Tuesday, October 9, 2018

پاگل

تنگ آگئی ہوں میں اس لڑکی سے، ساری رات جاگتی رہتی ہے، صبح اُٹھ کر بغیر ناشتہ کئے کالج چلی جاتی ہے، واپس آئے گی تو سارا دن کمرے میں بند رہتی ہے، گھر میں کوئی آئے جائے اسے کوئی غرض نہیں۔۔
امّی شدید پریشانی میں بڑے بھائی سے ثمرہ کی کیفیت کا تذکرہ کررہی تھیں، ثمرہ ہمیشہ سے ہی کم گو تھی، مگر اب جو رویہّ اُس نے اختیار کرلیا تھا ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔۔
دیکھ لیں امّی مجھے تو لگ رہا کہ کالج جا کر بھی پڑھائی وغیرہ کررہی ہے یا نہیں، کہیں کسی غلط صحبت میں نہ پڑ گئی ہو۔۔ بھابی نے امّی اور بھائی کی سوچ کو ایک نیا رُخ دے دیا۔۔
اللہ نہ کرے بہو۔۔ امیّ روح تک کانپ گئیں، اور اُنہیں احساس ہوا کہ اُنہیں بہو کے سامنے بیٹی کے بارے میں اس طرح بات نہیں کرنی چاہیئے تھی، اُنہوں نے دل ہی دل میں خود کو کوسا۔۔ 
اُنہوں نے اگلے دن ثمرہ سے کہا۔
ثمرہ کیوں اس طرح بی ہیو کرنے لگ گئی ہو تم۔۔ 
کیا امیّ میں نے کیا کیا؟ ثمرہ کا لہجہ انتہائی سست اور پژمردہ تھا، امی کو اُس کی آواز تک عجیب لگی
بیٹی کیوں اس طرح سارا دن کمرے میں بند رہتی ہو، کوئی مسئلہ ہے؟ پڑھائی میں کوئی مسئلہ ہے؟ کچھ چاہئیے ؟ یا کوئی اور ایسی بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے تو مجھے کہہ دو بیٹی میں تمہاری مدد کروں گی۔۔ امّی نے ہر ممکن بات جو اُن کے دل میں تھی کہہ دی، وہ واقعی اُسکی مدد کرنا چاہتی تھیں، وہ ڈانٹ ڈپٹ اور بے جا سختی کی روادار نہ تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کی کیفیت کو سمجھ سکیں تاکہ اُس کی بہتر مدد ہو سکے۔۔ 
ثمرہ نے ایک دم عجیب نظروں سے امّی کی طرف دیکھا۔۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ 
یا اللہ ثمرہ کیا ہوا ہے بولو؟ امّی جو پہلے سے ہی پریشان تھیں مزید پریشان ہوگئیں۔۔
ثمرہ نے اپنا سر امی کی گود میں رکھ دیا۔۔ 
مجھے نہیں معلوم امی کہ کیا ہوا ہے، میرا کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہتا، نا کھانے کا نہ پڑھنے کا نہ کسی سے بات کرنے کا، مجھے کلاس میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے، میں سب کچھ ٹھیک سے کرنا چاہتی ہوں لیکن مجھ سے کچھ بھی نہیں ہورہا۔۔ 
چپ ہوجاؤ بیٹا پلیز۔۔ کوئی بات نہیں اللہ چاہے گا تو تم بلکل پہلے جیسی ہو جاؤ گی۔۔
امی میری دل میں بہت برے برے خیال آتے ہیں۔۔ ثمرہ نے ایک اور انکشاف کیا۔۔
امی کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔۔ اُنہیں احساس ہوا کہ یکے بعد دیگرے ابوّ کی موت جیسے حادثے، پھر بھائی کی شادی اور پوتی کی پیدائش نے امی کو اتنا مصروف کئے رکھا کہ ثمرہ یکسر نظر انداز ہوتی گئی۔۔ لیکن اُنہوں نے فوراً اُسکی مدد کرنے کا سوچا۔۔ 
رات کو امی اُس ہی کے کمرے میں آگئیں۔۔ اور دیر تک اُس سے کئی باتیں کیں۔۔ امیّ نے محسوس کیا کہ اُسکی آنکھوں کے گرد حلقے کتنے گہرے اور کالے ہوگئے تھے، بستر سے اُترتے ہوئے امی کی نظر سائڈ میں رکھے ڈسٹ بن پر پڑی تو وہ ٹوٹے ہوئے بالوں سے بھرا تھا۔۔ یقینناً ثمرہ کے بال تیزی سے جھڑ رہے تھے۔۔ 
امّی نے وضو کیا اور جائے نماز پر کھڑی ہوگئیں، رات کے تین بج رہے تھے، ثمرہ سو چکی تھی اور امی جائے نماز پر بیٹھ کر یہ سوچ رہی تھیں کہ ثمرہ کی مدد کیسے کی جائے۔ 
پہلا خیال جو کسی بھی ایشیائی ماں کے دل میں آتا وہ یہی تھا کہ شاید اُس پر کسی جن بھوت کا اثر ہے۔۔ 
اُن کے لئے سب سے مشکل کام تھا کہ ثمرہ کا مسئلہ وہ کس کے ساتھ شئیر کریں کیوں کہ بہو کہ تجزیے نے اُنہیں اس معاملے میں بہت ڈرا دیا تھا۔۔ 
امیّ نے بری چیزوں سے حفاظت کرنے والے کئی وظیفے کرنے شروع کردیے مگر ثمرہ کا جن اُن وظیفوں سے ٹلنے والا نہ تھا۔۔ 
تھوڑے دن اسی تگ و دو میں گزرے، امی نے گھر کے کاموں میں مدد کروانے کے لئے ماسی کا انتظام کیا، اور سارا کام اُسکو سمجھا کر خود ثمرہ کو زیادہ وقت دینے لگیں۔۔ امّی ہر دن اُسکے لئے کوئی نئی چیز ڈھونڈ کر رکھتیں، کبھی اُسکی پسند کا کئی اسنیک شام میں تیار ہوتا، کبھی امی کے بچپن کی پرانی تصویریں، کبھی کوئی نامکمل پینٹینگ جو وہ ثمرہ کے ساتھ پوری کرتی، کبھی شاپنگ اور کبھی کبھار وہ اُس کو کہتیں کہ لیپ ٹاپ پر کوئی فلم دیکھ لینی چاہئے۔ 
ان سب دنوں میں امی نے یہ محسوس کیا کہ ثمرہ پر کسی غلط صحبت یا عادت کا اثر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک الگ قسم کی کیفیت کا شکار ہے، توجہ دینے پر اور کوئی الگ یا نیا کام کرنے پر اُس کا چہرہ یکدم بدل جاتا ہے، مگر جیسے ہی وہ کام ختم ہوتا ہے، وہ دوبارہ اُس ہی کیفیت میں چلی جاتی ہے۔۔ 
اُنہی دنوں اخبار میں نفسیاتی امراض کی آگہی کے بارے میں تفصیلی فیچر چھپا۔۔ جس میں نو عمر لڑکے لڑکیوں میں ڈیپریشن کی بڑھتی ہوئی شرح کے بارے میں بتایا۔۔ یکایک امی کے ذہن میں یہ بات آئی کہ شاید ، ثمرہ کا جن بھی یہی ڈیپریشن ہے۔۔ 
امی نے بھائی سے اس کا ذکر کیا، کیونکہ کسی ماہر نفسیات تک امی اکیلے رسائی حاصل نہیں کرسکتیں تھیں۔۔
آپ کہنا چاہ رہی ہیں کہ وہ پاگل ہے؟ 
جاہلوں جیسی بات نہیں کرو، ہر نفسیاتی یا دماغی مرض پاگل پن نہیں ہوتا۔۔ امی نے غصے سے کہا
امی آپ اُسے سائیکیٹرسٹ کے پاس لے جانا چاہتی ہیں۔۔ بھائی نے پھر کہا۔۔
ہاں تو؟ 
امی پلیز۔۔۔ 
کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔ 
امی لوگ کیا بولیں گے، میری بہن پاگل ہے، نفسیاتی مریض سے، اللہ نہ کرے کہ بات پھیل گئی تو اُس کے رشتوں میں بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔۔ 
میرے لئے لوگوں کی باتوں سے زیادہ ثمرہ کی صحت اور اُس کا سکون ضروری ہے۔۔ رہی بات شادی کی تو وہ ابھی صرف انیس سال کی ہے، میں صرف اُسے لوگوں کی باتوں اور رشتے نہ ہونے کے ڈر سے ایسی زندگی گزارنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتی۔۔ تمہیں تو اس بات کو مجھ سے بہتر سمجھنا چاہیئے۔۔ تم مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے ہو، بیٹا، جیسے نزلہ زکام کسی کو بھی ہو سکتا ہے ویسے ہی یہ بھی ایک بیماری ہے۔۔ اگر ہم نے اس وقت اس چیز کو اہمیت نہ دی تو ہمارے لئے بعد میں مسئلہ بن سکتا ہے۔۔ 
بھائی چپ ہوگیا۔۔ اُس کو واقعی احساس ہوا کہ اُسکی سوچ کتنی غلط تھی۔۔ 
تھوڑے دن بعد اُس نے امی کو آکر کہا۔۔ 
امی میرا ایک دوست ہے اُسکی مامی بہت اچھی سائیکیٹرسٹ اور کاؤنسلر ہیں، شاید آپ نے اُن خاتون کو ٹی وی پر بھی دیکھا ہو۔۔ سب سے اچھی بات جو مجھے لگی وہ یہ کہ وہ ثمرہ جیسے بچوں کو جنہیں خود اپنی بیماری کا نہیں معلوم ہوتا،  اُن سے مریض کی طرح نہیں مہمان کی طرح ملاقات کرتی ہیں، اب میں کسی دن وقت لے کر ثمرہ کو بہانے سے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔۔ اور اُن سے ملواؤں گا۔۔ 

یہ تمام مراحل بہت مشکل تھے۔۔ کئی جھوٹ بولے گئے،، بہانے ہوئے اور کسی طرح ثمرہ کو سائیکیٹرسٹ سے تین بار ملوایا گیا۔۔ ثمرہ پہلی ملاقات کے بعد بہت خوش تھی کہ آنٹی بہت اچھی اور دوستانہ ہیں، اور تیسری بار سائیکیٹرسٹ نے اُسے ایک دوست کی حیثیت سے مال کے فوڈ کورٹ میں کھانے پر بلایا جہاں ثمرہ کا جن بلاآخر باہر آگیا۔۔ 
سائیکیٹرسٹ نے اس ملاقات کے بعد امی کو فون کیا۔۔ اور اُنہیں بتایا، کہ ابو کی موت نے اور امی کی عدم توجہی نے ثمرہ کے اندر ڈیپریشن کو اُکسایا مگر اُس کے بعد کئی ایسی چیزیں ہوتی گئیں کہ ثمرہ کا ہلکا سا صدمہ اور اکیلا پن ایک مکمل بیماری بن گیا۔۔ اسکول میں وہ جس ٹیچر کے ساتھ کافی قریب تھی اور اُسے بہت پسند کرتی تھی، اُس نے اسکول ختم ہونے کے بعد ثمرہ سے بہت برا رویہ رکھا، اور پھر رابطہ ختم کردیا، یہ وہی دن تھے جب وہ اپنے والد کے انتقال کے دکھ میں تھی اور چاہتی تھی کہ وہ ٹیچر اُس کو دلاسہ دے، وہیں امی بھی عدت اور ابو کے دکھ میں باقی لوگوں کو یکسر بھول گئی تھیں۔۔ کالج میں اُسکی کلاس کی لڑکیوں نے اُسکے دکھ اور حساسیت کو مذاق کا نشانہ بنایا اور اُس سے دوستی ختم کرلی، گھر میں بھابی آئیں تو اُن کا رویہ بھی دوستانہ نہ تھا، اور بھائی بھی دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے دور ہوگیا۔۔ ثمرہ کی صحت متاثر ہوئی اور اُس کے جسم میں ہارمونز اور اُن سے بننے والے کیمیائی مادّوں نے اپنا توازن کھو دیا۔۔ 
مجھے شک ہے کہ اُسکا ہیموگلوبن بھی کم ہوگا۔۔ اور اگر یہ زیادہ کم ہوجائے تو دماغ تک خون کی عدم رسائی کی وجہ سے کبھی کبھی جسم میں خون کا فشار اتنا کم ہوجاتا ہے کہ انسان کے ہاتھ پیر اکڑنے لگتے ہیں اور آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں تو ہم جیسے نابلد کہتے ہیں کہ ارے! دورہ پڑ گیا جن آگیا۔۔ تو پلیز ایسی صورتحال نہ آئے اس لئے میں آپ کو چند ٹیسٹ لکھ کر میسج کررہی ہوں، آپ ثمرہ سے یہی کہیئے گا آپ کو لگتا ہے کہ اُسے خون کی کمی ہے اس لئے یہ ٹیسٹ ہورہے ہیں، اور بعد ازاں دوائیاں بھی یہی کہہ کر دیجیئے گا کہ یہ سپلیمینٹس ہیں۔۔ کوشش کریں کہ اچھی ایکٹیوٹیز میں وقت گزارے، اچھی کتابیں پڑھے، یا کچھ بھی ایسا جس سے وہ اچھا محسوس کرے ورنہ بے مطلب باتیں سوچ کر اور دُکھی موسیقی سن سن کر وہ خود کو مزید بیمار کر لے گی۔۔ 
امی کو بے حد افسوس ہوا کہ اُن کی بے اعتنائی نے ثمرہ کو تکلیف میں مبتلا کئے رکھا، لیکن اُنہوں نے اللہ کا شکر کیا کہ وقت رہتے نہ صرف اُنہیں ادراک ہوگیا، بلکہ اُنہیں ایک بہتر علاج بھی مل گیا۔۔

***********************                                  

اُف کتنے عرصے بعد مل رہے ہیں تم سے تہمینہ ۔۔ چچی نے بولا
ہاں بھئی مجھے تو لگ رہا تھا اب بھی نہیں مل پائیں گے۔۔ تائی جاں بھی ساتھ تھیں۔۔
نہیں بس میں نے اس بار بہت دعا کی کہ ایک بار سب سے مل لوں کیونکہ پھوپھی جان اتنی دور سے آئی ہیں تو میں یہ موقعہ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔۔ 
اچھا تو تم صرف پھوپھی سے ملنے آئی ہو۔۔ تائی نے مصنوعی ناراضگی دکھائی۔۔ 
کیوں بھئی تم کیوں نہیں ملتیں ان سب سے۔۔ پھوپھی نے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔۔ 
پھپھو جان ان کی ساس پاگل ہیں نا، تو یہ ہر وقت اُن کے ساتھ رہتی ہیں، اُن کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتے۔۔ 
یہ جملہ چچی کی بارہ سالہ بیٹی نے بولا تھا جو یقیناً اُس نے بڑوں سے سُنا تھا۔۔ 
تہمینہ نے ناراضگی سے سب بڑوں کی طرف دیکھا۔۔ سب کی نظریں جھک گئیں، کیونکہ وہ سب پیٹھ پیچھے یہی الفاظ استعمال کرتے تھے۔۔
پھپھو نے جانچتی ہوئی نظروں سے سب کو دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ کیا معاملہ ہے،
اتنی دیر میں تہمینہ نے اُس بارہ سالہ بچی کو مخاطب کر کے بولا،

نہیں بیٹا وہ پاگل نہیں ہیں کیونکہ دماغ کی ہر کمزوری یا بیماری پاگل پن نہیں ہوتی اُنہیں صرف او سی ڈی ہے 
اس بیماری میں مریض ایک کام کو جنون کی حد تک بار بار دوہراتے ہیں اور مطمئن نہیں ہوتے، اسی لئے وہ کئی بار وضو کرتی ہیں اور اپنی نماز سے بھی غیر مطمئن رہتے ہوئے کئی بار نماز پڑھتی ہیں، رات میں اکثر اُنہیں خدشہ رہتا ہے کہ اُنہوں نے گھر کے مرکزی دروازے کے تالے چیک نہیں کئے اور وہ بار بار اُٹھ کر تسلی کرتی ہیں کہ گھر محفوظ ہے، ایسے شخص کی دیکھ بھال کے لئے ہر وقت کسی ایسے انسان کو اُن کے پاس ہونا چاہئے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ بیماری خود مریض کے لئے بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے، اور اُن کے رویوں کو تحمل سے برداشت کرتے ہوئے اُن کا دھیان دوسری چیزوں کی طرف لے جانے کی کوشش کرے۔ یہ کوئی پاگل پن نہیں بس دماغی میں موجود ہونے والے ہارمونز اور دوسرے کیمیائی مادّوں کے عدم توازن کا نتیجہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ سب جاہل لوگ دماغ کی ہر بیماری کو پاگل پن سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم ہی ایسے مریض ہیں جو ان بیماریوں سے جان چھڑا پاتے ہیں، کیونکہ اُنکی کیفیت کو اُن کے اپنے گھر والے اور عزیزو اقارب مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔

تہمینہ کہتی رہی اور گھر کے تمام بڑے سے جھکائے سنتے رہے۔۔

***********************                          
مائدہ ایک ایسے ماحول میں رہی تھی جہاں اللہ سے زیادہ ابّا سے ڈرا جاتا تھا، بلاضرورت گھر سے باہر جانا، دروازے پر کھڑے رہنا، دوستیاں کرنا، اور زیادہ ہنسنا بولنا ابا کو سخت ناپسند تھا، مائدہ اور اس کی تین بہنیں گھر کے اندر والے کمرے میں ہی زیادہ تر رہتیں یا پھر باورچی خانے میں امّا کا ہاتھ بٹاتیں 

اسکول ختم ہوا تو ابا نے کالج جانے کی سخت مخالفت کی، مگر اُس ہی سرکاری اسکول کی استانی نے بتایا کہ اب اسکول میں ہی گیارہویں اور بارہویں جماعت کا نصاب پڑھایا جائے گا، گویا اسکول کے ہی چند کمروں میں کالج ہوگا، تو ابا کو کوئی اعتراض نہ ہوا کیونکہ اسکول گلی کے کونے پر ہی تھا، اور محلے کی کوئی بیس پچیس لڑکیاں وہاں ساتھ جاتی تھیں۔۔ 
بارہویں کا امتحان دینے کے بعد مائدہ نے پرائیویٹ پڑھنے میں ہی عافیت جانی اور اسی طرح وہ بی اے پاس کر گئی مگر سرکاری اسکول اور اس کے بعد پرائیویٹ بی اے کرنے سے نہ اُس کی شخصیت ہی میں تعلیم یافتہ لوگوں جیسا کوئی بدلاؤ تھا، نہ ہی اُسے اس تعلیم سے کوئی دنیاوی شعور ملا تھا۔۔ 

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ، ابّا کی بدستور گرتی صحت نے اُنہیں بستر سے لگا دیا، اور گھر میں ذریعہ معاش کچھ نہ بچا۔۔ اماں نے کوشش کی کہ محلے کی بچیاں اُن سے سلائی یا مائدہ سے ٹیوشن پڑھنے آجائیں مگر محلے میں زیادہ دوستی اور بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی لڑکی نے آنا مناسب نہ سمجھا، دوسرا یہ کہ سرکاری اسکول میں مارے باندھے پڑھنے والی وہ لڑکیاں ٹیوشن نہیں پڑھ سکتی تھیں۔ 
پھر اسکول کی استانی نے اُسے اپنے بھائی کے کمپیوٹر سینٹر میں ریسیپشن کی جاب کی پیشکش کی، مائدہ اس جاب کے بارے میں  کچھ نہیں جانتی تھی، مگر استانی نے وعدہ کیا کہ اُنکا بھائی بھرپور مدد اور تربیت کرے گا، مائدہ اس طرح کی نوکری کے لئے خود کو موذوں نہیں سمجھتی تھی، پھر بھی اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔۔ نوکری شروع ہوگئی اور ساتھ میں مائدہ کی ذہنی الجھن بھی۔۔ کبھی گھر سے نہ نکلنے والی لڑکی کو بس سے ایک اسٹاپ کا سفر کر کے سینٹر پہنچنا پڑتا، اور جہاں لڑکیوں سے دوستی کی بھی اجازت نہ تھی، وہیں روز کئی لڑکے لڑکیوں کے بے مطلب سوالات کا جواب دینا پڑتا، اس کے عدم اعتماد نے بہت جلد اسے مذاق کا نشانہ بنوانا شروع کردیا، اور اس کا شدید رد عمل اُس کے ذہن نے اینزائٹی اٹیک کی صورت میں دیا، گھر کے حالات کی وجہ سے نوکری چھوڑنا ناگزیر تھا، اور اپنی عادتوں کی وجہ سے نوکری جاری رکھنا مزید مشکل، ایسے حالات میں وہ جب بھی کسی کی آنکھوں میں خود کے لئے تمسخر دیکھتی اُس کے ہاتھ کانپنے لگ جاتے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی، اور جب یہ کیفیت شدید ہوتی اُس کا سانس گھٹنے لگ جاتا۔۔ 
ان حالات سے پیدا ہونے والے سٹریس نے اُس کے ہارمونز کو بھی متاثر کیا، مائدہ کا ذہن سوچوں میں اس قدر الجھا رہتا کہ اُس کو یہ تک اندازہ نہیں ہوتا کہ اُس کا پیٹ بھر گیا ہے یا نہیں اور وہ کھانے بیٹھتی تو کھاتی ہی جاتی، نتیجتاً اس کا وزن کچھ ہی مہینوں میں کئی کلو بڑھ گیا۔۔ پیروں پر ہر وقت سوجن رہنے لگی، سر اور کندھے بھاری رہنے لگے، بال جھڑ گئے، چہرہ مہاسوں سے بھر گیا۔۔ کوئی کہتا کہ اس عمر میں اکثر لڑکیوں میں یہ بدلاؤ آجاتا ہے، کوئی کہتا کہ مائدہ کو تھائرائڈ کا مسئلہ ہوگیا ہے، لیکن مائدہ کی ماں اس کے لئے کچھ نہ کر سکتی تھیں، کیونکہ اُن کے معاشی مسائل اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے۔۔ 

***********************                          


ان مثالوں جیسےکتنے ہی لوگ ہمارے آس پاس اپنے ہی آپ میں ایک جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ہم اُن کی طرف مدد کا ہاتھ نہیں بڑھاتے، کیونکہ ہماری سوسائٹی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ یہ پاگل پن ہے، ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ تمہارا ڈیپریشن تمہاری ناشکری ہے، سب کچھ تو ہے تمہارے پاس پھر تمہیں کس بات کا دکھ ہے، اور ایسے ہر رویّے کو روا رکھتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہین کہ کوئی بھی خود اپنے لئے اس ذہنی اذیت کو پسند نہیں کرتا، وہ مجبوراً اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ 

ہمارا معاشرہ جس تیزی سے اخلاقی اور معاشی بحران کی طرف گامزن ہے، اس ہی تیزی سےان بیماریوں کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اپنے آس پاس لوگوں کے مسائل کو سمجھیں، ان کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھائیں، اور کچھ نہیں تو اُن کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئیں۔ 

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...