Friday, September 7, 2018

میرا بیٹا ۔۔ مرد نہیں ہے


سات سال ہوگئے لیکن اُس خط کا ایک ایک لفظ مجھے آج بھی اَزبر ہے، ہمیں زندگی سے اتنا کچھ ملا ہے کہ ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ لوگ کس کس طرح کی محرومیوں میں زندگی گزارتے ہیں اور ان محرومیوں کا اُن کی سوچ پر کیسا اثر پڑتا ہے۔

*********

یہ مدرز ڈے ہماری مارکیٹنگ کیمپین کے لئے بہت اہم ہوگا، اس کا بجٹ بھی ہم نے حتی الامکان بڑا رکھنے کی کوشش کی ہے، اور آپ سب لوگ جو اس ٹیم کا نیا حصہ ہیں، آپ سب سے ہمیں نہ صرف بہت امیدیں ہیں بلکہ آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے، اس کیمپین کی کامیابی میں جس کا جتنا کنٹریبیوشن ہوگا، اُس سے یہ فیصلہ ہوگا کہ نئی کرییٹو ٹیم کا مستقل حصہ کون بنے گا۔ 
کمپنی کا مارکیٹنگ مینجر زور شور سے بول رہا تھا۔ اور تمام نئے ٹیم ممبران کی شکلوں پر مختلف رنگ دیکھے جا سکتے تھے، کسی کی آنکھوں میں اپنی تخلیقی صلاحیات کی چمک تھی، تو کوئی اس بات پر پریشان تھا کہ اُس کے پاس صلاحیات کے نام پر صرف رٹّا لگا کر حاصل کی گئی ڈگری اور پرچی سے حاصل کی گئی نوکری ہے تو اس عملی میدان میں جھنڈے گاڑنے کے لئے اُس کے پاس کچھ نہیں۔۔ اور میَں؟ میَں ہمیشہ کی طرح اپنے خیالوں کے وسیع سمندر میں ٖغوطہ زن تھی جہاں آئیڈیاز گولہ بارود کی طرح تابڑ توڑ برس رہے تھے، مینجر ہمیں ۱۵ دن کی ڈیڈلائن دے رہا تھا جبکہ میں ۱۵ منٹ میں پوری اسٹریٹجی بنا چکی تھی، 
مس نمرہ؟ مینجر نے مجھے کھویا ہوا پا کر پکارا
جی۔۔۔ جی سر، مَیں چونکی
آپ سن رہی ہیں؟ اُس نے گھرکنے کے انداز میں پوچھا
جی سر۔۔۔ میں نے گھبرا کر کہا
ہممم۔۔۔ اُس کے اس ہممم سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ بھی کئی اور لوگوں کی طرح یہ خیال کر چکا تھا کہ میں گم صم تھی اور مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، اور نہ ہی میں اس معاملے میں کچھ کر پاؤں گی۔
میٹنگ ختم ہوئی۔۔
میرا آئیڈیا نہ صرف مشکل بلکہ بہت رِسکی تھا، اُس کو سب لوگوں کے سامنے سمجھانا میرے بس میں نہ تھا۔ 
اس لئے میَں نے فیصلہ کیا کہ کل اس آئیڈیا کو بہترین طریقے سے پریزینٹ کرنے کے لئے ساری تیاری کر کے آؤں گی اور مینجر کے سامنے دکھاؤں گی،
اور اگلے دن میں منجر کے سامنے تھی، وہ مجھے اتنا نالائق سمجھ چکا تھا کہ اُسے یقین تھا کہ میں اُس کا وقت ضائع کرنے آئی ہوں۔۔
جی مس نمرہ ، فرمایئے۔۔
اُس کی چڑھی ہوئی تیوری مجھے مزید ڈرا رہی تھی، پہلے ہی مجھے ڈر تھا کہ اگر اُسے یہ آئیڈیا سمجھ نا آیا تو کیا ہوگا، میں نے میں موٹیویشن پر جتنی کتابیں پڑھی تھیں سب سے سیکھے ہوئے اسباق کو ایک بار دل سے یاد کیا، کہ کاش یہ اصلی زندگی میں کارگر ثابت ہوجائیں۔ ایک گہری سانس خارج کی اور لیپ ٹاپ کھول کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
سَر ۔۔ ہم نے آج تک کسی بھی اہم دن پر جتنی بھی کیمپینز دیکھی ہیں وہ مثبت روّیوں اور جذبات کی بنیاد پر پیش کی جاتی ہیں، کیونکہ شاید یہ آسان ہے، اور لوگوں کے لئے پرکشش بھی، اس میں ہر میڈیوکر،، یعنی عام اور سطحی سوچ رکھنے والا انسان حصہ لیتا ہے۔۔ جبکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم اس سے ہٹ کر اپنی تھیم تھوڑی سی ٹویسٹڈ کردیں تو انٹیلجنٹ مائیں اس کی طرف ضرور متوجہ ہونگی جو تربیت کو روٹین کے کام کی طرح نہیں بلکہ اہم فریضے کی طرح کرتی ہیں۔۔
مینجر بغیر پلکیں جھپکے میری تمہید سن رہا تھا۔۔ 
بلاشبہ اسکو پریزینٹ کرنا اور عام پبلک تک اسی طرح پہنچانا بہت مشکل ہے وہ بھی تب جب ہم جانتے ہیں کہ اس قوم میں کامن سینس کی کتنی کمی ہے۔۔ لیکن اگر ایک بار یہ ہوجائے تو ہماری کیمپین کا مقابلہ کوئی اور کمپنی نہیں کرپائے گی۔۔
میں نے رُک کر مینجر کو دیکھا۔۔
اُس نے کہا ۔۔ آئیڈیا بتاؤ
میں نے تھوک نگلا۔۔
سر، ہم پوزیٹو چیز کو نیگیٹو کے انداز میں پوچھیں گے۔ ہم ماؤں سے یہ کہیں گے کہ اُن کا بچہ کیا نہیں ہیں۔۔ 
واٹ؟ کیا مطلب۔۔۔ مینجر نے بلند آواز میں کہا۔۔
سر، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُنہوں نے کس طرح کسی خاص قسم کی بری عادت کو ختم کرنے کے لئے اپنے بچے پر ورک آؤٹ کیا،، بلیو می ایسی بہت سی مائیں ہیں جو یہ کرتی ہیں۔۔ مثال کے طور پر آپ کو کوئی خط ملے جس میں لکھا ہو کہ میرا بیٹا جھوٹا نہیں ہے کیونکہ جب پہلی بار اُس نے اپنی غلطی چھپانے کے لئے جھوٹ بولا تب میں نے اُسے یہ اعتماد دیا کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے مگر اُس کو جھوٹ سے چھپانا گناہ ہے، میرے اعتماد نے اُسے سچ بولنے کی ہمت دی، اور میں نے اُسے شیخ عبدالقادر کا وہ واقعہ سنایا جب وہ ڈاکوؤں کہ ہاتھ لگ گئے تھے مگر اُنہوں اپنی ماں کی نصیحت کی وجہ سے جھوٹ نہیں بولا۔۔، ویسے بھی سر مجھے لگتا ہے کہ جس طرح ہم لوگ ایک ٹو۔ڈو لسٹ بناتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ کام آج کرنے ہیں، یا چلیں یہ کہہ لیں کہ ہم سب ہی ماؤں سے یہ پوچھتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بچوں کو کیا بنانا ہے، اسی طرح ہم سب کی اور ہماری قوم کی ماؤں کی ناٹ ٹو۔ڈو لسٹ بھی ہونی چاہئے، کہ ہمیں یہ کام کبھی نہیں کرنا، یا ہمیں اپنے بچے کو یہ کبھی نہیں بننے دینا، کیونکہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا اس میں بہت سے عوامل کو عمل دخل ہوگا، لیکن اگر وہ جھوٹا، چغل خور، حاسد یا دوسروں کا دل دکھانے والا بنے گا تو اس میں سراسر اُس کی تربیت کا عمل دخل ہے۔ 
میں نے ایک سانس میں سب کہہ کر مینجر کی طرف دیکھا۔۔
مینجر مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
یو نو واٹ نمرہ۔۔ میں ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ کچھ ایسا کیا جائے جو نہ صرف الگ ہو بلکہ اُس کا امپیکٹ معاشرے کے لئے فائدہ مند ہو، یہ آئیڈیا بہترین ہے، اور تمہاری ان سب باتوں کو ہی ایدورٹائز کر کے ہم لوگوں کو یہ تھیم سمجھائیں گے، اور دیکھتے ہیں کہ ہماری نسل میں کتنی سمجھدار اور صحیح معنوں میں ذمہ دار مائیں ہیں۔
تھینک یو سو مچ سر۔۔ میں نے بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا،
مجھے روایتی چیزوں سے سخت نفرت تھی، اس لئے میں نے کچھ ہٹ کر کرنا چاہا، لیکن میں نے توقع اُنہی روایتی جوابات کی کرلی تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کہیں کوئی اور بھی میری طرح روایات سے نالاں ہے لیکن حالات نے اُس کو میرے جیسے وسائل نہیں دیئے۔ 

*********                                            
                  کیمپین شروع ہوگئی، تشہیر کا کوئی طریقہ نہ تھا جو ہم نے چھوڑ دیا ہو، مارننگ شوز سے لے کر کئی ڈراموں تک میں ہم نے سین شامل کروا کر تربیت کی اہمیت اور اپنی تھیم کا تعارف کروایا۔۔ مگر یہ سب کرتے ہوئے ہم یہ بھول گئے کہ جس ماں پر ہم تربیت کی بھاری ذمہ داری ڈالتے ہیں اُس کی اپنی ذہنی اور جسمانی حالت اس قابل ہوتی بھی ہے یا نہیں، کہ وہ ایک اچھا انسان معاشرے کودے سکے، ہم بچے کی زرا سی لغزش پر ماں اور اسکی تربیت کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے اُس ماں کو زندگی میں کونسی اچھی چیز دی ہے جسے وہ بچوں  میں منتقل کرسکے 
خطوں کا سلسلہ شروع ہوا، میرا بیٹا چور نہیں ہے، جس میں ماں نے اپنے بیٹے کو چوری چھپے اپنے کزن کی چیزیں اٹھاتے ہوئے دیکھا اور اُس کی رہنمائی کی تاکہ یہ عادت پختہ نہ ہو، میری بیٹی ظالم نہیں ہے، اس کیس میں ماں نے بیٹی کو بے زبان جانوروں پر رحم کرنا سکھایا، ایک خط پر تو ہم بہت دیر تک ہنسے جس کا ٹائٹل تھا میری بیٹی پیٹو نہیں ہے، اس میں ماں نے بچی کو جنک فوڈ کے بجائے ہیلتھی کھانا کھانے پر آمادہ کئے رکھا اور اس مقابلے میں حصہ لینا بھی اسی مہم کا ایک حصہ تھا، مجھے لگا کہ واقعی ہر ماں ونر ہے جو اپنے بچے کے لئے اتنا کرتی ہے اور اتنا سوچتی ہے، پھر ایک خط نے میری ٹیم کو کتنے دن اداس رکھا اور آج تک اس کی یاد سے میری آنکھیں برس جاتی ہیں،

میرا بیٹا مرد نہیں ہے 
یہ کہانی شاید میرے بیٹے کی ہے، اور اُن راستوں کی جن پر میں اُس کی تربیت کے لئے گزری ہوں لیکن یہ بات بہت سمجھنے والی ہے کہ اولاد کی تربیت میں ماں اُنہی راستوں کا انتخاب کرتی ہے جن پراُسکا بچپن اور اس کی اپنی کہاںی متاثر ہوتی ہے، اس لئے یہ کہانی میرے بیٹے فاتح کے ساتھ ساتھ میری بھی ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا یہ دیکھا کہ گھرکی سب عورتیں مردوں کی محکوم تھیں، مردوں کا بچا ہوا کھاتیں، مردوں کی ڈانٹ سنتی، وہ اپنے ہنسنے اور رونے کے لئے اپنے مردوں کے اشاروں کا انتظار کرتیں، کبھی کوئی مرد گھر سے باہر ہوتا تو دادی کھاتی ہوئی عورتوں  کا ہاتھ روک لیتیں اور مردوں کے لئے سب اُٹھا رکھتیں، مرد باہر سے بھرے پیٹ آکر اُن کھانوں پر نظر بھی نہ ڈالتے، کھانا پھینک دیا جاتا مگر عورتوں کو نصیب نہ ہوتا، ابا جب اماں سے کسی بات پر ناراض ہوتا، تو دادی صحن میں رکھے پلنگ پر بیٹھی دور سے آواز لگاتی، ارے مرد بن دو ہاتھ لگا، سیدھی ہوجائے گی۔۔ اماں کی طرح چاچیاں بھی پٹتی، آدھے پیٹ کھاتیں، اور یہی حال پھپھیوں کا بھی تھا۔ اُن کی بھوک بھی آدھے پیٹ کھا کھا کر تقریباً مر چکی تھی، وہ بھی سب عورتوں کے ساتھ بیٹھتیں تو کوئی نند بھاوج یا جیٹھانی نہیں ہوتی، سب عورتیں ہوتیں، سب کے دکھ ایک جیسے ہوتے، میری پھپھیاں ہمیشہ کہتیں کہ دادی نے بھی ایسی ہی زندگی گزاری ہے اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ عورت کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے، 
اور اس ماحول میں رہتے رہتے شاید میری ماں چاچیاں میں اور میری باقی کزنز بھی یہی سمجھنے لگی تھیں ۔۔ پھر ایک کے بعد دوسری میری عمر کی سب لڑکیوں کی شادی کا وقت آیا، مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ عورت کی اس بربادی کو اتنا سیلیبریٹ کیوں کیا جاتا ہے، اُسکو دوسروں کے برتن دھونے کے لئے بھیجنے کے لئے اتنی خوشی کیوں منائی جاتی ہے، ہم میں سے کسی کی آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھے، ہمارا محکوم ہی تو بدل رہا تھا، ہماری حالت پر تو کوئی فرق نہ پڑنا تھا۔۔۔ جب میری شادی فاتح کے ابّا سے ہوئی، وہ بڑے خوش لگ رہے تھے، شاید اُنہیں ایک فُل ٹائم نوکرانی مل رہی تھی اس لئے، جس پر سارا دن حکم چلا کر وہ اپنی مردانہ انا کو سکون پہنچا سکتے تھے، جب وہ کمرے میں آئے اُنہوں نے میری تعریف میں زمین آسمان کی قلابیں ملا دیں۔ مجھے حیرت ہوئی، ان کے لہجے سے لگ رہا تھا اُن کی زندگی کی ساری محرومیاں آج اس شادی کے بعد ہی ختم ہوئی ہیں، میں متحیر تھی، مگر پھر اس سراب نے میری آنکھیں دھندلا دیں، اور میں اُن کے دکھائے ہوئے سبز باغ میں گھومنے نکل گئی، مگر خوشیوں کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے، اس کا احساس مجھے تب ہوا جب مجھے کمرے کے باہر اپنی ماں اور چاچیوں جیسی زندگی کزارنے کے لئے تن تنہا چھوڑ دیا گیا، پیار محبت کا ہر وعدہ کتنا کھوکھلا تھا مجھے اندازہ ہوگیا، اس دن  میری کتاب میں مردانگی کے معیار کے لئے اور بھی کئی نئے لفظ شامل ہوگئے تھے، پھر خدا نے مجھے تخلیق کے عمل سے گزارہ اور دنیا کی ہر عورت یہ جانتی ہے کہ اس کی زندگی میں اس سے بڑا کوئی مرحلہ نہیں آتا، اس ایک خوشی کے لئے وہ ہر شخص کے دیئے ہوئے زخم بھول جاتی ہے، اور کتنے تعجب کی بات ہے، جو مرد روز ہر ممکن طریقے سے عورت کی انفرادیت اوراسکے انسانی حقوق کو بہت استحقاق کے ساتھ پامال کرتا ہے وہ اس مرد کی اولاد پیدا کرکے خود پر کتنی بار فخر کرتی ہے۔ مَیں اٹھتے بیٹھتے یہ دعا کرتی کہ اللہ مجھے بیٹی دے دے، میں مظلوم پیدا کرلوں گی مگر ظالم نہیں، میرے مردوں نے مجھے مردانگی کا جو معیار سمجھایا تھا وہ اتنا غیر انسانی تھا کہ میں کوئی مرد پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن قدرت نے مجھ سے جو کام لینا تھا، اس کے لئے اللہ نے میری گود میں فاتح ڈال دیا، میں شاید دنیا کی پہلی عورت ہوں گی جو اولادِ نرینہ کی پیدائش پر اتنا روئی ہونگی۔۔ اس دکھ سے نکلنے میں مجھے کئی دن لگے، اور اس دکھ سے نکلتے نکلتے میں نے یہ فیصلہ ضرور کرلیا تھا کہ مجھے اس بیٹے کو اپنے باپ، دادا اور اپنے شوہر جیسا مرد نہیں بناؤں گی، اگر مردانگی کا مطلب عورت کی عزتِ نفس مجروح کر کے، اس کے انسانی حقوق غصب کر کے اُس پر حکمرانی کرنا ہے تو میرا بیٹا مرد نہیں بنے گا۔ میں نے آگ کے گھر میں رہتے ہوئے اپنے بیٹے کے اندر کے انسان کو جھلسنے نہیں دیا، میں نے اُس کو سمجھایا کہ مرد بننے سے بہتر ہے کہ وہ ایک اچھا انسان بن کر رہے، میں نے اُسے محمدﷺ سے لے کر دنیا کے ہر اُس شخص کی عظمت کی مثال دی جو عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں میں نے اُسے یہ اعتماد دیا کہ عورت کو اپنے برابر کا درجہ دینے پر تمہاری عزت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، میں نے اُس کو وہ احساس کمتری نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے دنیا کا ہر مرد عورت کو محکوم بنا کر رکھنا چاہتا ہے، اور پھر ایک دن جب اُس کی پھوپھی کی بیٹی نے اُس سے شادی کرنے سے انکار کیا تو اُس کے باپ نے کہا کہ یہ شادی خاندان کی عزت کے لئے بہت ضروری ہے، اس لئے مرد بن کر جائینگے اور زبردستی نکاح کر کے لے آئینگے، تو میرے بیٹے نے مرد بننے سے انکار کردیا، جب اُس کے آفس میں اُسکی ٹیم نے اُسکو اس بات پر اکسایا کہ مرد ہونے کے ناطے وہ ایک مرد کو فیور دے کر پروموٹ کردے، تو اس نے مرد بننے سے انکار کردیا، اس نے زندگی میں ہر موقعے پر مرد بننے سے زیادہ انسان بننے کو ترجیح دی۔ اور آج اُس ہی اچھے انسان نے میری گونگی ریاضت کو اس کہانی کے ذریعے زبان دی، میں اپنے خاندان بھر کی عورتوں میں نالائق ترین عورت ہوں کیونکہ میں چٹکیوں میں دس بارہ مزیدار کھانے نہیں بنا سکتی، میرے آس پاس کی ہر عورت میرے طور طریقوں سے نالاں ہے ، مگر مجھے فخر ہے کہ میں نے معاشرے کو ایک فعال فرد دیا ہے، بس ایک فرد ، ایک انسان ۔۔ جو عورت یا مرد کے لیبل اور اس جنس کی قید سے آزاد ہو کر اچھائی کو فروغ دیتا ہے، سب کی بھلائی کے لئے کوشاں ہے، جو عورت کو اللہ کی مخلوق سمجھتا ہے ، خوفِ خدا کے باعث اس پر ظلم نہیں کرتا اور اُس کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا ہے ۔۔


********                                                 

اُس ایک خط نے عورت، ماں اور تربیت ہر چیز کے بارے میں میرا نظریہ بدل کر رکھ دیا، اور مجھے یہ احساس ہوا کہ تربیت پر انگلیاں اٹھانا آسان ہے، مگر ماؤں کے مسائل کو سمجھنا بہت مشکل ہے، ہم ماؤں کو ایک صحتمند اور اچھی زندگی نہیں دے سکتے مگر اُن سے امید کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کو صلاح الدین ایوبی دیں۔

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...