Sunday, December 22, 2019

چاچا



کسی بھی انسان کی زندگی میں ماں باپ کا کیا مقام ہوتا ہے یہ کسی کو سمجھانے یا بتانے کی ضرورت نہیں، لیکن شاید ہر انسان کی قسمت میرے جیسی نہیں ہوتی۔۔ میری جگہ اگر کوئی اور لڑکا ہوتا تو اس کی ساری عمر خدا سے شکایتوں میں اور جان بوجھ کر غلط کام کر کے باپ کی بددعائیں لینے میں گزر جاتی، لیکن میں کوئی اور لڑکا نہیں تھا، میں رشید تھا، اور میرے پاس بشیر چاچا تھا۔۔ یہ نام بھی مجھے میرے چاچے کا ہی دیا ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ ابّے کو مجھ میں روزِ اول سے ہی کوئی دلچسپی نہ تھی، ابّے کے پاس پیار کرنے کو پہلے ہی تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، اس کو چھٹی اولاد کی کوئی خواہش نہ تھی، لیکن جیسی زندگی میں نے گزاری ہے اس کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اللہ نے ہم سب کو دنیا میں کسی نہ کسی مقصد سے بھیجا ہے۔۔ 
میں پیدا ہوتے ہی چاچے کی گود میں گیا تھا، کیونکہ ابّے کے پاس میرے لئے وقت نہ تھا، ہمارے گاؤں میں چند ہی نرسیں تھیں جو گھر پر آکر زندگیوں کو دنیا میں لانے کا کام کرتی تھیں، اور ان کے ہاتھ میں ایسی بات تھی کہ بہت ہی کم عورتیں بچے کی ولادت کے بعد صحت مند زندگی گزار پاتی تھیں، حفظان صحت کے اصولوں کا نہ ان نرسوں کو کچھ علم تھا، اور گھر کی عورتوں کی نا اہلی تو پھر نہ ہی پوچھیں۔۔۔ ویسے بھی ہمارے گاٴؤں میں کوئی اتنا بے غیرت نہ تھا کہ اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجتا، تو اس لئے عورتیں، ان کی گھریلو زندگی اور ان کے تمام معاشی و مذہبی معاملات کن حالات کا شکار تھے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، یہ وہ لوگ تھے جو اندھیرے میں رہ رہ کر بصیرت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، روشنی ان کی آنکھیں چندھیا دیتی تھی، روشن خیالی انہیں بے چین کئے دیتی تھی، اور ان سب کی بیچ میں ہی تھا میرا چاچا۔۔۔ جس کی روشن آنکھیں میری ساری دنیا کو روشن کرنے کے لئے کافی تھیں۔۔ اس نے مجھے گودوں میں اٹھایا، جب اماں صبح سے شام اپنا بہو ہونے کا فرض ادا کرتیں اور ماں ہونا بھول جاتیں تب ماں کی طرح وہ میرا خیال رکھتا، ابّا کاروباری آدمی تھا، اور اس کا کاروبار اس کی زندگی، وہ آدم بیزار تھا، اس کو صرف اپنے اوزار اپنا مال اپنی دکان اور اپنے منافعوں کا دھیان رہتا، البتہ چاچا بہت کچھ کر سکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود دادا کی چھوڑی ہوئی چند ایکڑ زمین پر کاشت کرتا تھا۔۔ میری خاطر اس نے کتنے ہی دن کام کی پرواہ نہ کی، اس نے میرا نام رکھا، مجھے راتوں میں سلایا، دن میں کھانا کھلایا، جب میں بڑا ہونے لگا تو اس نے مجھے خود سے مزید قریب کرلیا، گاؤں چھوٹا تھا، سب لوگ چاچے کو جانتے تھے، اور یہ بھی جانتے تھے کہ اس نے شادی نہیں کی، اس کے باوجود اکثر یہ گمان کر جاتے کہ میں اس کا بیٹا ہوں، نماز کے لئے مسجد جانا ہو، یا کھیتی کے لئے زمین پر، میں چاچا کے ساتھا ہوتا، وہ گھر اور باہر ہر کسی کا پسندیدہ تھا، پتہ نہیں اس میں ایسا کیا تھا، کیسا سحر تھا کہ جو اس سے ایک بار ملتا اس کا ہو جاتا تھا۔۔
اتنے سال گزارنے کے بعد اور زندگی میں اتنا کچھ دیکھنے کے بعد اب لگتا ہے کہ یہ چاچا کا خلوص تھا جو اس کو ممتاز بناتا تھا۔۔ 
 اس کو میں نے غصے میں بہت کم دیکھا لیکن اگر ایک بار غصہ آجائے تو توبہ ہی بھلی، سو میں خود ہی شرافت کا بھرپور مظاہرہ کرتا اور تیر کی طرح سیدھا رہتا ۔۔۔ گھر کا کوئی مسئلہ ہو یا باہر کا کوئی فیصلہ ابا بھی چاچا کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کرتا تھا، یہی حال دادی کا تھا۔۔ یہاں تک کہ میری ماں کی پھوپھی بھی اماں سے کہتی ذرا توُ اپنے دیور بشیر سے اس معاملے میں مشورہ کر کے بتا۔۔ الغرض چاچا ہر مرض کی دوا تھا۔۔۔

چاچا سے پورے گھر کو بس ایک شکایت تھی، کہ وہ شادی نہیں کرتا تھا۔۔ دادی چاچیاں پھپھیاں اس کے لئے گاؤں اور گاٴؤں سے باہر رہنے والے ہر رشتے دار کے خاندان سے اس کا ممکنہ جوڑ ڈھونڈ چکے تھے، مگر چاچا کو کوئی بھی لڑکی پسند نہ آتی، گاؤں کی اکژر محفلوں میں خوبصورت لڑکیاں صرف اس لئے مجھے پیار کرتیں کیونکہ میں چاچا کہ بہت قریب تھا، میں نے کئی لڑکیوں کو اس کا نام لے کر آہیں بھرتے  اور کئی کو اسے صرف اس لئے کوستے ہوئے دیکھا ہے کہ اس نے ان کے رشتے کو انکار کردیا، اماں اور پھوپھی سے بھی ایک دفعہ سنا تھا کہ ایک رات گاؤں کی کوئی لڑکی بھاگ کر ہمارے گھر آگئی تھی اور ضد پکڑ کر بیٹھ گئی تھی کہ بشیر سے شادی کرواؤ تو ہی گھر جاؤنگی۔۔ بعد میں اس کے مٓاں باپ نے آ کر معذرت کی کہ لڑکی پر جن ہے جو اس سے الٹے سیدھے کام کرواتا ہے، یہ بات کر کے اماں اور پھوپھی بہت دیر ہنستے رہےاور چاچا کو کئی دن تک اس کی لڑکی کے نام سے چھیڑتے رہے۔۔۔ چاچا دادی کا لاڈلا تھا۔۔ اور میں چاچا کا، اس لئے ہم دونوں سے حسد کرے والے بے شمار لوگ تھے، اور پھر ایک دن ہم دونوں اس حسد کا شکار ہوگئے۔۔ میں چار سال کا تھا اور چاچا چالیس برس کا ۔۔ جب ایک دن مجھے پتہ چلا کہ چاچا شادی کررہا ہے۔۔ وہ لڑکی کون تھی جو میرے اور چاچا کے بیچ میں آرہی تھی، میں نہیں جانتا تھا، بس یہ جانتا تھا کہ کوئی بھی اتنا خوش نہ تھا، جتنا بننے کی ایکٹنگ کررہا تھا۔۔ دیکھنے کو زور  و شور سے تیاری ہورہی تھی ، لیکن اندر ہی اندر ایک عجیب سی خاموشی تھی، بولتی تھیں تو صرف نظریں، اشاروں کنایوں میں ایسا بہت کچھ ہورہا تھا جس کا نتیجہ چاچا نے بعد میں بھگتنا تھا۔۔ 
چاچا کی خوشی کے لئے سب پیش پیش تھے، اور چاچا نے بھی ایک منٹ کے لئے اپنے پرانے رشتوں کو فراموش نہ کیا، اسے اپنی شادی میں بھی سب کی فکر تھی، جس دن وہ اپنے کپڑے بنوانے اپنے پسندیدہ درزی کے پاس گیا، جس کو گھر میں سب مذاق سے شاہی درزی کہتے تھے، اس نے اپنے میرے ابا کے اور میرے تین بھائیوں کے اور باقی چاچاؤں کے بھی کپڑے بنوائے۔۔۔ جب وہ کپڑے گھر لایا، تو سب نے کپڑے لے کر اس کے منہ پر یہ جملہ مار دیا کہ تجھے بڑی خوشی ہے اپنی شادی کی جو سب کو کپڑے بانٹ رہا ہے، چاچا کی روشن آنکھیں ایک دم ہی بجھ گئیں، سب کے چہروں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کروہ یہی کہہ پایا کہ میں تو ہمیشہ ہی سب کے لئے لاتا ہوں، 
پتہ نہیں کیوں میرے حافظے میں وہ سارے لمحے آج تک محفوظ ہیں، آپ ایک چار سال کے بچے کے سامنے غیبت کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اسے کیا پتہ، عورتیں اپنی سازشیں اس بچے کے سامنے باآسانی پلان کرلیتی ہیں کہ اسے کیا سمجھ
لیکن بد قسمتی سے وہ سب سن لیتا ہے، اور مزید بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر یہ سب اس کے حافظے میں محفوظ رہ گیا، تو شعور کی منازل طے کرنے تک اس کے دو نتائج ہونگے۔۔ یا تو وہ اپنے بڑوں جیسے منفی روّیے اپنا لے گا، یا ان کی غلطیاں سمجھ جانے کے بعد ان سے بدظن ہوجائے گا۔۔ لیکن ہمیں اس وقت ان دونوں ہی چیزوں کی کب پرواہ ہوتی ہے۔۔ 
چاچا کا بیاہ ہوگیا۔۔۔ اس دن چاچا بہت خوش تھا، اور پورا گاؤں اس کی ہنسی اڑا رہا تھا۔۔ گاؤں کی خوبصورت اور امورِ خانہ داری میں ماہر لڑکیاں چھوڑ کر وہ شہر کی سوکھی سڑھی زردی مائل رنگت والی لڑکی لے آیا تھا، لوگوں کے نزدیک اس کے نصیب پھوٹ گئے تھے، دادی کے سامنے جب کوئی پوچھتا کہ یہ کیسے ہوا تو سینے پر گھونسے مار کر کہتیں ہائے میں کی کراں ، میرے بشیر تے کوئی تعویز کرا دیتا، پنڈ دی انی سوہنیاں کڑیاں چھڈ کے پتہ نئیں کنو اٹھا لایا۔۔اور پھر ایک سرد آہ بھر کر آنسو پوچھ لیتی۔۔ 
میں چھوٹا تھا، زیادہ سمجھ نہیں تھی، لیکن اکثر پھوپھیاں چاچیاں اور اماں بھی چلتے پھرتے ، ہنسی مذاق میں مجھے کہہ دیتیں کہ اب گیا تیرا چاچا، اب نہیں کرے گا تجھے پیار۔۔ اب چاچی آگئی ہے۔۔ اور بس یہ سب سن سن کر مجھے لگتا کہ وہ میری چاچی نہیں کوئی سوکن ہو! اور چاچی۔۔ وہ بھی کوئی عجیب شے تھی۔۔ شروعات میں کئی عورتوں کو یوں لگا کہ اس کا ذہنی توازن خراب ہے۔۔ چاچا سے وہ یوں بات کرتی جیسے وہ اس کا شوہر نہیں دوست ہو۔۔ جبکہ گھر کی باقی عورتوں کے لئے شوہر صرف صرف شوہر ہوتا تھا، جو ان کی ضروریات پوری کرے، نان نفقہ دے اور جو ان کی اولادوں کا باپ ہو۔۔ اس سے آگے کوئی تعلق بنانے کی نہ مردوں کو ضرورت تھی نہ عورتوں کو خواہش۔۔۔ چاچا اکثر جب چاچی کے ساتھ چھت پر بیٹھتا، تو چاچی مجھے بھی گود میں اٹھا کر چھت پر ہی لے جاتی، جب وہ دونوں ساتھ ہوتے۔۔ تو کہکشاؤں سے لے کر زمین پر چلنے والے کیچوے تک کی بات کرتے۔۔ مجھے اس وقت وہ دونوں پاگل لگتے کیونکہ میں نے گھر میں کسی کو کسی سے ایسی بات کرتے نہ دیکھا۔۔ کبھی کبھی لگتا کہ چاچی انسان نہیں ہے، وہ کوئی چلتا پھرتا کمپیوٹر تھی، جس میں چاچا اپنا کی ورڈ ڈالتا اور وہ معلومات اگلنے لگتی۔۔ چاچی کسانوں کے فلاحی پروگرام کے لئے گاؤں آئی تھی، جہاں ٹریننگ کے دوران وہ چاچا سے ملی، شہر کی اس پڑھی لکھی اور خود مختار لڑکی کو چاچا میں کیا پسند تھا یہ میں  اس سے زندگی میں ایک بار ضرور پوچھنا چاہتا تھا۔۔ 


اور چاچا کو بھی جانے اس میں کیا پسند تھا۔۔ جب کہ گھر میں کسی کو بھی اس میں کچھ پسند نہ تھا۔۔ اس میں گاؤں کی عورتوں جیسی کوئی بات نہ تھی، جہاں عورتیں صبح تڑکے اٹھ کر لسّی بلوتی، وہ باؤلی ایک کڑوا پانی پیتی تھی، جو ایک کانچ کی برنی میں وہ شہر سے اٹھا لائی تھی۔۔ جانے اس کو اس میں کیا پسند تھا۔۔ جہاں عورتیں گھر کا ہر ایک کام خود کررہی ہوتیں، وہ حیرت سے سب کو تکتی کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔ کئی مرتبہ وہ عورتوں کو کہتی کہ اتنا سخت کام کوئی عورت خود کیسے کرسکتی ہے، تو عورتیں اس پر کبھی ہنسی دیتیں کبھی ناراض ہوجاتیں۔۔ اگر وہ خوراک یا حفظان صحت کے بارے میں کسی کو اپنی معلومات سے مستفید کرکے اس کی اصلاح کرنا چاہتی تو سب اسے دیکھتیں جیسے وہ کوئی جاہل ہو۔۔ وقت گزرنے لگا۔۔ چاچی اور چاچا کی شہرت میں اضافہ ہونے لگا۔۔ ہر تقریب میں، عورتوں کی ہر بیٹھک میں چاچی کو معنی خیز نظروں سے دیکھا جانے لگا۔۔ گھر کی عورتوں نے اس کی کمیوں کو ہر وقت نشانہ بنائے رکھا، چاچی کے چہرے کی ساری رونق اور چاچا کی آنکھوں کی ساری روشنی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑنے لگی۔۔ 
وقت گزرنے لگا اور شاید چاچی خود بھی بھول گئی کہ وہ کون تھی اور کہاں سے آئی تھی، اس نے وہ کالا کڑوا پانی چھوڑ کر لسّی بلونا اور پینا شروع کردیا۔۔ وہ بھی سب عورتوں کی سخت محنت والے کام خود سے ہاتھ سے کرنےکی عادی ہوگئی۔۔ اس نے چاچا کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر چاچا کا سب کچھ اپنا لیا تھا۔۔۔ لیکن گھر والوں نے چاچا کی ساری عمر کی محبت اور خدمت کو ایک لمحے بھی یاد نہیں رکھا۔۔ نہ ہی چاچی کی کسی بھی کوشش کو کبھی قدر کی نگاہ سے دیکھا
سال بیتے اور چاچا اب تک بے اولاد تھا۔۔ اب مذاق طعنوں تشنوں کی صورت اختیار کرگیا تھا۔۔ اس سب عرصے میں نہ صرف چاچا کی محبت میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔ بلکہ مجھے محبت کرنے والوں میں چاچی کا نام بھی شامل ہوگیا تھا۔۔ 
جب اماں مجھے شام ڈھلے گھر بلاتی اور ڈراتی کے گھر میں آجا ورنہ پیڑوں کے جن تجھ پر چڑھ جائیں گے، تو میں بستر میں ڈر کے چھپ جاتا۔۔ تب چاچی آکر سمجھاتی کہ رات کے وقت پیڑ کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کی صحت متاثر ہوتی ہے، اسی لئے رات کو پیڑوں کے نیچے نہ کھیلو تو بہتر ہے۔۔ اور ماں کہتی دیکھ لے تیری چاچی کو جن کا نام بھی پتہ ہے۔۔ کبھی کبھی مجھے چاچی کے طور طریقے قریب سے دیکھ کر لگتا جیسے وہ چاچا ہی ہو۔۔ وہ بلکل اس جیسی ہی تھی، محبت کرنے والی اور اپنا آپ بھول کر محبت کرنے والی۔۔ 
جاڑے کہ ایک دن اماں نے مجھے کہا کہ  چاچا کے کمرے کی دو چھتّی میں سے کمبل اور لحاف نکالنے ہیں۔۔ میں مزے سے ٹارچ لائٹ لے کر چھّتی میں چڑھ گیا۔۔ سوچا تھا کچھ دیر وہیں آرام سے بیٹھوں گا تاکہ اماں کہ کاموں سے بچ جاؤں۔۔ 
چھتّی پر اب چاچی کا بہت سامان تھا، بہت مشکل سے بیٹھنے کو جگہ بنائی اور ایک لفافہ اٹھا لیا۔۔ اس لفافے میں چاچی کے نام کی کئی سندیں تھیں۔۔ انعامات وصول کرتے ہوئے کئی تصویریں تھیں۔۔ تصویروں میں دیکھ کر ایک منٹ کو یقین نہ آیا کہ گھر میں ایک درجن سونے کی چوڑیاں پہنے، ریشمی کپڑوں پر پراندہ ڈالے عورت وہی ہے جو ان تصوریروں میں جینز کرتہ اور شانوں تک کٹے بالوں میں کھڑی ہے۔۔ اس دن سے میں نے دل ہی دل چاچی کا نام ڈیانا رکھ دیا۔۔ 
دو برس اور بیتے۔۔ میری دسویں سالگرہ قریب تھی، جب چاچی نے بیٹی کو جنم دیا۔۔ دادی خوشی سے جھوم رہی تھیں، چاچا بشیر کے اولاد ہوئی تھی۔۔دادی کا لاڈلا چاچا بشیر۔۔  گھر کا پسندیدہ چاچا بشیر لیکن یہ خوشی بھی بہت تھوڑی تھی، لوگوں کے تبصروں اور باتوں نے ایک بار پھر سب کے دل بدل دئے۔۔ پہلی بار اس ننھی لڑکی کو دیکھ کر میرا دل مسکرایا تھا، اس کی آنکھیں بلکل چاچا کی طرح روشن تھیں، پھر میرے کانوں میں ایک آواز پڑی۔۔ اب نہیں پیار کرتا تیرا چاچا تجھ سے، اب اس کی اپنی اولاد آگئی ہے۔۔ لیکن میں نے ان سنا کردیا۔۔ ہائے رنگ تو بلکل ماں پر چلا گیا، بھائی بشیر کی طرح گوری نہیں ہے۔۔ 
ہاں بھائی بشیر تو کتنے سرخ سفید ہیں۔۔
اس کی تو پلکیں بھی چھوٹی ہیں۔۔ اس سے لانبی پلکیں تو میرے رشید کی ہیں۔۔ اماں زور سے ہنسی
بھابی کو تو بھائی بشیر مل گیا۔۔ اس کا رشتہ کیسے ہوگا۔۔ پھوپھی نے زوردار قہقہہ لگایا۔۔ 
ہنس ہنس کے گاؤں کی عورتیں دوہری ہورہی تھیں اور کوئی نہیں دیکھ رہا تھا کہ چاچی کتنے آنسو حلق میں اتار رہی ہے۔۔ 

چاچی کے لئے وہ زندگی پہلے بھی آسان نہ تھی، اور گڑیا کی پیدائش کے بعد مسائل روز بروز سنگین ہونے لگے۔۔ اصل لڑائی جب شروع ہوئی جب چاچا نے اپنی بیٹی کو گاؤں کی باقی عورتوں کی طرح بڑا کرنے سے انکار کردیا۔۔ 
چاچی چاہتی تھی وہ چاچی کی طرح تعلیم حاصل کرے اور اپنی زندگی لسّی اور مکھن بنانے میں سرف نہ کرے۔۔ چاچی کی روشن خیالی گاؤں کی عورتوں کے لئے آزاد خیالی یا یوں کہہ لیں کہ بے غیرتی تھی۔۔ قائل کرنے کی ہر کوشش بے سود تھی۔۔ 
میں نے ساری عمر اس گھر کو دی، ابا کا نام زندہ رکھنے کے لئے اس کی زمین کو دی، اپنے بارے میں کبھی نہیں سوچا، اپنی بیوی کے بارے میں بھی نہیں سوچا، لیکن اپنی اولاد کو اس گھر پر قربان نہیں کروں گا۔۔ یہ وہ آخری جملہ تھا جو وہ دادی کو کہہ گیا۔۔ 
چاچا گاؤں چھوڑ گیا، اس نے صرف چھت الگ کی تھی، تعلق اس سے گھر والوں نے خود توڑا
اس رات گھر میں کوئی نہ سویا، دادی اماں چاچیاں پھپھیاں ساری رات چاچی اور اس کی بیٹی کو کوستے رہے۔۔ تعلیم یافتہ ہونے کو کوستے رہے، شہر میں رہنے والے ہر ایک شخص کو، اور شہر کے طور طریقوں پر لعنت بھیجتے رہے۔۔ 
جاتے ہوئے ان دونوں  نے مجھے بہت پیار کیا، دعائیں دیں۔۔ ایک سیلاب تھا جو چاچی کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا، اور ایک طوفان تھا جو چاچا دل میں دبائے چلا گیا۔۔
میری زندگی، میرے ذہن اور میری شخصیت پر اس واقعے نے گہرا اثر ڈالا، میں کافی عرصے تک اسی الجھن میں لگا رہا۔۔ کہ کون غلط تھا، کس کی وجہ سے میرا چاچا مجھے چھوڑ گیا، اور اس کے چھوڑ جانے سے جو محبت مجھ سے چھن گئی اس کا قصور کس کے سر ہے، چاچا کے خلوص کا قتل کس کے سر ہے، بدگمانیوں اور بغض کے؟ مخول اور فراغت میں عورتوں کی بنائی ہوئی باتوں کے؟ گاؤں کی رسموں یا شہر کے طریقوں کے؟ بے بصیرت لوگوں کے یا روشن خیالی کے؟
جواب کوئی نہیں تھا۔۔ 
چاچا خط لکھتا رہا، کوئی جواب موصول نہ ہونے کے باوجود بھی لکھتا رہا۔۔ پھر اس نے گاؤں میں اپنے واحد دوست عزیز لالہ کے ذریعے خیریت لینی شروع کردی، عزیز لالہ اکثر مجھے روک کر چاچا کا خط پڑھوا دیتا، اور پوچھتا تیری طرف سے کیا لکھوں ۔۔ اور میں ایک مغموم مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ جاتا۔۔ دادی کے انتقال کی خبر بھی اسے لالہ نے دی، جب وہ پہنچا، میّت قبرستان پہنچ چکی تھی، وہ بھاگا بھاگا قبرستان پہنچا، دادی کو لحد میں اتارا، ابا نے اس دن بھی اسے گلے نہ لگایا، جب پیدا کرنے والی ماں ہی دنیا سے ناراض چلی جائے تو باقی رشتے کتنے بے معنی سے ہو جاتے ہیں، چاچا ٹوٹ چکا تھا، میں چاچا کے قریب جانا چاہتا تھا، لیکن ابا نے مجھے سختی سے تھامے رکھا۔۔ میں اپنی اس بزدلی پر آج تک پچھتاوے میں ہوں اور شاید ساری عمر رہوں گا۔۔ 
چاچا واپس چلا گیا۔۔۔ لیکن لالہ کے پاس اس کے خط اب تک آتے تھے، گھر میں ہونے والے ہر بچے کی پیدائش اور میرے سب بہن بھائیوں کی شادی کی خبر اسے لالہ کے ذریعے ملتی رہی، اور وہ لالہ کے ہاتھ سب کے لئے کچھ نہ کچھ بھیجتا رہا، سب کو لگتا رہا کہ یہ نظرانے اور سلامی لالہ پرانی دوستی کے مان میں دے رہا ہے، کسی نے یہ نہ سمجھا کہ یہ سارا مان اس کا دیا ہوا ہے جس سے ہمارا خون کا رشتہ ہے۔۔ 
کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا۔۔ کہ سب کو اپنی غلطی کا احساس ہے لیکن انا کے مارے کوئی کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔۔ 

میں جوان ہوگیا، اور چاچا بوڑھا۔۔ لالہ اکثر مجھے کہتا کہ میں شہر جا کر چاچا سے ملوں لیکن میری کبھی ہمت نہ ہوسکی۔۔ چاچا اب بھی خط لکھتا تھا، اور اکثر خطوط میں صرف میرا ذکر رہ گیا تھا۔۔ اس نے اپنے گھر اور بیٹی کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا ہوا تھا۔۔ وہ بظاہر ایک آسودہ زندگی گزار رہا تھا، لیکن اپنی اولاد کو یہ آسودگی دینے کے لئے وہ کس دوزخ میں جلا تھا یہ میں بخوبی جانتا تھا، ایک پرخلوص انسان بدلے کی امید سے کسی کے ساتھ اچھا نہیں کرتا، وہ سب کی محبت میں خود کو مارتا ہے، قربانیاں دیتا ہے، وہ جانتا ہے اس کے بدلے اسے کوئی تمغے یا میڈل نہیں ملیں گے، لیکن کم از کم اسے محبت تو ضرور ملنی چاہئے ، اور اگر وہ محبت اسے نہ ملے تو وہ ایک نامکمل زندگی گزارتا ہے۔۔ ایسی ہی نامکمل زندگی اس نے گزاری تھی۔۔ 


خط آتے رہے، اور میری بزدلی اپنی جگہ قائم رہی، مجھے ہمت اس آخری خط نے دی جو چاچا کی طرف سے نہ تھا، یہ خط چاچی نے لکھ کر چاچا کی موت کی خبر دی تھی۔۔ یہ خط لے کر میں گھر آگیا تھا۔۔ اور فیصلہ سنا کر چلا گیا تھا۔۔ بہت سے جملے اب بھی کانوں میں پڑ رہے تھے۔۔ لیکن اس وقت بس چاچا کے آخری خط کی یہ لائینیں ذہن میں گردش کررہی تھیں کہ یہ عورت اور ہماری یہ بیٹی میری ساری عمر کا اثاثہ ہیں عزیز، ڈرتا ہوں میرے بعد ان کا میرے جتنا خیال کون رکھے گا۔۔


لالہ کے ساتھ شہر روانہ ہوا، چاچا کے گھر پہنچا، چاچی کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے کوئی ناگہانی کسی بستی کو ویران کر گئی ہو، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لب پر ان کہے شکوے تھے، کتنے سالوں کا انتظار تھا جو اس نے چاچا کی آنکھوں میں دیکھا ہوگا۔۔ لیکن وہ کچھ نہیں بولی، کیسے بولتی، چاچا نے رشتوں کو ہمیشہ جو مان دیا تھا وہ چاچی شکایت کر کے کبھی نہ توڑتی۔۔۔  گڑیا کو دیکھا۔۔ وہ بلکل چاچا کی صورت تھی۔۔ میرے دل نے ایک دم ہی بہت کچھ محسوس کیا۔۔ چاچا کی دی ہوئی ساری محبت میرے دل میں اس لڑکی کے لئے بھر گئی۔۔ 
ہم رات وہیں رُکے۔۔ لالہ نے مجھے جاگتے ہوئے پا کر پوچھا۔۔
شیدے ۔۔ تم بھی وہی سوچ رہے ہو جو میں سوچ رہا ہوں،
شاید۔۔ میں نے سوچ میں ڈوبے انداز میں کہا
سوچ مت، اس لڑکی کو ساتھ لے جا۔۔ اس کو اس کے باپ کے گھر میں ہی بیاہ کر لے جا۔۔ 
میرے جواب نے لالہ کو حیران کردیا۔۔ اور فیصلے کو صبح پر ٹالے رکھا۔۔ 


اگلے روز جب ہم نے چاچی کو اس فیصلے میں شامل کرنا چاہا تو اس کا پریشان ہونا حق بجانب تھا۔۔ گڑیا بھی کئی تحفظات کا شکار تھی۔۔ لیکن شعور کی جو دولت اسے چاچا چاچی سے ملی تھی، اس کی بنا پر اس نے اور چاچی نے اپنے مستقبل کے لئے یہ فیصلہ لے لیا۔۔

چاچی کی عدت ختم ہونے تک شہر سے جانے کی اور گاؤں میں بسنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔۔۔
ٴٴ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج چاچا کی پانچویں برسی ہے، اسی لئے یہ کہانی آج سنا رہا ہوں، میں نے اور چاچی نے گاؤں واپس آکر چاچا کے نام سے ایک فلاحی ادارہ کھولا ہے، گاؤن اب کافی بدل گیا ہے، لوگوں میں بہت حد تک شعور آگیا ہے، لیکن اب بھی اس شعور کو اجاگر کرنے اور بہتر زندگی کی طرف لانے کا سفر جاری ہے۔۔ آج اس فلاحی ادارے کی بھی چوتھی سالگرہ ہے۔۔ چاچی نے ادارے کے اندر ہی ایک چھوٹا سے کمرے کو اپنی رہائش گاہ بنایا ہوا ہے۔۔ 
اس رات ایک لمحے کو خیال آیا کہ گڑیا سے شادی کر کے اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ رکھ لوں، لیکن پھر اپنی ماں، چاچیوں اور پھپھیوں کا چہرہ سامنے آگیا۔۔ چاچی کے لئے ان کی ناپسندیدگی یاد آئی، اور ایک منٹ کے لئے لگا کہ اس سے شادی کر کے اسے ایک اچھی زندگی دینے کے بجائے اسے وہ ہی سب بھگتانے لے جاؤں گا جو چاچی نے بھگتا ہے۔۔

اس لئے اس کی شادی عزیز لالہ کے اکلوتے بیٹے سے کردی، جو نوکری کے لئے دبئی جا رہا تھا۔۔ لالہ کہتا ہے کہ میں نے چاچا کی محبت کا حق ادا کیا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ چاچا کی اپنی نیکی تھی جو اس کے بعد چاچی اور گڑیا کو عزت کی زندگی ملی۔۔ میں نے اپنے لئے تمام عمر کے پچھتاوے جمع کئے ہیں، پہلے چاچا سے نہ ملنے کا، اور دوسرا گڑیا کے معاملے میں بھی ہمت نہ کر سکنے کا۔۔ میں نے مصلحت کا راستہ اپنائے رکھا۔۔ لیکن اگر آپ کی زندگی میں کوئی بشیر چاچا ہے تو اسے ضرور منا لیجئیے گا۔۔

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...