Thursday, November 30, 2017

پیاری بیٹی

پیاری بیٹی 
            ہمیشہ خوش رہو، اللہ تمہیں شاد اور آباد رکھے۔ تمہیں حیرت ہوگی کہ جو باتیں میں تم سے با آسانی کہہ سکتی تھی اور جن میں سے کئی باتیں پہلے ہی سے تمہاری تربیت کا خاص حصہ تھیں، اُن کی یاددہانی کے لئے میں کاغذ اور قلم کا سہارا کیوں لے رہی ہوں، تو اس کی کئی وجوہات ہیں، جس میں سے ایک میری ادیبہ بننے کی خواہش جو عمر کے اِس حصے میں بھی مجھے بار بار لکھنے پر اُکساتی ہے، دوسرا یہ کہ مجھے ہمیشہ ہی لگا ہے کہ لکھی ہوئی بات کہی ہوئی بات سے زیادہ سمجھی جاتی ہے اور اپنا دیر پا چھوڑ جاتی ہے، تیسرا یہ کہ اِس لکھے ہوئے مواد کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے، بار بار پڑھ کر نئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے، اس سے رہنمائی لی جا سکتی ہے، اور اکثر اُن احساسات کو تر و تازہ کیا جا سکتا ہے جن کے پیشِ نظر یہ لکھا گیا تھا، منہ زبانی باتوں کا معاملہ اگرچہ بے حد مشکل اور پیچیدہ ہے، اور میں اہم معاملات میں زبان کا استعمال کم کرنے کو ترجیح دیتی رہی ہوں۔  جانتی ہوں کہ تمہیں میرے اس رویے سے شکایت بھی تھی، مگر مجھے معلوم تھا کہ وقت ایک دن تمہیں اُس کردار کو نبھانے کا موقع ضرور دے گا جو میں نے اتنے برس نبھایا ہے تب تم سمجھ جاؤگی کہ انسان کو اپنے نفس اور اپنے الفاظ کا غلام نہیں بننا چاہئیے۔
بیٹی، میرے زمانے میں سوشل میڈیا جیسی نعمتیں موجود نہیں تھیں ورنہ میں بھی دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر باقی دنیا کو دیکھ پاتی، دنیا کو جان پاتی، میں نے دنیا کو یا کتابوں سے جانا ہے یا اس اصلی دنیا میں میرے آس پاس چلتے کرداروں سے۔۔ لوگوں کے روّیوں کو ضمرہ بند کرتے کرتے، معاشرے اور دین کے تقاضوں کو پورا کرتے کرتے کبھی مجھے لگتا کہ یا تو میں بہت منافق ہوگئی ہوں یا اللہ کے بے حد نزدیک ہوگئی ہوں۔۔ اور اب میں بوڑھی ہوگئی ہوں، اب میں مرکزی کردار نہیں ہوں، میرا کردار اب ایک ناظر کا ہے، جو کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر نئے کرداروں کو اپنے ہی جیسی غلطیاں دوہراتے دیکھے گا۔۔ کل میں بیوی تھی، اب میں ساس بن جاؤں گی۔۔ تم بیٹی تھیں، مگر تم میری جگہ آ کھڑی ہوگی۔۔ 
جس دن تم پیدا ہوئیں مجھے راجندر سنگھ بیدی کے لکھے ہوئے وہ لفظ بہت یاد آئے۔۔
                                        بیٹی تو کسی دشمن کے بھی نہ ہو بھگوان، زرا بڑی ہوئی ماں باپ نے سسرال 
                                        دھکیل دیا، سسرال والے ناراض ہوئے میکے لڑھکا دیا۔ ہائے یہ کپڑے کی گیند
                                        جب اپنے ہی آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہے، تو لڑھکنے کی جوگی بھی نہیں رہتی

چند منٹوں کے لئے مجھے لگا کے جیسے مجھے کسی بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہو، اولاد تو اولاد ہوتی ہے، لیکن معاشرے کے دوہرے معیار کا سامنا کرنے کے لئے میں اپنی بیٹی کے نازک خواب کیسے روند سکوں گی، بہت زیادہ سوچنے اور پڑھنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ آگہی بہت بڑا عذاب ہے بیٹی۔ جب تک انسان نا آشنا رہتا ہے اُسے غلط کاموں کی لذت محسوس ہوتی رہتی ہے۔ جوں ہی اُسے غلطیوں کا ادراک ہوجائے اور وہ اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور کرے، اُسکا پورا وجود دوزخ بن کر اُسے جلانے لگتا ہے۔۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ ندامت کی دوزخ میں تپ تپ کر انسان کندن ہوجاتا ہے۔ 
اللہ تو بہت مہربان ہے، کیونکہ وہ نیتوں کا حال جانتا ہے، اسلئے اُسے منانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔۔ اُس سے کچھ نہیں چھپا۔ 
لیکن بیٹی اس سب کے باوجود جو زندگی تم اب شروع کرنے جا رہی ہو، وہ بہت سخت ہے کیونکہ یہ بیک وقت چیلنجنگ اور خوبصورت ہے۔۔  توازن بگڑنے سے یہ کبھی کبھی زندگی کی شکل کو مسخ کردیتی ہے۔  بازار میں میرے ساتھ رنگ برنگی چوڑیاں خریدتے ہوئے، تم سوچتی ہو کہ زندگی بھی ہمیشہ  ان کے رنگوں سے مزین رہے گی، تو یہ غلط ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم یہ ذہن نشین کرلو کہ یہ زندگی جنت ہوگی یا جہنم اسکا فیصلہ تمہارا ہوگا۔ اور اس فیصلے کو حقیقت بنانے میں سراسر کوشش بھی تمہیں کرنی ہوگی۔۔ اللہ نے بندے کو دنیا میں آزمائش کے لئے بھیجا ہے، اور شیطان کے بارے میں بھی تمہیں آگاہ کردیا ہے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، پھر بھی کتنے لوگ اس دشمن کی باتوں میں آکردنیا ہی میں جنت سے نکال دئے جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں اہم اور مقدس رشتوں کو کبھی بھی تقدس کے اُس مقام پر نہیں رکھا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔۔ اُس پر غضب یہ کہ مغربی معاشرے سے متاثر فی زمانہ کئی لوگ ازدواجی زندگی میں برابری قائم رکھنے کی تگ و دو اپنے اصلی مقام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اِس رشتے میں برابری نہ فطرت کی رُو سے ممکن ہے نہ کسی عقلی دلائل سے ثابت۔۔ لیکن انسانی نفس شیطان کے شر کی وجہ سے کبھی کبھی بدی پر مائل ہو جاتا ہے۔۔ جبکہ اللہ نے مرد کو حاکم کہا ہے، اُس میں اپنی روح پھونکی ہے اور اُسے اپنے جیسی کئی خوبیاں دی ہیں،  جب وہ تمہارے رزق کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے اور تمہیں لا کھلاتا ہے تو وہ رازق ہے، جب زمانے کی دھوپ سے تمہیں بچانے کے لئے تم پر سختی کرتا ہے یا پابندی لگاتا ہے تب وہ حفیظ ہوتا ہے، تمہاری غلطیاں درگزر کر کے کبھی غفور کبھی تمہاری تکلیف آسان کر کے رحیم الغرض وہ ایسی کئی خوبیوں سے نوازا گیا ہے جو خود اللہ کی بھی  ہیں، مگر اس سب کے باوجود وہ بلآخربشر ہے اور اُس میں بھی کچھ خامیاں ہونگی، کبھی کبھی وہ عادت سے ہٹ کر کچھ غیر متوقع کر دے گا، تو اُس وقت بدگمان ہونے کے بجائے اُس کیفیت کو چمجھنے کی کوشش کرنا جو اِس روّیے کی وجہ بنی۔۔
  بانو قدسیہ نے لکھا تھا کہ انسان ہمہ وقت نیکی اور بدی کی کشمکش میں پھنسا رہتا ہے، دل جو ربِ کائنات کے نام سے دھڑکتا ہے اُسے اطاعت اور نرم روی کی ترغیب دیتا ہے جبکہ شیطان اُسے خودغرضی پر اُکساتا ہے، بیٹی ایسے موقعوں پر ہمیشہ دین تمہارے لئے راہبر کا کام کرے گا۔۔ جب تمہارا دل اور دماغ کسی بات پر ایک دوسرے کے مخالف ہوجائیں تو یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ دین اس معاملے میں تمہیں کس روّیے کی تجویز دیتا ہے، اور اگر کبھی جلدبازی میں جو شیطان کا سب سے کارگر ہتھیار ہے کوئی غلطی کر بیٹھو تو ابلیس مت بننا، آدم بننا اور معافی مانگ لینا، آسمان کے خدا سے بھی اور اُس سے بھی جس کو اللہ نے زمین پر تمہارا خدا بنایا ہے۔ 

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دو فرد ایسے ہیں جن کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی (قبول نہیں ہوتی):
1۔اپنے مالکوں سے بھاگا ہوا غلام،جب تک واپس نہیں آجاتا۔
2۔خاوند کی نافرمان عورت،جب تک اسے راضی نہیں کر لیتی۔"
مستدرک حاکم:183/4،ح:8330۔السلسلة الصحيحة:288

بس کسی کے مقام کا تعین کرنے کے لئے اس سے بڑی دلیل کیا ہوگی، جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اُسکے معاملے میں بلاشبہ احسان کرتا ہے۔۔ لیکن ہمارے چلن اس سے کتنے مختلف ہیں، ہمیں ساری عمر جس کا سب سے زیادہ مشکور رہنا چاہئے اور جس کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے، ہم اُسکے ساتھ انا کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ شروع کردیتے ہیں، ہم مقابلہ اور موازنہ کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس معاملے میں ہمارے لئے دین نے کوئی حجت نہیں چھوڑی، ہمارے حقوق اور فرائض کی بہترین وضاحت کی گئی ہے، مگر ہم حقوق کو یاد رکھتے ہیں اور فرائض کو بھول جاتے ہیں، اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اگر سب اپنے فرائض صحیح طور پر پورے کریں تو کسی کی حق تلفی نہ ہو، اور پھر کسی انسان کی زرا سی کمزوری پر ہم شکایت اور بدگمانی کا ایک لمبا سلسلہ کھول بیٹھتے ہیں، بھول جاتے ہیں کہ انسان تو ہم بھی ہیں اور غلطی ہم سے بھی ہوتی ہے۔۔اور جانے ہماری کتنی ہی غلطیوں کو سامنے والا ہم پر جتائے بغیر درگزر کردیتا ہوگا۔۔ ہم سامنے والے سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری طرح سوچے یہ نہیں سوچتے کہ مختلف زاویوں کی سوچ سے کیسے بہتر راہ نکالی جائے۔۔ خیر صبر برداشت تو اس قوم سے مجموعی طور پر ختم ہوتا جا رہا ہے۔۔ 
یہ تو ہے دین اور خوفِ خدا کی بات لیکن اس تعلق میں ایک چیز اور بھی ہے جو شاید سب سے زیادہ اہم مگر سب سے زیادہ نظر انداز کی جانے والی ہے۔
اور وہ ہے محبت، جو دنیا کی ایسی واحد طاقت ہے کہ انسان سے وہ کچھ کرواسکتی ہے جس کا وہ کبھی خود سے گمان بھی نہیں کرسکتا ہو، یہ انسان کو اُسکا اپنا آپ بھلا دیتی ہے۔ محبت کرنے والا انسان حقوق اور فرائض کی بحث یا ناپ تول میں نہیں پڑتا، وہ بہت کچھ منطق کے بغیر کرتا ہے، جو نہ اُس پر فرض ہوتا ہے، نہ کسی اخلاقی حدود میں اُس پر لازم ہوتا ہے مگر وہ احساس کرتا ہے، ایسی کئی چیزیں ساتھ ایک دوسرے کے لئے کرتے ہیں جنہیں جتانے یا بتانے کی نہیں محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ہماری محبتیں سارے زمانے کی ہوتی ہیں سواےٴ اُسکے جسکا اس محبت پر ہر قسم کا حق ہے، اس حقدار کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور اپنے ارد گرد ایسے کئی لوگ جمع کرلیتے ہیں جو سیاسی پارٹیوں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف مہم چلانے میں مدد دے سکیں۔ یہ نہ صرف اس تعلق کی تذلیل ہے، بلکہ یہ اللہ کے احکامات سے کھلی جنگ ہے۔۔ بس اس جنگ کا خاتمہ ہونے تک انسان اپنی دنیا اور آخرت کے لئے دوزخ تیار کر چکا ہوتا ہے۔ 
کچھ باتیں سوچ کر لگتا ہے کہ یہ کتنی ناقابلِ برداشت ہیں، مگر ہر قسم کے رد عمل کا مظاہرہ کرنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ زندگی پر اُنکا کوئی اثر نہیں پڑتا اگر ہمارا ردعمل ہمارے قابو میں ہوتا۔۔ ایسے بہت سے موقعوں پر ثابت قدمی یہ ظاہر کرے گی کہ تم نے دین اور دنیا کے لئے کیا کمایا ہے۔ کئی موقعوں پر یہ ہمت ٹوٹ جایا کرے گی، غلطیاں ہونگی، شیطان کا دام با اثر ہوگا، تب سب سے زیادہ ضروری  یہ ہوگا کہ چیزوں کو مزید خراب کیا جائے یا تصحیح کی طرف لوٹا جائے۔۔ 
ایسی ہر مشکل میں حدیث کے مطابق صبر اور نماز سے مدد لینا، یا کسی ایسے مخلص دوست سے جو حق اور صبر کی تلقین کرنے والا ہو، اور کوشش کر کے یہ دوست اُس ہی میں تلاش کرلینا جس کے ساتھ اب یہ ساری عمر گزارنی ہے۔ اللہ نے تم دونوں کو ایک دوسرے کا لباس بنایا ہے۔۔ تم ایک دوسرے کا آئینہ بھی بن جانا، ایسا آئینہ جو ایک دوسرے کی بہتریں اور شفاف عکاسی کر کے ایک دوسے کے عیوب کو ختم کروانے میں مدد دے، ایسا آئینہ جو اپنے اندر پڑنے والی دراروں کو بھرنے کی قوت رکھتا ہو، اور ایسا آئینہ جو کبھی کسی شر کی وجہ سے دھندلا نہ جائے۔
دعا کروں گی کہ زندگی کی تمام آزمائشوں کو ایک دوسرے کی محبت کی بدولت آسائش میں بدل لو۔ آمین
                                                                                                              تمہاری ماں                                                                                    

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...