Tuesday, March 6, 2018

بیچاری عورت

پتہ نہیں لوگ اتنے خود غرض کیسے ہوتے ہیں کہ اپنی خواہشوں کے پیچھے باقی تمام لوگوں کا سکون داؤ پر لگائے رکھتے ہیں‘‘
’’ہاں بیٹی بس یہی دنیا ہے، ابھی سے قیامت کا سماٴ ہے، سب اپنی اپنی میں لگے ہیں‘‘
اماں اور ثانیہ بظاہر ڈرامے پر تبصرہ کررہے تھے مگر اُن کی آنکھوں کے اشارے اور مخصوص جسمانی زبان یہ جتانے کے لئے کافی تھی کہ دراصل وہ صائمہ پر طنز کررہے ہیں، اور اللہ کے فضل سے چپ رہنے والوں میں سے تو بیگم صائمہ بھی نہیں تھیں، اُنہوں نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے لازمی دینا تھا
آج کل کسی کے پیچھے مرنے کا بھی تو زمانہ نہیں رہا امیّ، یہاں لوگوں کے لئے کچھ بھی کر لو شکایتیں کم نہیں ہوتیں، اس لئے اچھا ہے کہ انسان دوسروں کے حقوق پورے کرنے میں اپنے حق کو نہ مرنے دے
آپ تو حقوق کی بات ایسے کررہی ہیں جیسے ملک میں سب سے زیادہ فرض شناس ہیں‘‘۔ ثانیہ کو شروع ہونے کے لئے جو موقع چاہئے تھا وہ مل گیا تھا۔
سب سے زیادہ نہیں لیکن الحمداللہ کئی لوگوں سے زیادہ، کم از کم اگر کسی کو آسانی نہیں پہنچاتی تو کسی کی اذیت کا سامان بھی نہیں بنتی۔‘‘ صائمہ نے برابر کی ٹکر دی۔
اماں نے میری طرف دیکھا، میں بہروں کی طرح ٹی وی کو دیکھتا رہا، کسی ایک کے حق میں بولنے کا مطلب دوسرے کے سامنے مجرم بننا تھا
ثانیہ نے پھر کوئی جواب دینے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ صائمہ نے کھانا لگ گیا کا نعرہ بلند کر کے منہ بند کروا دیا۔
کھانا خاموشی میں کھایا گیا۔ مگر سب ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے رہے۔ سب کے دل میں نہ ختم ہونے والے شکوے ہیں
اماں کو لگتا ہے صائمہ گھر کی ذمہ داری مکمل طور سے نہیں اُٹھا پاتی، اُس کی وجہ سے ثانیہ کو تکلیف ہوتی ہے، صائمہ کو لگتا ہے کہ وہ اپنے عزائم پورا کرنے کی تگ و دو  میں گھر کو حتی الامکان توجہ دینے کی کوشش کرتی ہے مگر اُسکی کاوشوں کو ہمیشہ تنقیدی نظروں سے دیکھ کر رد کر دیا جاتا ہے، ثانیہ کو لگتا ہے کہ اُسکو اچھی، ملنسار اور گھریلو بھابی نہ مل سکی جو ہمیشہ اُسکو خود سے برتر سمجھتی اور اُس کے لاڈ اُٹھاتی، اور ان سب کے بیچ میں، مَیں؟ میَں ایک مرد ہوں جس پر یہ الزام ہے کہ  وہ عورت کے دکھ درد اور اُسکی قربانیوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا، جس ماں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہمیں پالا پوسہ اُسکو لگتا ہے کہ بیوی کی خاطر ہم نے اُس کی قدر و منزلت کو فراموش کردیا، جس بیوی کے لئے ہم نے یہ الزام سر لیا ہے اُسکو لگتا ہے کہ ہم ماں کی باتوں میں آکر اُسکی حق تلفی کر جاتے ہیں، اور بچی بہن تو اُس کی اپنی بھاوج سے نفرت اتنی شدید ہوگئی ہے کہ بھائی کی محبت پر حاوی ہے۔ 
گھر میں ہر وقت ایک جنگ ہے کہ کون کس کو بہتر جواب دیتا ہے، ہر وقت ایک منہ زبانی جنگ۔۔۔۔ جس دن صائمہ جیت جائے اُسکا موڈ اچھا رہتا ہے جس دن ثانیہ جیت جائے تو وہ اُڑی اُڑی پھرتی ہے۔

مگر پھر بھی یہ تمام عورتیں بیچاری ہیں۔ ان کے دکھ لاتعداد ہیں جن میں سے اکثر ان کےاپنے بنائے ہوئے ہیں۔۔ مگر کیا کہیے۔۔ 
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                 


تمہیں اسماٴ یاد ہے؟ صائمہ نے مجھ سے پوچھا
کون اسماٴ؟
وہی جس نے لاسٹ ائیر مجھے نکلوانے کا خوب جتن کیا تھا۔۔
اوہ ہاں یاد آگیا، کیا ہوا اُسے
میںَ نے اُس سے اگلا پچھلا سب بدلہ برابر کرلیا آج، امید ہے کہ اب وہ کہیں اور نوکری تلاش کرنا شروع کردے گی۔۔ صائمہ نے خوش ہو کر بتایا
مگر جب اُس نے تفصیل بتانے کے لئے میری طرف دیکھا تو اُسے احساس ہوا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے
کیا ہوا؟ سنو تو میں  نے کیا کِیا؟
مجھے نہیں سننا۔۔ مجھے ایسی کوئی بات نہیں سننی جس میں تم نے کسی اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا ہو، میرے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ میں اپنے شریک سفر کی عزت کروں کہ وہ ایک اچھ انسان ہے، ایسی باتوں سے تمہاری عزت گھٹتی ہے۔۔ مری آواز خود بخود گھٹ رہی تھی۔۔
تمہیں یاد نہیں ہے کہ اُس نے میرے ساتھ کیا کیا تھا؟ صائمہ نے ناراض ہو کر کہا
سب یاد ہے، اور یہ بھی یاد ہے کہ تمہارا اب تک کا ریکارڈ اتنا شاندار ہے، تمہارے ٹیلنٹ کے لوگ کتنے معترف ہیں اسلئے کوئی سازش تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکی، اور یہ بھی یاد ہے کہ یہ سب محسوس کر کے مجھے کتنا فخر ہوا تھا۔۔
تو کیا میں اُس سے بدلا نہ لیتی۔۔ صائمہ نے توجیہات پیش کی
مجھے لگا تھا کہ تم نے اپنے ٹیلنٹ کے زور پر خود کو منوا کر بہت بہتر بدلہ لے لیا ہے، مجھے نہیں پتہ تھا کہ تمہارے نزدیک اُس اچیومنٹ کی کوئی اہمیت نہ تھی
صائمہ شرمندگی سے خاموش ہوگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                     


کل دوپہر گھر آیا تو اماں جلی بیٹھی تھیں
کیا ہوگیا اماں سب خیر ہے؟ میں نے حال پوچھا
کیا خیر ہوگی، کتنی بار کہا ہے تم لوگوں کو کہ نانی کو یہاں لے آؤ۔ لیکن تم بے غیرتوں کو کوئی اثر نہیں ہے، کیونکہ وہ آگئیں تو تمہاری بیوی کو آوارہ گردی چھوڑ کر اُنکی خدمت میں لگنا پڑے گا۔۔ اب مرو تم سب فقیر کے فقیر۔۔ 
کیا ہوا ہے اماں؟ 
چھوٹی کو لکھ دیا ہے اماں نے سب، کہتی ہیں اُس نے بیوگی میں اور اُس کی بیٹیوں نے یتیمی میں میری بہت خدمت کی ہے، تو میرے مرنے کے بعد ان کے سر پر چھت تو رہے گی،
اوہ! یہ تو اچھی بات ہے، اور نانو کے پاس اُس چھوٹے سے گھر کے علاوہ اور تھا بھی کیا اُنہیں دینے کے لئے۔۔ میں نے اطمینان سے کہا
ارے لعنت ہو تم پر، تمہاری ماں کا حق مارا گیا اور تم تسلی کررہے ہو، اماں نے غصے میں کہا
اماں اللہ نے تو ہمیں اپنا گھر دیا ہے، وہ لڑکیاں یتیم ہیں۔۔ میں نے سمجھانا چاہا
ابا بھی بیچ میں بول پڑے۔۔ کب سے اسے یہی سمجھا رہا ہوں، کہ خود کو گنہگار نہ کر۔۔ میں یہ گھر لکھ دیتا ہوں تجھے بس چپ ہوجا۔۔
میں نے اور ابا نے ایک دوسرے کو افسوس سے دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                     

آج میں چھت پر چلا گیا، ثانیہ وہاں کسی سے فون پر بات کررہی تھی، میں کافی کا مگ لے کر منڈیر کے پاس کھڑا ہوگیا، اُسکی باتیں جاری رہیں،
مَیں نے تو ہیڈ کو جا کر صاف صاف کہہ دیا ہے کہ علینہ مجھ سے جونئیر ہے اگر اُس نے پرزینٹیشن دی، تو میں میٹنگ میں نہیں بیٹھوں گی، ہونہہ۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ ہمیں اُسکو موقع دینا ہے اُس میں پوٹینشل ہے۔۔ میں نے کہا تو یہ پوٹینشل آیا کہاں سے؟ ہونہہ۔۔ دو سال میرے انڈر کام کیا ہے اُس نے، انٹرنی تھی یہ لڑکی۔۔ بڑی آئی پریزنٹیشن دینے۔۔۔ ثانیہ نخوت سے کہہ رہی تھی۔۔ 
کھلی چھت پر بھی گھٹن کا احساس بہت بڑھ گیا۔۔ میں مگ لے کر واپس کمرے میں چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                     


باباآآ۔۔ یہ دیکھیں۔۔۔ صائمہ تقریباً چیختی ہوئی آئی تھی۔۔ اُس کے ہاتھ میں گلابی لفافہ تھا۔۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ اُسکی کسی پروفیشنل اچیومنٹ کے بارے میں ہے۔۔ کیونکہ بابا اُسکی تعلیمی اور پروفیشنل قابلیت کے سب سے بڑے قدردان تھے تو اُس نے سب سے پہلے اُن ہی سے شئیر کرنا تھا۔۔
واہ بھئی کیا مل گیا جو آپ کے چہرے پر ایسی خوشی ہے۔۔ بابا نے کہا
یہ دیکھیں۔۔ اس سال خواتین کے عالمی دن پر مجھے ایوارڈ دیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سال کی تھیم پریس سے متعلق ہے توہمارے میگزین آفس نے اس تنظیم کو میرا سارا ریکارڈ بھیج کر مجھے نامزد کروایا ہے۔۔ وہ بے حد خوش تھی
ارے واہ، زبردست، بہت خوشی کی بات ہے۔۔ اس ہی بات پر آج تم اپنا اسپیشل میٹھا بنا کر کھلاؤ۔۔ بابا نے خوشی سے کہا جب کہ اماں اور ثانیہ بہروں کی طرح ٹی وی دیکھتے رہے۔۔
صائمہ اُن دونوں کی طرف دیکھا کہ شاید کچھ تعریف و توصیف اُدھر سے بھی ملے۔۔ مگر وہاں ہمیشہ کی طرح مقابلے بازی کے نت نئے طریقوں ہر غور جاری تھا۔۔ 
ضروربناؤں گی۔۔ اُس نے بابا سے کہا۔
مگر ایک بات اور ہے، مجھے وہاں ایک چھوٹی سی تقریر کرنی ہے۔۔ میں کیا بولوں بابا؟ کچھ ایسا بتائیں کہ بس سب کو میری بات یاد رہ جائے۔۔۔ صائمہ نے جوش سے کہا
زبان کے معاملے میں تو آپ ماشااللہ سب سے تیز ہیں بھابی، آپ کو اس کے لئے بابا کی مدد کی کیا ضرورت؟ ثانیہ نے کہا
صائمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے شاید وہ اپنی خوشی کے موقعے پر ایسے جملے کی توقع نہیں کررہی تھی۔۔۔
بابا نے ثانیہ کو گھورا۔۔ ثانیہ نے رُخ پھیر لیا۔۔۔
صائمہ نے بابا کی خاموشی محسوس کی تو ایک بار پھر کہا۔۔ بابا بتائیں نا؟ کیا بولوں آپ کی برادری کے خلاف۔۔ 
بابا ہنس گئے۔۔ ہماری برادری کے خلاف کیوں۔۔ ؟
بھئی مردوں سے اپنے حقوق کی لڑائی ہی تو لڑ رہی ہیں ہم عورتیں۔۔ وہ دھپ سے کرُسی پر بیٹھ گئی شاید اُسے لگ رہا تھا کہ اب ایک لمبی بحث چھڑ جائے گی۔۔
ہممم۔۔ دیکھو سب سے پہلے تو میں تمہیں کہوں گا کہ جس کی سوچ اچھی ہوتی ہے اُس کی باتیں بھی اچھی ہوجاتی ہیں، اُسکو تقریر کرنے میں مسئلہ پیش نہیں آتا۔۔ اور اچھی سوچ کا مطلب ہے تعصب سے عاری سوچ۔۔ جس میں دوہرا معیار نہ ہو۔۔۔ سب سے پہلے تو یہ سوچنا چھوڑ دو کہ عورت کی حمایت میں بولنے کا مطلب ہے کہ مرد کے خلاف بولنا۔۔ ایسا نہیں ہے۔۔ بابا نے نرمی سے کہا
بابا سب سے بڑے تعصب کی بات توآپ نے خود کہہ دی۔۔ ثانیہ بہت جوش سے پلٹی تھی اور اُس نے ثابت کردیا تھا کہ جہاں مردوں کے خلاف بات ہو عورتیں اپنے سارے اختلاف بھول کر اکھٹی ہوجاتی ہیں۔۔
واقعی؟؟ بابا نے اُس سے پوچھا
جی ہاں بابا۔۔ مردوں کی وجہ سے ہی تو یہ سارے جھگڑے ہیں، یہ بقا کی جنگ ہم کس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔۔ ثانیہ نے کہا۔۔
اوہ اچھا اچھا۔۔ یہ مسائل مردوں کے بنائے ہوئے ہیں۔۔ بابا نے معصومیت سے کہا۔۔
اچھا تو شاید میری ہی سوچ الگ ہے۔۔ مجھے ہی اب تک لگتا رہا کہ زیادہ تر وہی مرد عورتوں کی عزت نہیں کرتے جن کی ماں نے اُنہیں اس بارے اچھی تربیت نہیں دی ہوتی۔۔ اوروہ خبریں پڑھ کر تو میری روح کانپ جاتی تھی جب ساسیں جہیز اور اولاد کے جھگڑوں پر بہوؤں کی طلاقیں کروادیتی ہیں۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ساس نندوں کے ساتھ روز مرہ ہونے والی ناچاقی بھی مردوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔ اور جب سے خواتیں نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی قابلیت منوانا شروع کی ہے تو اکثر دفاتر میں بھی وہی ساس نندوں والا ماحول دکھائی دیتا ہے۔۔ کیوں صائمہ بیٹی؟ میں غلط ہوں؟ بابا نے صائمہ کی طرف دیکھا۔۔ صائمہ نظریں جھکا کر بیٹھی رہی۔۔ 
بابا نے پھر ثانیہ کی طرف دیکھا۔۔ تم بتاؤ ثانیہ۔۔ 
ثانیہ حیرانی سے بابا کو دیکھتی رہی کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں۔۔۔
ہممم۔۔۔ اب خاموشی جواب ہے۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ اس کا مطلب میرے مشاہدات درست تھے اور اب تم لوگوں کو قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔۔ تو صائمہ تم میری طرف سے تقریر میں جا کر یہ کہنا کہ بہنوں! مردوں سے حقوق لینے کی بات رہنے دیں، پہلے آپ عورتیں آپس میں اپنے معاملات درست کرلیں، ایک دوسرے کے لئے دل بڑا کریں، آپ ایک دوسرے کی طاقت بن جائیں تو مرد کون ہوتے ہیں آپ کے حقوق چھیننے والے 
!!!!

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...