Friday, July 21, 2017

شاپنگ مالز بحیثیتِ تفریحی مقامات

موسم گرما کی طویل تعطیلات جہاں آغاز میں ایک لمبے آرام و سکون کی نوید لے کر آتی ہیں، وہیں گزرتے گزرتے اِن کا گزارنا مشکل ہوجاتا ہے اور آرام کر کر کے انسان اوب جاتا ہے۔ اسی لئے یہ تعطیلات اکثر متعدد پکنکوں اور تفریحی مقامات پر سیر و تفریح کی نذر ہوجایا کرتی ہیں۔ گو کہ بچپن گزرے کافی وقت نہیں ہوا اسلئے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں یہ تعطیلات کیسی ہوتی تھیں، امیّ تو صبح مرغے کی بانگ کے ساتھ اُٹھ جانے کی عادی رہی ہیں اور ایک بار وہ اُٹھ جائیں تو کسی کو سونے نہیں دیتیں تھیں، سو تعطیلات میں بھی ہم اکثر سویرے ہی اُٹھ جایا کرتے۔۔ مشترکہ خاندانی نظام کے کئی فائدوں میں سے ایک یہ بھی فائدہ تھا کہ گھر کے باہر جا کر کھیلنے کے لئے دوست نہیں بنانے پڑتے تھے، گھر کے صحن میں ہی سہولت سے سارا دن دھما چوکڑی مچائی جا سکتی تھی، پھر اسی اہتمام سے دن کے باقی کام ہوتے تھے جیسے آم کھانا، کھانے پر فرمائیشیں کرنا، اور ہوم ورک کرتے ہوئے ڈانٹ کھانا وغیرہ وغیرہ جب پھوپھی کے بچے اپنے گھر لوٹتے تو ہم بھی نانی کے گھر کو رختِ سفر باندھتے، نانی کے گھر کے مزے ہی اور ہوا کرتے ہیں، ویسے تو وہاں ہونا خود ہی ایک سیر و تفریح ہے پھر بھی ماموں اکثر یا تو قریبی پارکوں میں گھُما لاتے یا کبھی زیادہ موڈ میں ہوں تو ہم کسی بڑے تفریحی پارک بھی گھوم آتے۔۔ اسی طرح ایسی کئی تعطیلات میں ہم نے سمندر کی بھی خوب سیر کی ہے۔
 الغرض کوئی دس پندرہ سال پہلے بچوں کی تفریحات یہی تھیں اور اس کے لئے وہ بڑوں کی شمولیت کے بھی محتاج تھے۔ ایسی ہی طویل چھٹیاں اس سال بھی آئیں جیسی پچھلے چند سالوں سے آتی ہین جس میں نہ کوئی نانی کے گھر جا پاتا ہے، اور نہ کوئی پھوپھی کے بچے ہمارے یہاں آ پاتے ہیں، ٹیکنالوجی نے لوگوں کو ذہنی طور پر یہ باور کروادیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں اتنے قریب کہ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے جب چاہیں ایک دوسرے تک مکمل رسائی حاصل کرسکتے ہیں، اور اسی جھوٹے احساس نے قرب اور فاصلوں کی معنویت کو مسخ کردیا ہے، ایسے حالات میں وہ دس سال پہلے والی ملاقاتوں اور باتوں کا تو سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے، مگر جس چیز میں ایک عجیب سا بدلاؤ آیا ہے وہ ہے ’’تفریحی مقامات‘‘ کراچی شہر کا بے ہنگم  ٹریفک تو ویسے ہی انسان کو باہر نکلتے ہوئے ہراساں کردیتا ہے اوپر سے شہر کے حالات اور خود کراچی والوں نے اپنے اعمال کی شامت سے اپنی زندگیاں مشکل بنا دی ہیں، پارکوں کو اب محفوظ نہیں چھوڑا کہ کوئی شخص کھُلی ہوا میں سکون کا سانس ہی لے لے، سمندر کو گٹر بنا دیا ہے، یعنی تفریح کی نیت سے باہر نکلنے والا شخص اچھا خاصا ذہنی دباؤ لے کر گھر لوٹے۔۔
جی تجربہ  کچھ ایسا ہی عجیب تھا جب میَں نے ایک دن کسی جگہ گھوم آنے کا سوچا، اور ہر ممکن طریقے سے اس سوچ کو پوار کرنے کی تگ و دو کی۔۔ لیکن تمام لوگوں کی مشترکہ رائے ایک نئے شاپنگ مال جانے کی تھی جبکہ جہاں تک میری معلومات تھی خریدنا تو ہمیں کچھ نہیں تھا! خیر وہاں جا کر معلوم ہوا کہ خریدنے تو یہاں کوئی نہیں آتا سو ہم بھی اعتماد سے ادھر ادھر گھومتے رہے اور اے سی کی ہوا کھاتے رہے۔ 




                                             


تشویش تب ہوئی جب بصیرت وہ دکھانے لگی جو وہاں موجود اور گھر بیٹھے لوگ جو ان شاپنگ مالز کو تفریحی مقام سمجھتے ہیں وہ نہیں دیکھ پاتے۔ ایشیا کے سب سے بڑے مال میں  جہاں ایک کونے سے دوسرے کونے تک مہنگے برانڈ کی دکانیں ہیں مگر خریدنے والے دور دور تک نہیں! ہوں بھی کیسے جب کراچی کی اسّی فیصد آبادی کی قوتِ خرید ہی اتنی نہیں، جہاں غریب لوگ عیدوں پر بھی نئے کپڑے نہیں بنا پاتے وہ عید کے دن تیار ہو کر ایسے ہی کسی مال میں پہنچ جاتے ہیں اور دس دس ہزار کے مہنگے جوڑے دیکھ کر حسرت کرتے ہیں، سیلفیاں بناتے ہیں اور واپسی میں سوئیٹ کارنز کھا کر آجاتے ہیں بعد ازاں فیسبک پر ایک اسٹیٹس لگایا جاتا ہے کہ فیلنگ یہ فیلنگ وہ۔۔  
بچپن میں برکاتِ حیدری مارکیٹ  سے ملحق ایک مسجد کی دیوار پر حدیث  پڑھی تھی کہ
 بستی کے بدترین مقامات اُن کے بازار ہیں

تب یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی، اُس وقت یہ سوچا تھا کہ شاید بازار میں اکثر لوگ فضول خرچی کرجاتے ہیں تو اسی لئے یہ بد ترین مقام ہوتے ہونگے، مگر اب ان شاپنگ مالز میں دعوتِ نظارا بن کر آنے والی بچیوں کو دیکھ کر اُس حدیث کا ہر لفظ ہتھوڑے کی طرح سر پر لگتا ہے۔
یہ ایک برائی کتنی برائیوں کو جنم دے رہی ہے، ہماری نسلیں کس بے اراہ روی کی طرف گامزن ہیں، دکھاوا اور نمود و نمائش جیسی مہلک بیماری ان کی زندگیوں کا لازمی حصہ بن گئی ہے، آنکھوں سے حیا مکمل جاتی جا رہی ہے۔ 
تہذیب، ثقافت اور مذہبی ضابطوں کی بات تو بہت بعد کی ہے، ہم تو اپنی بنیادی سماجی اقدار کو بھی پیچھے چھوڑ آئے ہیں، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ان اقدار کو پیچھے چھوڑنے سے ہم آگے نہیں بڑھتے بلکہ پاتال میں پہنچ جاتے ہیں۔۔ اور پاتال میں پچھتاوں کا ایک گہرا اندھیرا ہے۔ 
ایک بزرگ یہ واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ اُن کے پاس ایک نوجوان یہ مسئلہ لے کر آیا کہ روزانہ اُس کے راستے میں بازار پڑتا ہے اور وہ بد نظری سے نہیں بچ پاتا، بزرگ نے اُسکو دودھ سے بھرا ایک گلاس دیا اور کہا کہ تم  بازار سے گزرو تو اس بات کا دھیان رکھنا کہ دودھ نہ چھلکے، نوجوان دونوں ہاتھوں میں دودھ تھامے رہا اور نظر دودھ سے ہٹنے نہ دی، ایک قطرہ بھی چھلک نہ پایا۔ سرشاری کی سی کیفیت میں بزرگ کے پاس پہنچا بزرگ نے کہا آج خود سے بد نظری کی شکایت تو نہ ہوئی، نوجوان نے کہا میرا دھیان دودھ سے ہٹ ہی نہ سکا جو کسی اور طرف جاتا۔ بزرگ نے کہا کہ اگر تم روزانہ بازار سے گزرتے وقت آخرت پر اور اللہ کے سامنے جواب دہ ہونے پر ایسے ہی دھیان رکھو تو بھی نظر اُٹھ نہ پائے گی۔۔

یہ بات تو طے ہے کہ ہم نے اللہ کے حضور اپنی جواب دہی کو یکسر فراموش کردیا
 ہے۔ اور اس کے نتائج ہمیں دنیا اور آخرت دونوں میں بھگتنے پڑ رہے ہیں، رشتے ہوں یا رزق برکت اٹھتی جا رہی ہے۔ ہمارے بچے اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا استعمال غیر نافع چیزوں کے لئے کرتے نظر آتے ہیں، سوچوں میں ایک عجیب انتشار کی سی کیفیت رہتی ہے۔۔
لیکن ہم سکون کی تلاش میں پھر اُنہی چیزوں کا رُخ کرتے ہیں کو فطرت سے بلکل اُلٹ ہیں
شاپنگ مالز جیسی رنگین جگہوں کو تفریحی مقامات بنانے کے بجائے انسان کا تعلق قدرت، قدرتی مناظر اور ان سب کے پیدا کرنے والے سے جوڑنا چاہیے، اس ضمن میں ماں باپ اور اہلِ خانہ کی ذمہ داری بہت زیادہ بنتی ہے کہ وہ چھوٹوں کو تفریح کے لئے مثبت مواقع فراہم کریں اور اُنہیں ایسی چیزوں سے متاثر نہ ہونے دیں۔ مگر اس سب کے لئے پہلے ماں باپ خود اپنی سوچ کا احتساب کریں کہ کہیں وہ بھی ایسی ہی وقتی اور سستی تفریح کے لئے طویل مدتی نقصان اُٹھانے کے حامی تو نہیں

اللہ  ہم  سب  کو  ہمارے  نیک  مقاصد  میں  کامیاب  کرے  اور  ہمیں  معاشرے  کی  فلاح  کے  لئے  فعال  کردار  ادا  کرنے کی  توفیق  دے۔ 
  آمین  

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...