت کے منصب پر فائز سمجھا جا رہا تھا، وہاں ایک اینکر نے تمسخرانہ انداز میں کہا کہ مصطفی کمال کو کسی نے خواب میں آ کر کہہ دیا ہے کہ اُس نے کراچی میں خزانہ دفن کیا ہے اسی لئے اُس نے سارا شہر کھود دیا ہے۔ اور حاضرین کو ہنسی نہ بھی آئے تب بھی نقلی قہقہوں کی ریکارڈنگ چلا کر اپنے مذاح سے خود ہی محظوظ ہوا جا رہا تھا۔۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد مجھ سمیت کئی لوگوں کو سمجھ آگیا کہ وہ تھوڑی سی زحمت کیسے اِس مصروف شہر کو وقت کی دوڑ میں کتنے ہی کوس آگے لے گئی۔۔ شہر میں جگہ جگہ کھڑے یہ پُل شہریوں کو روزانہ کتنی ہی دشواریوں سے بچاتے رہے۔۔
اب گزشتہ کئی دنوں سے ہونے والے گرین بس کے ہنگامے نے کراچی شہر کی صورت مسخ کردی ہے۔۔
جہاں گزرو لگتا ہے کہ کوئی دیو ہیکل اژدھا شہر کو نگلنے کھڑا ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی کو ٹریفک کے مسئل پر قابو پانے کے لئے ایسے ماس ٹرانسٹ کی اشد ضرورت تھی۔۔ مگر دیگر ملکوں کے برعکس یہ زیرِ زمیں ہونے کے بجائے زمین کے اوپر زبردستی ٹھونسائی جا رہی ہیں۔۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق اے او کلاک ٹاور توڑنے کے بعد بھی اس اژدھے کی بھوک نہیں مری ہے اور اب جلد ہی ناظم آباد کے مشہور بورڑ آفس کے پل کو بھی لقمہ اجل بنایا جائےگا۔۔
اربوں روپے اور کتنا ہی وقت لگا کر بنائے گئے یہ پل شہر کے لئے کتنے قیمتی ہیں یہ اُن سے پوچھا جائے جو شہر میں پر وقت محوِ گردش ہیں۔ اور اب اِنکو گرانے کی وجہ کیا اتنی ہی اہم اور دیر پا ہے کہ شہر یہ نقصان چپ چاپ سہہ جائے
اربوں روپے اور کتنا ہی وقت لگا کر بنائے گئے یہ پل شہر کے لئے کتنے قیمتی ہیں یہ اُن سے پوچھا جائے جو شہر میں پر وقت محوِ گردش ہیں۔ اور اب اِنکو گرانے کی وجہ کیا اتنی ہی اہم اور دیر پا ہے کہ شہر یہ نقصان چپ چاپ سہہ جائے
حکومت کا دعوی ہے کہ یہ ایک ہی وقت میں ۳۵۰،۰۰۰ افراد کو نقل و حمل کی سہولت فراہم کرے گی۔۔ میں اُن لوگوں کے حوصلے کی داد دیتی ہوں جنہوں نے کراچی جیسے شہر میں کچرے کے ڈھیر پر اِس توڑ پھوڑ کی شروعات کی اور جو کراچی کی بسوں میں ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ، کھڑکی سے منہ نکال کر ایک دوسرے پر تھوکتے ہوئے لوگوں سے یہ توقع رکھے ہیں کہ وہ اِن بسوں کا استعمال اپنے مکمل شعور کی حدوں سے کریں گے۔۔ پتہ نہیں پاکستانی عوام اتنی منظم اور حکام اتنے اہل ہیں بھی یا نہیں کہ یہ بی آر ٹی سسٹم کو نبھا سکیں۔۔ پھر بھی بحیثیتِ پاکستانی میں یہ چاہوں گی کہ حکومت کا ہر ترقیاتی منصوبہ کامیاب ہو۔۔ لیکن پھر ایک واہمہ ڈراؤنا سا خواب بن کر بار بار سامنے آجاتا ہے کہ اگر یہ نہ ہوسکا، اگر یہ اربوں روپے کا پراجیکٹ ناقص نکلا یا کراچی والوں اور ان میں ملے جلے شر پسند عناصر نے اسے خدانخواستہ ناکام بنا دیا تو اِن اژدھوں کا کیا ہوگا۔۔ شہر کے بنیادی ڈھانچے کی تباہ حالی کا ذمہ دار کون ہوگا۔۔ اور۔۔ سرمائے کے اِس ضیاع کا حساب کون دے گا۔۔