Tuesday, October 9, 2018

پاگل

تنگ آگئی ہوں میں اس لڑکی سے، ساری رات جاگتی رہتی ہے، صبح اُٹھ کر بغیر ناشتہ کئے کالج چلی جاتی ہے، واپس آئے گی تو سارا دن کمرے میں بند رہتی ہے، گھر میں کوئی آئے جائے اسے کوئی غرض نہیں۔۔
امّی شدید پریشانی میں بڑے بھائی سے ثمرہ کی کیفیت کا تذکرہ کررہی تھیں، ثمرہ ہمیشہ سے ہی کم گو تھی، مگر اب جو رویہّ اُس نے اختیار کرلیا تھا ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔۔
دیکھ لیں امّی مجھے تو لگ رہا کہ کالج جا کر بھی پڑھائی وغیرہ کررہی ہے یا نہیں، کہیں کسی غلط صحبت میں نہ پڑ گئی ہو۔۔ بھابی نے امّی اور بھائی کی سوچ کو ایک نیا رُخ دے دیا۔۔
اللہ نہ کرے بہو۔۔ امیّ روح تک کانپ گئیں، اور اُنہیں احساس ہوا کہ اُنہیں بہو کے سامنے بیٹی کے بارے میں اس طرح بات نہیں کرنی چاہیئے تھی، اُنہوں نے دل ہی دل میں خود کو کوسا۔۔ 
اُنہوں نے اگلے دن ثمرہ سے کہا۔
ثمرہ کیوں اس طرح بی ہیو کرنے لگ گئی ہو تم۔۔ 
کیا امیّ میں نے کیا کیا؟ ثمرہ کا لہجہ انتہائی سست اور پژمردہ تھا، امی کو اُس کی آواز تک عجیب لگی
بیٹی کیوں اس طرح سارا دن کمرے میں بند رہتی ہو، کوئی مسئلہ ہے؟ پڑھائی میں کوئی مسئلہ ہے؟ کچھ چاہئیے ؟ یا کوئی اور ایسی بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے تو مجھے کہہ دو بیٹی میں تمہاری مدد کروں گی۔۔ امّی نے ہر ممکن بات جو اُن کے دل میں تھی کہہ دی، وہ واقعی اُسکی مدد کرنا چاہتی تھیں، وہ ڈانٹ ڈپٹ اور بے جا سختی کی روادار نہ تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کی کیفیت کو سمجھ سکیں تاکہ اُس کی بہتر مدد ہو سکے۔۔ 
ثمرہ نے ایک دم عجیب نظروں سے امّی کی طرف دیکھا۔۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ 
یا اللہ ثمرہ کیا ہوا ہے بولو؟ امّی جو پہلے سے ہی پریشان تھیں مزید پریشان ہوگئیں۔۔
ثمرہ نے اپنا سر امی کی گود میں رکھ دیا۔۔ 
مجھے نہیں معلوم امی کہ کیا ہوا ہے، میرا کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہتا، نا کھانے کا نہ پڑھنے کا نہ کسی سے بات کرنے کا، مجھے کلاس میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے، میں سب کچھ ٹھیک سے کرنا چاہتی ہوں لیکن مجھ سے کچھ بھی نہیں ہورہا۔۔ 
چپ ہوجاؤ بیٹا پلیز۔۔ کوئی بات نہیں اللہ چاہے گا تو تم بلکل پہلے جیسی ہو جاؤ گی۔۔
امی میری دل میں بہت برے برے خیال آتے ہیں۔۔ ثمرہ نے ایک اور انکشاف کیا۔۔
امی کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔۔ اُنہیں احساس ہوا کہ یکے بعد دیگرے ابوّ کی موت جیسے حادثے، پھر بھائی کی شادی اور پوتی کی پیدائش نے امی کو اتنا مصروف کئے رکھا کہ ثمرہ یکسر نظر انداز ہوتی گئی۔۔ لیکن اُنہوں نے فوراً اُسکی مدد کرنے کا سوچا۔۔ 
رات کو امی اُس ہی کے کمرے میں آگئیں۔۔ اور دیر تک اُس سے کئی باتیں کیں۔۔ امیّ نے محسوس کیا کہ اُسکی آنکھوں کے گرد حلقے کتنے گہرے اور کالے ہوگئے تھے، بستر سے اُترتے ہوئے امی کی نظر سائڈ میں رکھے ڈسٹ بن پر پڑی تو وہ ٹوٹے ہوئے بالوں سے بھرا تھا۔۔ یقینناً ثمرہ کے بال تیزی سے جھڑ رہے تھے۔۔ 
امّی نے وضو کیا اور جائے نماز پر کھڑی ہوگئیں، رات کے تین بج رہے تھے، ثمرہ سو چکی تھی اور امی جائے نماز پر بیٹھ کر یہ سوچ رہی تھیں کہ ثمرہ کی مدد کیسے کی جائے۔ 
پہلا خیال جو کسی بھی ایشیائی ماں کے دل میں آتا وہ یہی تھا کہ شاید اُس پر کسی جن بھوت کا اثر ہے۔۔ 
اُن کے لئے سب سے مشکل کام تھا کہ ثمرہ کا مسئلہ وہ کس کے ساتھ شئیر کریں کیوں کہ بہو کہ تجزیے نے اُنہیں اس معاملے میں بہت ڈرا دیا تھا۔۔ 
امیّ نے بری چیزوں سے حفاظت کرنے والے کئی وظیفے کرنے شروع کردیے مگر ثمرہ کا جن اُن وظیفوں سے ٹلنے والا نہ تھا۔۔ 
تھوڑے دن اسی تگ و دو میں گزرے، امی نے گھر کے کاموں میں مدد کروانے کے لئے ماسی کا انتظام کیا، اور سارا کام اُسکو سمجھا کر خود ثمرہ کو زیادہ وقت دینے لگیں۔۔ امّی ہر دن اُسکے لئے کوئی نئی چیز ڈھونڈ کر رکھتیں، کبھی اُسکی پسند کا کئی اسنیک شام میں تیار ہوتا، کبھی امی کے بچپن کی پرانی تصویریں، کبھی کوئی نامکمل پینٹینگ جو وہ ثمرہ کے ساتھ پوری کرتی، کبھی شاپنگ اور کبھی کبھار وہ اُس کو کہتیں کہ لیپ ٹاپ پر کوئی فلم دیکھ لینی چاہئے۔ 
ان سب دنوں میں امی نے یہ محسوس کیا کہ ثمرہ پر کسی غلط صحبت یا عادت کا اثر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک الگ قسم کی کیفیت کا شکار ہے، توجہ دینے پر اور کوئی الگ یا نیا کام کرنے پر اُس کا چہرہ یکدم بدل جاتا ہے، مگر جیسے ہی وہ کام ختم ہوتا ہے، وہ دوبارہ اُس ہی کیفیت میں چلی جاتی ہے۔۔ 
اُنہی دنوں اخبار میں نفسیاتی امراض کی آگہی کے بارے میں تفصیلی فیچر چھپا۔۔ جس میں نو عمر لڑکے لڑکیوں میں ڈیپریشن کی بڑھتی ہوئی شرح کے بارے میں بتایا۔۔ یکایک امی کے ذہن میں یہ بات آئی کہ شاید ، ثمرہ کا جن بھی یہی ڈیپریشن ہے۔۔ 
امی نے بھائی سے اس کا ذکر کیا، کیونکہ کسی ماہر نفسیات تک امی اکیلے رسائی حاصل نہیں کرسکتیں تھیں۔۔
آپ کہنا چاہ رہی ہیں کہ وہ پاگل ہے؟ 
جاہلوں جیسی بات نہیں کرو، ہر نفسیاتی یا دماغی مرض پاگل پن نہیں ہوتا۔۔ امی نے غصے سے کہا
امی آپ اُسے سائیکیٹرسٹ کے پاس لے جانا چاہتی ہیں۔۔ بھائی نے پھر کہا۔۔
ہاں تو؟ 
امی پلیز۔۔۔ 
کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔ 
امی لوگ کیا بولیں گے، میری بہن پاگل ہے، نفسیاتی مریض سے، اللہ نہ کرے کہ بات پھیل گئی تو اُس کے رشتوں میں بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔۔ 
میرے لئے لوگوں کی باتوں سے زیادہ ثمرہ کی صحت اور اُس کا سکون ضروری ہے۔۔ رہی بات شادی کی تو وہ ابھی صرف انیس سال کی ہے، میں صرف اُسے لوگوں کی باتوں اور رشتے نہ ہونے کے ڈر سے ایسی زندگی گزارنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتی۔۔ تمہیں تو اس بات کو مجھ سے بہتر سمجھنا چاہیئے۔۔ تم مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے ہو، بیٹا، جیسے نزلہ زکام کسی کو بھی ہو سکتا ہے ویسے ہی یہ بھی ایک بیماری ہے۔۔ اگر ہم نے اس وقت اس چیز کو اہمیت نہ دی تو ہمارے لئے بعد میں مسئلہ بن سکتا ہے۔۔ 
بھائی چپ ہوگیا۔۔ اُس کو واقعی احساس ہوا کہ اُسکی سوچ کتنی غلط تھی۔۔ 
تھوڑے دن بعد اُس نے امی کو آکر کہا۔۔ 
امی میرا ایک دوست ہے اُسکی مامی بہت اچھی سائیکیٹرسٹ اور کاؤنسلر ہیں، شاید آپ نے اُن خاتون کو ٹی وی پر بھی دیکھا ہو۔۔ سب سے اچھی بات جو مجھے لگی وہ یہ کہ وہ ثمرہ جیسے بچوں کو جنہیں خود اپنی بیماری کا نہیں معلوم ہوتا،  اُن سے مریض کی طرح نہیں مہمان کی طرح ملاقات کرتی ہیں، اب میں کسی دن وقت لے کر ثمرہ کو بہانے سے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔۔ اور اُن سے ملواؤں گا۔۔ 

یہ تمام مراحل بہت مشکل تھے۔۔ کئی جھوٹ بولے گئے،، بہانے ہوئے اور کسی طرح ثمرہ کو سائیکیٹرسٹ سے تین بار ملوایا گیا۔۔ ثمرہ پہلی ملاقات کے بعد بہت خوش تھی کہ آنٹی بہت اچھی اور دوستانہ ہیں، اور تیسری بار سائیکیٹرسٹ نے اُسے ایک دوست کی حیثیت سے مال کے فوڈ کورٹ میں کھانے پر بلایا جہاں ثمرہ کا جن بلاآخر باہر آگیا۔۔ 
سائیکیٹرسٹ نے اس ملاقات کے بعد امی کو فون کیا۔۔ اور اُنہیں بتایا، کہ ابو کی موت نے اور امی کی عدم توجہی نے ثمرہ کے اندر ڈیپریشن کو اُکسایا مگر اُس کے بعد کئی ایسی چیزیں ہوتی گئیں کہ ثمرہ کا ہلکا سا صدمہ اور اکیلا پن ایک مکمل بیماری بن گیا۔۔ اسکول میں وہ جس ٹیچر کے ساتھ کافی قریب تھی اور اُسے بہت پسند کرتی تھی، اُس نے اسکول ختم ہونے کے بعد ثمرہ سے بہت برا رویہ رکھا، اور پھر رابطہ ختم کردیا، یہ وہی دن تھے جب وہ اپنے والد کے انتقال کے دکھ میں تھی اور چاہتی تھی کہ وہ ٹیچر اُس کو دلاسہ دے، وہیں امی بھی عدت اور ابو کے دکھ میں باقی لوگوں کو یکسر بھول گئی تھیں۔۔ کالج میں اُسکی کلاس کی لڑکیوں نے اُسکے دکھ اور حساسیت کو مذاق کا نشانہ بنایا اور اُس سے دوستی ختم کرلی، گھر میں بھابی آئیں تو اُن کا رویہ بھی دوستانہ نہ تھا، اور بھائی بھی دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے دور ہوگیا۔۔ ثمرہ کی صحت متاثر ہوئی اور اُس کے جسم میں ہارمونز اور اُن سے بننے والے کیمیائی مادّوں نے اپنا توازن کھو دیا۔۔ 
مجھے شک ہے کہ اُسکا ہیموگلوبن بھی کم ہوگا۔۔ اور اگر یہ زیادہ کم ہوجائے تو دماغ تک خون کی عدم رسائی کی وجہ سے کبھی کبھی جسم میں خون کا فشار اتنا کم ہوجاتا ہے کہ انسان کے ہاتھ پیر اکڑنے لگتے ہیں اور آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں تو ہم جیسے نابلد کہتے ہیں کہ ارے! دورہ پڑ گیا جن آگیا۔۔ تو پلیز ایسی صورتحال نہ آئے اس لئے میں آپ کو چند ٹیسٹ لکھ کر میسج کررہی ہوں، آپ ثمرہ سے یہی کہیئے گا آپ کو لگتا ہے کہ اُسے خون کی کمی ہے اس لئے یہ ٹیسٹ ہورہے ہیں، اور بعد ازاں دوائیاں بھی یہی کہہ کر دیجیئے گا کہ یہ سپلیمینٹس ہیں۔۔ کوشش کریں کہ اچھی ایکٹیوٹیز میں وقت گزارے، اچھی کتابیں پڑھے، یا کچھ بھی ایسا جس سے وہ اچھا محسوس کرے ورنہ بے مطلب باتیں سوچ کر اور دُکھی موسیقی سن سن کر وہ خود کو مزید بیمار کر لے گی۔۔ 
امی کو بے حد افسوس ہوا کہ اُن کی بے اعتنائی نے ثمرہ کو تکلیف میں مبتلا کئے رکھا، لیکن اُنہوں نے اللہ کا شکر کیا کہ وقت رہتے نہ صرف اُنہیں ادراک ہوگیا، بلکہ اُنہیں ایک بہتر علاج بھی مل گیا۔۔

***********************                                  

اُف کتنے عرصے بعد مل رہے ہیں تم سے تہمینہ ۔۔ چچی نے بولا
ہاں بھئی مجھے تو لگ رہا تھا اب بھی نہیں مل پائیں گے۔۔ تائی جاں بھی ساتھ تھیں۔۔
نہیں بس میں نے اس بار بہت دعا کی کہ ایک بار سب سے مل لوں کیونکہ پھوپھی جان اتنی دور سے آئی ہیں تو میں یہ موقعہ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔۔ 
اچھا تو تم صرف پھوپھی سے ملنے آئی ہو۔۔ تائی نے مصنوعی ناراضگی دکھائی۔۔ 
کیوں بھئی تم کیوں نہیں ملتیں ان سب سے۔۔ پھوپھی نے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔۔ 
پھپھو جان ان کی ساس پاگل ہیں نا، تو یہ ہر وقت اُن کے ساتھ رہتی ہیں، اُن کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتے۔۔ 
یہ جملہ چچی کی بارہ سالہ بیٹی نے بولا تھا جو یقیناً اُس نے بڑوں سے سُنا تھا۔۔ 
تہمینہ نے ناراضگی سے سب بڑوں کی طرف دیکھا۔۔ سب کی نظریں جھک گئیں، کیونکہ وہ سب پیٹھ پیچھے یہی الفاظ استعمال کرتے تھے۔۔
پھپھو نے جانچتی ہوئی نظروں سے سب کو دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ کیا معاملہ ہے،
اتنی دیر میں تہمینہ نے اُس بارہ سالہ بچی کو مخاطب کر کے بولا،

نہیں بیٹا وہ پاگل نہیں ہیں کیونکہ دماغ کی ہر کمزوری یا بیماری پاگل پن نہیں ہوتی اُنہیں صرف او سی ڈی ہے 
اس بیماری میں مریض ایک کام کو جنون کی حد تک بار بار دوہراتے ہیں اور مطمئن نہیں ہوتے، اسی لئے وہ کئی بار وضو کرتی ہیں اور اپنی نماز سے بھی غیر مطمئن رہتے ہوئے کئی بار نماز پڑھتی ہیں، رات میں اکثر اُنہیں خدشہ رہتا ہے کہ اُنہوں نے گھر کے مرکزی دروازے کے تالے چیک نہیں کئے اور وہ بار بار اُٹھ کر تسلی کرتی ہیں کہ گھر محفوظ ہے، ایسے شخص کی دیکھ بھال کے لئے ہر وقت کسی ایسے انسان کو اُن کے پاس ہونا چاہئے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ بیماری خود مریض کے لئے بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے، اور اُن کے رویوں کو تحمل سے برداشت کرتے ہوئے اُن کا دھیان دوسری چیزوں کی طرف لے جانے کی کوشش کرے۔ یہ کوئی پاگل پن نہیں بس دماغی میں موجود ہونے والے ہارمونز اور دوسرے کیمیائی مادّوں کے عدم توازن کا نتیجہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ سب جاہل لوگ دماغ کی ہر بیماری کو پاگل پن سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم ہی ایسے مریض ہیں جو ان بیماریوں سے جان چھڑا پاتے ہیں، کیونکہ اُنکی کیفیت کو اُن کے اپنے گھر والے اور عزیزو اقارب مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔

تہمینہ کہتی رہی اور گھر کے تمام بڑے سے جھکائے سنتے رہے۔۔

***********************                          
مائدہ ایک ایسے ماحول میں رہی تھی جہاں اللہ سے زیادہ ابّا سے ڈرا جاتا تھا، بلاضرورت گھر سے باہر جانا، دروازے پر کھڑے رہنا، دوستیاں کرنا، اور زیادہ ہنسنا بولنا ابا کو سخت ناپسند تھا، مائدہ اور اس کی تین بہنیں گھر کے اندر والے کمرے میں ہی زیادہ تر رہتیں یا پھر باورچی خانے میں امّا کا ہاتھ بٹاتیں 

اسکول ختم ہوا تو ابا نے کالج جانے کی سخت مخالفت کی، مگر اُس ہی سرکاری اسکول کی استانی نے بتایا کہ اب اسکول میں ہی گیارہویں اور بارہویں جماعت کا نصاب پڑھایا جائے گا، گویا اسکول کے ہی چند کمروں میں کالج ہوگا، تو ابا کو کوئی اعتراض نہ ہوا کیونکہ اسکول گلی کے کونے پر ہی تھا، اور محلے کی کوئی بیس پچیس لڑکیاں وہاں ساتھ جاتی تھیں۔۔ 
بارہویں کا امتحان دینے کے بعد مائدہ نے پرائیویٹ پڑھنے میں ہی عافیت جانی اور اسی طرح وہ بی اے پاس کر گئی مگر سرکاری اسکول اور اس کے بعد پرائیویٹ بی اے کرنے سے نہ اُس کی شخصیت ہی میں تعلیم یافتہ لوگوں جیسا کوئی بدلاؤ تھا، نہ ہی اُسے اس تعلیم سے کوئی دنیاوی شعور ملا تھا۔۔ 

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ، ابّا کی بدستور گرتی صحت نے اُنہیں بستر سے لگا دیا، اور گھر میں ذریعہ معاش کچھ نہ بچا۔۔ اماں نے کوشش کی کہ محلے کی بچیاں اُن سے سلائی یا مائدہ سے ٹیوشن پڑھنے آجائیں مگر محلے میں زیادہ دوستی اور بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی لڑکی نے آنا مناسب نہ سمجھا، دوسرا یہ کہ سرکاری اسکول میں مارے باندھے پڑھنے والی وہ لڑکیاں ٹیوشن نہیں پڑھ سکتی تھیں۔ 
پھر اسکول کی استانی نے اُسے اپنے بھائی کے کمپیوٹر سینٹر میں ریسیپشن کی جاب کی پیشکش کی، مائدہ اس جاب کے بارے میں  کچھ نہیں جانتی تھی، مگر استانی نے وعدہ کیا کہ اُنکا بھائی بھرپور مدد اور تربیت کرے گا، مائدہ اس طرح کی نوکری کے لئے خود کو موذوں نہیں سمجھتی تھی، پھر بھی اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔۔ نوکری شروع ہوگئی اور ساتھ میں مائدہ کی ذہنی الجھن بھی۔۔ کبھی گھر سے نہ نکلنے والی لڑکی کو بس سے ایک اسٹاپ کا سفر کر کے سینٹر پہنچنا پڑتا، اور جہاں لڑکیوں سے دوستی کی بھی اجازت نہ تھی، وہیں روز کئی لڑکے لڑکیوں کے بے مطلب سوالات کا جواب دینا پڑتا، اس کے عدم اعتماد نے بہت جلد اسے مذاق کا نشانہ بنوانا شروع کردیا، اور اس کا شدید رد عمل اُس کے ذہن نے اینزائٹی اٹیک کی صورت میں دیا، گھر کے حالات کی وجہ سے نوکری چھوڑنا ناگزیر تھا، اور اپنی عادتوں کی وجہ سے نوکری جاری رکھنا مزید مشکل، ایسے حالات میں وہ جب بھی کسی کی آنکھوں میں خود کے لئے تمسخر دیکھتی اُس کے ہاتھ کانپنے لگ جاتے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی، اور جب یہ کیفیت شدید ہوتی اُس کا سانس گھٹنے لگ جاتا۔۔ 
ان حالات سے پیدا ہونے والے سٹریس نے اُس کے ہارمونز کو بھی متاثر کیا، مائدہ کا ذہن سوچوں میں اس قدر الجھا رہتا کہ اُس کو یہ تک اندازہ نہیں ہوتا کہ اُس کا پیٹ بھر گیا ہے یا نہیں اور وہ کھانے بیٹھتی تو کھاتی ہی جاتی، نتیجتاً اس کا وزن کچھ ہی مہینوں میں کئی کلو بڑھ گیا۔۔ پیروں پر ہر وقت سوجن رہنے لگی، سر اور کندھے بھاری رہنے لگے، بال جھڑ گئے، چہرہ مہاسوں سے بھر گیا۔۔ کوئی کہتا کہ اس عمر میں اکثر لڑکیوں میں یہ بدلاؤ آجاتا ہے، کوئی کہتا کہ مائدہ کو تھائرائڈ کا مسئلہ ہوگیا ہے، لیکن مائدہ کی ماں اس کے لئے کچھ نہ کر سکتی تھیں، کیونکہ اُن کے معاشی مسائل اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے۔۔ 

***********************                          


ان مثالوں جیسےکتنے ہی لوگ ہمارے آس پاس اپنے ہی آپ میں ایک جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ہم اُن کی طرف مدد کا ہاتھ نہیں بڑھاتے، کیونکہ ہماری سوسائٹی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ یہ پاگل پن ہے، ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ تمہارا ڈیپریشن تمہاری ناشکری ہے، سب کچھ تو ہے تمہارے پاس پھر تمہیں کس بات کا دکھ ہے، اور ایسے ہر رویّے کو روا رکھتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہین کہ کوئی بھی خود اپنے لئے اس ذہنی اذیت کو پسند نہیں کرتا، وہ مجبوراً اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ 

ہمارا معاشرہ جس تیزی سے اخلاقی اور معاشی بحران کی طرف گامزن ہے، اس ہی تیزی سےان بیماریوں کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اپنے آس پاس لوگوں کے مسائل کو سمجھیں، ان کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھائیں، اور کچھ نہیں تو اُن کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئیں۔ 

Friday, September 7, 2018

میرا بیٹا ۔۔ مرد نہیں ہے


سات سال ہوگئے لیکن اُس خط کا ایک ایک لفظ مجھے آج بھی اَزبر ہے، ہمیں زندگی سے اتنا کچھ ملا ہے کہ ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ لوگ کس کس طرح کی محرومیوں میں زندگی گزارتے ہیں اور ان محرومیوں کا اُن کی سوچ پر کیسا اثر پڑتا ہے۔

*********

یہ مدرز ڈے ہماری مارکیٹنگ کیمپین کے لئے بہت اہم ہوگا، اس کا بجٹ بھی ہم نے حتی الامکان بڑا رکھنے کی کوشش کی ہے، اور آپ سب لوگ جو اس ٹیم کا نیا حصہ ہیں، آپ سب سے ہمیں نہ صرف بہت امیدیں ہیں بلکہ آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے، اس کیمپین کی کامیابی میں جس کا جتنا کنٹریبیوشن ہوگا، اُس سے یہ فیصلہ ہوگا کہ نئی کرییٹو ٹیم کا مستقل حصہ کون بنے گا۔ 
کمپنی کا مارکیٹنگ مینجر زور شور سے بول رہا تھا۔ اور تمام نئے ٹیم ممبران کی شکلوں پر مختلف رنگ دیکھے جا سکتے تھے، کسی کی آنکھوں میں اپنی تخلیقی صلاحیات کی چمک تھی، تو کوئی اس بات پر پریشان تھا کہ اُس کے پاس صلاحیات کے نام پر صرف رٹّا لگا کر حاصل کی گئی ڈگری اور پرچی سے حاصل کی گئی نوکری ہے تو اس عملی میدان میں جھنڈے گاڑنے کے لئے اُس کے پاس کچھ نہیں۔۔ اور میَں؟ میَں ہمیشہ کی طرح اپنے خیالوں کے وسیع سمندر میں ٖغوطہ زن تھی جہاں آئیڈیاز گولہ بارود کی طرح تابڑ توڑ برس رہے تھے، مینجر ہمیں ۱۵ دن کی ڈیڈلائن دے رہا تھا جبکہ میں ۱۵ منٹ میں پوری اسٹریٹجی بنا چکی تھی، 
مس نمرہ؟ مینجر نے مجھے کھویا ہوا پا کر پکارا
جی۔۔۔ جی سر، مَیں چونکی
آپ سن رہی ہیں؟ اُس نے گھرکنے کے انداز میں پوچھا
جی سر۔۔۔ میں نے گھبرا کر کہا
ہممم۔۔۔ اُس کے اس ہممم سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ بھی کئی اور لوگوں کی طرح یہ خیال کر چکا تھا کہ میں گم صم تھی اور مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، اور نہ ہی میں اس معاملے میں کچھ کر پاؤں گی۔
میٹنگ ختم ہوئی۔۔
میرا آئیڈیا نہ صرف مشکل بلکہ بہت رِسکی تھا، اُس کو سب لوگوں کے سامنے سمجھانا میرے بس میں نہ تھا۔ 
اس لئے میَں نے فیصلہ کیا کہ کل اس آئیڈیا کو بہترین طریقے سے پریزینٹ کرنے کے لئے ساری تیاری کر کے آؤں گی اور مینجر کے سامنے دکھاؤں گی،
اور اگلے دن میں منجر کے سامنے تھی، وہ مجھے اتنا نالائق سمجھ چکا تھا کہ اُسے یقین تھا کہ میں اُس کا وقت ضائع کرنے آئی ہوں۔۔
جی مس نمرہ ، فرمایئے۔۔
اُس کی چڑھی ہوئی تیوری مجھے مزید ڈرا رہی تھی، پہلے ہی مجھے ڈر تھا کہ اگر اُسے یہ آئیڈیا سمجھ نا آیا تو کیا ہوگا، میں نے میں موٹیویشن پر جتنی کتابیں پڑھی تھیں سب سے سیکھے ہوئے اسباق کو ایک بار دل سے یاد کیا، کہ کاش یہ اصلی زندگی میں کارگر ثابت ہوجائیں۔ ایک گہری سانس خارج کی اور لیپ ٹاپ کھول کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
سَر ۔۔ ہم نے آج تک کسی بھی اہم دن پر جتنی بھی کیمپینز دیکھی ہیں وہ مثبت روّیوں اور جذبات کی بنیاد پر پیش کی جاتی ہیں، کیونکہ شاید یہ آسان ہے، اور لوگوں کے لئے پرکشش بھی، اس میں ہر میڈیوکر،، یعنی عام اور سطحی سوچ رکھنے والا انسان حصہ لیتا ہے۔۔ جبکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم اس سے ہٹ کر اپنی تھیم تھوڑی سی ٹویسٹڈ کردیں تو انٹیلجنٹ مائیں اس کی طرف ضرور متوجہ ہونگی جو تربیت کو روٹین کے کام کی طرح نہیں بلکہ اہم فریضے کی طرح کرتی ہیں۔۔
مینجر بغیر پلکیں جھپکے میری تمہید سن رہا تھا۔۔ 
بلاشبہ اسکو پریزینٹ کرنا اور عام پبلک تک اسی طرح پہنچانا بہت مشکل ہے وہ بھی تب جب ہم جانتے ہیں کہ اس قوم میں کامن سینس کی کتنی کمی ہے۔۔ لیکن اگر ایک بار یہ ہوجائے تو ہماری کیمپین کا مقابلہ کوئی اور کمپنی نہیں کرپائے گی۔۔
میں نے رُک کر مینجر کو دیکھا۔۔
اُس نے کہا ۔۔ آئیڈیا بتاؤ
میں نے تھوک نگلا۔۔
سر، ہم پوزیٹو چیز کو نیگیٹو کے انداز میں پوچھیں گے۔ ہم ماؤں سے یہ کہیں گے کہ اُن کا بچہ کیا نہیں ہیں۔۔ 
واٹ؟ کیا مطلب۔۔۔ مینجر نے بلند آواز میں کہا۔۔
سر، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُنہوں نے کس طرح کسی خاص قسم کی بری عادت کو ختم کرنے کے لئے اپنے بچے پر ورک آؤٹ کیا،، بلیو می ایسی بہت سی مائیں ہیں جو یہ کرتی ہیں۔۔ مثال کے طور پر آپ کو کوئی خط ملے جس میں لکھا ہو کہ میرا بیٹا جھوٹا نہیں ہے کیونکہ جب پہلی بار اُس نے اپنی غلطی چھپانے کے لئے جھوٹ بولا تب میں نے اُسے یہ اعتماد دیا کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے مگر اُس کو جھوٹ سے چھپانا گناہ ہے، میرے اعتماد نے اُسے سچ بولنے کی ہمت دی، اور میں نے اُسے شیخ عبدالقادر کا وہ واقعہ سنایا جب وہ ڈاکوؤں کہ ہاتھ لگ گئے تھے مگر اُنہوں اپنی ماں کی نصیحت کی وجہ سے جھوٹ نہیں بولا۔۔، ویسے بھی سر مجھے لگتا ہے کہ جس طرح ہم لوگ ایک ٹو۔ڈو لسٹ بناتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ کام آج کرنے ہیں، یا چلیں یہ کہہ لیں کہ ہم سب ہی ماؤں سے یہ پوچھتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بچوں کو کیا بنانا ہے، اسی طرح ہم سب کی اور ہماری قوم کی ماؤں کی ناٹ ٹو۔ڈو لسٹ بھی ہونی چاہئے، کہ ہمیں یہ کام کبھی نہیں کرنا، یا ہمیں اپنے بچے کو یہ کبھی نہیں بننے دینا، کیونکہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا اس میں بہت سے عوامل کو عمل دخل ہوگا، لیکن اگر وہ جھوٹا، چغل خور، حاسد یا دوسروں کا دل دکھانے والا بنے گا تو اس میں سراسر اُس کی تربیت کا عمل دخل ہے۔ 
میں نے ایک سانس میں سب کہہ کر مینجر کی طرف دیکھا۔۔
مینجر مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
یو نو واٹ نمرہ۔۔ میں ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ کچھ ایسا کیا جائے جو نہ صرف الگ ہو بلکہ اُس کا امپیکٹ معاشرے کے لئے فائدہ مند ہو، یہ آئیڈیا بہترین ہے، اور تمہاری ان سب باتوں کو ہی ایدورٹائز کر کے ہم لوگوں کو یہ تھیم سمجھائیں گے، اور دیکھتے ہیں کہ ہماری نسل میں کتنی سمجھدار اور صحیح معنوں میں ذمہ دار مائیں ہیں۔
تھینک یو سو مچ سر۔۔ میں نے بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا،
مجھے روایتی چیزوں سے سخت نفرت تھی، اس لئے میں نے کچھ ہٹ کر کرنا چاہا، لیکن میں نے توقع اُنہی روایتی جوابات کی کرلی تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کہیں کوئی اور بھی میری طرح روایات سے نالاں ہے لیکن حالات نے اُس کو میرے جیسے وسائل نہیں دیئے۔ 

*********                                            
                  کیمپین شروع ہوگئی، تشہیر کا کوئی طریقہ نہ تھا جو ہم نے چھوڑ دیا ہو، مارننگ شوز سے لے کر کئی ڈراموں تک میں ہم نے سین شامل کروا کر تربیت کی اہمیت اور اپنی تھیم کا تعارف کروایا۔۔ مگر یہ سب کرتے ہوئے ہم یہ بھول گئے کہ جس ماں پر ہم تربیت کی بھاری ذمہ داری ڈالتے ہیں اُس کی اپنی ذہنی اور جسمانی حالت اس قابل ہوتی بھی ہے یا نہیں، کہ وہ ایک اچھا انسان معاشرے کودے سکے، ہم بچے کی زرا سی لغزش پر ماں اور اسکی تربیت کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے اُس ماں کو زندگی میں کونسی اچھی چیز دی ہے جسے وہ بچوں  میں منتقل کرسکے 
خطوں کا سلسلہ شروع ہوا، میرا بیٹا چور نہیں ہے، جس میں ماں نے اپنے بیٹے کو چوری چھپے اپنے کزن کی چیزیں اٹھاتے ہوئے دیکھا اور اُس کی رہنمائی کی تاکہ یہ عادت پختہ نہ ہو، میری بیٹی ظالم نہیں ہے، اس کیس میں ماں نے بیٹی کو بے زبان جانوروں پر رحم کرنا سکھایا، ایک خط پر تو ہم بہت دیر تک ہنسے جس کا ٹائٹل تھا میری بیٹی پیٹو نہیں ہے، اس میں ماں نے بچی کو جنک فوڈ کے بجائے ہیلتھی کھانا کھانے پر آمادہ کئے رکھا اور اس مقابلے میں حصہ لینا بھی اسی مہم کا ایک حصہ تھا، مجھے لگا کہ واقعی ہر ماں ونر ہے جو اپنے بچے کے لئے اتنا کرتی ہے اور اتنا سوچتی ہے، پھر ایک خط نے میری ٹیم کو کتنے دن اداس رکھا اور آج تک اس کی یاد سے میری آنکھیں برس جاتی ہیں،

میرا بیٹا مرد نہیں ہے 
یہ کہانی شاید میرے بیٹے کی ہے، اور اُن راستوں کی جن پر میں اُس کی تربیت کے لئے گزری ہوں لیکن یہ بات بہت سمجھنے والی ہے کہ اولاد کی تربیت میں ماں اُنہی راستوں کا انتخاب کرتی ہے جن پراُسکا بچپن اور اس کی اپنی کہاںی متاثر ہوتی ہے، اس لئے یہ کہانی میرے بیٹے فاتح کے ساتھ ساتھ میری بھی ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا یہ دیکھا کہ گھرکی سب عورتیں مردوں کی محکوم تھیں، مردوں کا بچا ہوا کھاتیں، مردوں کی ڈانٹ سنتی، وہ اپنے ہنسنے اور رونے کے لئے اپنے مردوں کے اشاروں کا انتظار کرتیں، کبھی کوئی مرد گھر سے باہر ہوتا تو دادی کھاتی ہوئی عورتوں  کا ہاتھ روک لیتیں اور مردوں کے لئے سب اُٹھا رکھتیں، مرد باہر سے بھرے پیٹ آکر اُن کھانوں پر نظر بھی نہ ڈالتے، کھانا پھینک دیا جاتا مگر عورتوں کو نصیب نہ ہوتا، ابا جب اماں سے کسی بات پر ناراض ہوتا، تو دادی صحن میں رکھے پلنگ پر بیٹھی دور سے آواز لگاتی، ارے مرد بن دو ہاتھ لگا، سیدھی ہوجائے گی۔۔ اماں کی طرح چاچیاں بھی پٹتی، آدھے پیٹ کھاتیں، اور یہی حال پھپھیوں کا بھی تھا۔ اُن کی بھوک بھی آدھے پیٹ کھا کھا کر تقریباً مر چکی تھی، وہ بھی سب عورتوں کے ساتھ بیٹھتیں تو کوئی نند بھاوج یا جیٹھانی نہیں ہوتی، سب عورتیں ہوتیں، سب کے دکھ ایک جیسے ہوتے، میری پھپھیاں ہمیشہ کہتیں کہ دادی نے بھی ایسی ہی زندگی گزاری ہے اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ عورت کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے، 
اور اس ماحول میں رہتے رہتے شاید میری ماں چاچیاں میں اور میری باقی کزنز بھی یہی سمجھنے لگی تھیں ۔۔ پھر ایک کے بعد دوسری میری عمر کی سب لڑکیوں کی شادی کا وقت آیا، مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ عورت کی اس بربادی کو اتنا سیلیبریٹ کیوں کیا جاتا ہے، اُسکو دوسروں کے برتن دھونے کے لئے بھیجنے کے لئے اتنی خوشی کیوں منائی جاتی ہے، ہم میں سے کسی کی آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھے، ہمارا محکوم ہی تو بدل رہا تھا، ہماری حالت پر تو کوئی فرق نہ پڑنا تھا۔۔۔ جب میری شادی فاتح کے ابّا سے ہوئی، وہ بڑے خوش لگ رہے تھے، شاید اُنہیں ایک فُل ٹائم نوکرانی مل رہی تھی اس لئے، جس پر سارا دن حکم چلا کر وہ اپنی مردانہ انا کو سکون پہنچا سکتے تھے، جب وہ کمرے میں آئے اُنہوں نے میری تعریف میں زمین آسمان کی قلابیں ملا دیں۔ مجھے حیرت ہوئی، ان کے لہجے سے لگ رہا تھا اُن کی زندگی کی ساری محرومیاں آج اس شادی کے بعد ہی ختم ہوئی ہیں، میں متحیر تھی، مگر پھر اس سراب نے میری آنکھیں دھندلا دیں، اور میں اُن کے دکھائے ہوئے سبز باغ میں گھومنے نکل گئی، مگر خوشیوں کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے، اس کا احساس مجھے تب ہوا جب مجھے کمرے کے باہر اپنی ماں اور چاچیوں جیسی زندگی کزارنے کے لئے تن تنہا چھوڑ دیا گیا، پیار محبت کا ہر وعدہ کتنا کھوکھلا تھا مجھے اندازہ ہوگیا، اس دن  میری کتاب میں مردانگی کے معیار کے لئے اور بھی کئی نئے لفظ شامل ہوگئے تھے، پھر خدا نے مجھے تخلیق کے عمل سے گزارہ اور دنیا کی ہر عورت یہ جانتی ہے کہ اس کی زندگی میں اس سے بڑا کوئی مرحلہ نہیں آتا، اس ایک خوشی کے لئے وہ ہر شخص کے دیئے ہوئے زخم بھول جاتی ہے، اور کتنے تعجب کی بات ہے، جو مرد روز ہر ممکن طریقے سے عورت کی انفرادیت اوراسکے انسانی حقوق کو بہت استحقاق کے ساتھ پامال کرتا ہے وہ اس مرد کی اولاد پیدا کرکے خود پر کتنی بار فخر کرتی ہے۔ مَیں اٹھتے بیٹھتے یہ دعا کرتی کہ اللہ مجھے بیٹی دے دے، میں مظلوم پیدا کرلوں گی مگر ظالم نہیں، میرے مردوں نے مجھے مردانگی کا جو معیار سمجھایا تھا وہ اتنا غیر انسانی تھا کہ میں کوئی مرد پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن قدرت نے مجھ سے جو کام لینا تھا، اس کے لئے اللہ نے میری گود میں فاتح ڈال دیا، میں شاید دنیا کی پہلی عورت ہوں گی جو اولادِ نرینہ کی پیدائش پر اتنا روئی ہونگی۔۔ اس دکھ سے نکلنے میں مجھے کئی دن لگے، اور اس دکھ سے نکلتے نکلتے میں نے یہ فیصلہ ضرور کرلیا تھا کہ مجھے اس بیٹے کو اپنے باپ، دادا اور اپنے شوہر جیسا مرد نہیں بناؤں گی، اگر مردانگی کا مطلب عورت کی عزتِ نفس مجروح کر کے، اس کے انسانی حقوق غصب کر کے اُس پر حکمرانی کرنا ہے تو میرا بیٹا مرد نہیں بنے گا۔ میں نے آگ کے گھر میں رہتے ہوئے اپنے بیٹے کے اندر کے انسان کو جھلسنے نہیں دیا، میں نے اُس کو سمجھایا کہ مرد بننے سے بہتر ہے کہ وہ ایک اچھا انسان بن کر رہے، میں نے اُسے محمدﷺ سے لے کر دنیا کے ہر اُس شخص کی عظمت کی مثال دی جو عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں میں نے اُسے یہ اعتماد دیا کہ عورت کو اپنے برابر کا درجہ دینے پر تمہاری عزت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، میں نے اُس کو وہ احساس کمتری نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے دنیا کا ہر مرد عورت کو محکوم بنا کر رکھنا چاہتا ہے، اور پھر ایک دن جب اُس کی پھوپھی کی بیٹی نے اُس سے شادی کرنے سے انکار کیا تو اُس کے باپ نے کہا کہ یہ شادی خاندان کی عزت کے لئے بہت ضروری ہے، اس لئے مرد بن کر جائینگے اور زبردستی نکاح کر کے لے آئینگے، تو میرے بیٹے نے مرد بننے سے انکار کردیا، جب اُس کے آفس میں اُسکی ٹیم نے اُسکو اس بات پر اکسایا کہ مرد ہونے کے ناطے وہ ایک مرد کو فیور دے کر پروموٹ کردے، تو اس نے مرد بننے سے انکار کردیا، اس نے زندگی میں ہر موقعے پر مرد بننے سے زیادہ انسان بننے کو ترجیح دی۔ اور آج اُس ہی اچھے انسان نے میری گونگی ریاضت کو اس کہانی کے ذریعے زبان دی، میں اپنے خاندان بھر کی عورتوں میں نالائق ترین عورت ہوں کیونکہ میں چٹکیوں میں دس بارہ مزیدار کھانے نہیں بنا سکتی، میرے آس پاس کی ہر عورت میرے طور طریقوں سے نالاں ہے ، مگر مجھے فخر ہے کہ میں نے معاشرے کو ایک فعال فرد دیا ہے، بس ایک فرد ، ایک انسان ۔۔ جو عورت یا مرد کے لیبل اور اس جنس کی قید سے آزاد ہو کر اچھائی کو فروغ دیتا ہے، سب کی بھلائی کے لئے کوشاں ہے، جو عورت کو اللہ کی مخلوق سمجھتا ہے ، خوفِ خدا کے باعث اس پر ظلم نہیں کرتا اور اُس کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا ہے ۔۔


********                                                 

اُس ایک خط نے عورت، ماں اور تربیت ہر چیز کے بارے میں میرا نظریہ بدل کر رکھ دیا، اور مجھے یہ احساس ہوا کہ تربیت پر انگلیاں اٹھانا آسان ہے، مگر ماؤں کے مسائل کو سمجھنا بہت مشکل ہے، ہم ماؤں کو ایک صحتمند اور اچھی زندگی نہیں دے سکتے مگر اُن سے امید کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کو صلاح الدین ایوبی دیں۔

Thursday, July 5, 2018

اسکول سے پہلے اسکول نہیں - Say No To Pre-School


کہتے ہیں دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب صنعتی انقلاب آیا تو مرد و عورت دونوں گھروں سے باہر نکل آئے اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے دونوں ہر شعبہ ہائے زندگی میں شانہ بشانہ جُت گئے، اس صنعتی انقلاب نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا، انہی دنوں کئی نئی ایجادات ہوئیں جس سے نقل و حمل اور ترسیل کے ذرائع 
بڑھ گئے ۔۔۔ 
 اُس ہی انقلابی دور میں اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ جب ماں اور باپ دونوں گھر کے باہرہوں تو بچوں کو ابتدائی تعلیم و تربیت کا بیڑا کون اُٹھائے ۔۔ اس کے لئے چرچز، یا اُن بزرگ عورتوں نے خدمات پیش کیں جو اُس وقت صنعتی ترقی کے لئے اور کوئی کام نہیں کر سکتی تھیں،
اس طرح دنیا میں پری اسکولنگ کا تعارف ہوا، یعنی اسکول سے پہلے اسکول۔۔ جہاں بچہ روزمرّہ زندگی کے ادب و آداب سیکھتا ہے۔ ترقی کرنے کے بعد اُس قوم نے اس روش کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ وائرس کی طرح سرائیت کرتا رہا ، بالخصوص پاکستان میں اب ہر گلی محلے میں اسکول کھلے نظر آتے ہیں، اور ہر دوسری ماں اُس دن کا انتظار کرتی ہے جب بچہ ڈھائی سال کا ہو اور وہ اُسے کسی اچھے پری اسکول میں داخل کروا کر اپنی جان چھڑا لے، اور بچے کو اسکول کے حوالے کر کے اب وہ بلکل بری الذمہ ہے۔۔ 
دکھ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادیات اتنی کمزور ہیں کہ کئی مائیں جو بچوں کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتیں وہ بھی اپنی نوکریوں کی وجہ سے بچوں کو پری اسکول کے حوالے کردیتی ہیں، وہ بڑے بڑے بین الاقوامی ادارے بھی جہاں مردوں سے زیادہ عورتیں ملازم ہیں وہ بھی  ڈے کئیر جیسی سہولت فراہم نہیں کرتے۔۔ اور پھر کئی عورتیں خود سے زیادہ دوسروں کی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھاتی ہیں، اُن کے لئے ماں کے کردار سے زیادہ اہم بہو اور بیوی کا   کردار ہوتا ہے، اور ایسی غیر انسانی توقعات کی زد میں ماں کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور پری اسکولز کا کاروبار چمک جاتا ہے

تمام ترقی یافتہ ممالک جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں وہاں سات سال کی عمر سے پہلے کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا ، اور سات سال تک پری اسکولنگ کے بجائے ہوم اسکولنگ کی جاتی ہے، یعنی ہر وہ ممکن چیز جو پری پرائمری کلاسس میں سکھائی جاتی ہیں وہ مائیں گھر پر ہی بچوں کو سکھاتی ہیں۔ یا پھر کسی تجربے کار خاتون کی مدد لیتی ہیں، 
دورِ جدید میں ہونے والی کئی تحقیقات یہ بات ثابت کرتی ہیں، کہ چھوٹے بچوں پر بڑے بستوں کا بوجھ، صبح اٹھنے کی سختی اور کام کا دباؤ کوئی بھی مثبت اثرات مرتب نہیں کرتے۔۔ اور تحقیقات تک جانے کی کیا ضرورت ہے، اگر ہم بچوں کی حالت پر خود غور کریں تو اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے اُن کے جسم اور ذہن اس مشقت سے متاثر ہوتے ہیں
 بلاشبہ والدین بچے کے بہتر مستقبل کے لئے اُس کو اچھی سے اچھی جگہ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں، مگر اس کے برعکس اُن کا نقصان کردیتے ہیں، کم عمری میں ہی اتنی تھکن اور ذہنی دباؤ بچے کے مزاج کو چڑچڑا بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے اُسکی خوارک میں کمی آجاتی ہے۔۔ نتیجتاً اُس کی صحت خراب ہوتی ہے اور وہ آئندہ آنے والی تعلیم کے لئے پہلے ہی کمزور ہوجاتا ہے
احادیثِ مبارکہ میں بھی کئی جگہ بچوں پر کم سنی میں کسی بھی قسم کی سختی کرنا منع ہے یہاں تک کہ نماز اور دین کے دوسرے معاملات میں بھی اُن پر کسی قسم کے فرائض کی پابندی نہیں
بچوں کی تربیت کے متعلق اہم احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک سے سات سال کی عمر میں بچے کو سینے سے لگا کر رکھا جائے، کیونکہ یہ سال اُس کو  والدین اور اہلِ خانہ سے زہنی وابستگی پیدا کرنے کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان سالوں میں بچے پر سختی کرنا منع ہے تاکہ بچے ضدی یا سرکش نہ بن جائے اور اُس کے دل میں اہلِ خانہ کے لئے نفرت کے جذبات نہ پیدا ہوں۔۔
 والدین کو اب یہ شعوری کوشش کرنی چاہئے کہ بچے کو جب تک ہو سکے گھر میں ہی بھرپور توجہ دیں اُس کو کھیلنے کودنے اور کھیل سے تھک ہار کر بھر پور خوارک اور نیند لینے دیں۔ جہاں تک ممکن ہو بچے کو گھر پر ہی ابتدائی تعلیم سے متعارف کروائیں۔۔ اس کے لئے صرف وقت اور تحمل کی خاص ضرورت ہے جو والدین خصوصاً ماں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا، باقی فی زمانہ اس مشن کو پورا کرنے کے لئے ہر طرح کے وسائل بازار اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں، مگر چند سالوں تک اُٹھائی گئی یہ تکلیف بچے کو بہت سی تکلیفوں سے بچا کر اُس کے اچھے مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔

اللہ ہمیں اپنوں سے چھوٹوں کی بہترین رہنمائی کرنے کے قابل بنائے اور ہماری نسلوں کو ذہنی جسمانی اور روحانی سکون دے ہم  سب  کو  ہمارے  نیک  مقاصد  میں  کامیاب  کرے  اور  ہمیں  معاشرے  کی  فلاح  کے  لئے  فعال  کردار  ادا  کرنے کی  توفیق  دے۔  آمین

Wednesday, July 4, 2018

Feminist دینِ

اس سال آٹھ مارچ پر نکلنے والی عجیب و غریب ریلی نے ملک بھر کے مردوں میں غم و غصے کی لہر دوڑادی تھی۔۔ اس ریلی میں عورتیں کچھ ایسے انوکھے مطالبات کرتی نظر آئیں جو انتہائی ناقابلِ قبول تھے، ویسے بھی جس معاشرے کی زیادہ تر آبادی عورتوں کو اُن کے بنیادی حقوق بھی نہ دیتی ہو اُن سے اتنے بے باک مطالبوں پر اور امید بھی کیا کی جا سکتی تھی بجز اس کے کہ وہ اسکی شدید خلاف ورزی کرتے اور عورتوں پر فتوات لگا دیتے۔۔ اور یہی ہوا،
مطالبات کچھ یوں تھے

 لوگوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو ان مطالبات کو بے حد آزاد خیال اور معاشرے کے لئے تباہ کن سمجھتا ہے۔۔
اور دوسرا وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ مطالبات خطرناک نہیں بس انہیں سمجھنا مشکل ہے، جیسے خواتین یہ چاہتی ہیں کہ کچن کی ذمہ داری کا لیبل اُن پر سے ہٹا دیا جائے
مگر وہیں چند مذہبی اقدار کی بری طرح توہیں کی گئی
ان مطالبات کی زبردست جوابی کاروائی کی گئی اور شعبہ ہائے زندگی سے مرد نکل کر عورتوں کے مقابل کھڑے ہوگئے، 
یہاں تک کہ ایک تصویر میں مولوی صاحب نے بینر پکڑ رکھا تھا کہ ’’اپنے جنازے خود پڑھاؤ‘‘ 
یہاں مجھے ذاتی طور ہر عورتوں سے یہ اختلاف ہے کہ حقوق مانگنے کے وقت تمام اخلاقی ضابطے توڑ دئے جاتے ہیں مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں یہی عورتیں اپنا عورت کارڈ استعمال کر کے مختلف آسانیاں طلب کرتی نظر آتی ہین جیسے گھر کی ذمہ داریوں کا بہانہ کر کے دیر سے آنا اور جلدی چلے جانا وغیرہ وغیرہ
دراصل مسئلہ فیمنزم نہیں ہے، اس کی تعریف تو بہت عام ہے ، یعنی ایسے لوگ جو اس بات کے حامی ہیں کہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتی ہیں۔ اور اس سوچ میں کوئی قباحت نہیں، قباحت تو یہ ہے کہ جو لوگ عورتوں کے حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اُنہوں نے عام سی بات کو اتنے بھونڈے انداز میں پیش کیا ہے کہ اس نے لوگوں میں ایک عجیب سرکشی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔۔ چاہے وہ اس کے حامی ہوں یا مخالف سب ایکسٹریمسٹ ہوگئے ہیں۔۔ جبکہ دین اسلام تو خود فیمینسٹ دین ہے! جی ہاں دین اسلام نے عورتوں کو جو مرتبہ دیا ہے اُسکی نفی کوئی معاشرہ نہیں کر سکتا
 لوگوں کی اس خود ساختہ مسئلے پر بحث دیکھتے ہوئے دل چاہتا تھا کہ میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالوں مگر کچھ وقت نے مہلت نہ دی یا شاید یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے اس معاملے کا ایک اور رُخ دکھانا چاہتا تھا، اور وہ مجھے اپنے حرم لے گیا 
جہاں سعی کرتے ہوئے مجھے اچانک خیال آیا کہ جو دین عورت کو اتنی عزت دیتا ہو کہ اُس کی اپنی اولاد کے لئے کی گئی دوڑ دھوپ کو رہتی دنیا تک اپنی عبادت کا لازمی حصہ بنا دے اُس دین سے تعلق رکھنے والی عورت کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے یہ ذلت اور خواری اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے
جب  میں اُن ستونوں میں آگے پیچھے متعدد مردوں کو بھاگتے ہوئے دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ یہ کس کی تقلید کررہے ہیں؟ یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ عورت کا تعلق تو کھانا بنانے اور گھر صاف رکھنے سے ہے، تو یہ عورت ہونے کی کون سی معراج ہے جس کے لئے دنیا بھر کے مختلف معاشرتوں سے تعلق رکھنے والے مرد اپنی عبادتوں کو مقبول کرنے کے لئے بس بھاگتے جا رہی ہیں۔۔ 
اور یہ بات خود عورتیں کیوں نہیں سوچتیں کہ خدا نے اُنہیں کہاں کہاں معزز بنایا ہے۔۔ 
محمد ﷺ کوخود شادی کی پیشکش کرنے والی اپنے شہر کی ایک بااثر خاتون تھیں، جنہوں نے بعد ازاں مال و دولت اور اثر و رسوخ سے دینِ اسلام کی بھی بھرپور خدمت کی
اس کے علاوہ دینِ اسلام کی پہلی شہید بھی ایک خاتون تھیں، حضرت مریمؑ کا رتبہ بھی کسی سے چھپا نہیں وہ پیغمبر نہ تھیں مگر قرآن نے اُن کا ذکر بلند کیا، اور اُنہیں رہتی دنیا تک پاکیزگی اور عصمت کی مثال بنایا 
اسی طرح کئی جگہ بیوی، بہن، بیٹی اور ماں ہر روپ میں عورت کے عظیم الشان مرتبے کی مثالیں موجود ہیں، مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر نہیں کیا گیا، بلکہ اس بات کا احساس دلانے کے لئے کیا گیا کہ عورتیں بھی معاشرت اور مذہب میں خاطر خواہ حصہ رکھتی ہیں، 

     اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  ارشاد ربانی ہے کہ:

                وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً(النساء: ۱۹)
                اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔

                 معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم دیاہے۔

شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی
 اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

                لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن(۱۲)

                شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔(۱۳)

                اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔

                 اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔

جہاں دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔  حدیث مبارک ہے

                حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ(۸)
                مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔

                اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے

اسی طرح علم کی فرضیت بھی دونوں کے لئے یکساں ہے، دینِ اسلام عورت کو علم حاصل کرنے کے معاملے میں بھرپور حوصلہ افزا ہے


تو پھر یہ جنگ کس چیز کے لئے ہے اور کس سے ہے، جب اللہ کا دین عورت کو تمام حقوق دے رہا ہے، صرف یہ دین عورت کو اپنا حسن اور وقار وائم رکھنے کے لئے چند متعین کردہ حدود میں رہنے کا حکم دیتا ہے، مگر اُن حدود سے کسی بھی صورت وہ مرد سے کم تر نہیں ہو جاتی۔۔ اُس کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار تو اُس کا اپنا دین ہے۔۔ اسی لئے میں کہتی ہوں کہ دینِ اسلام ایک فیمنسٹ دین ہے، اور فیمنسٹ ہونے میں کوئی برائی نہیں جب تک آپ اللہ کی بنائی ہوئی کوئی حد نہ توڑیں اور صرف معاشرتی اور مذہبی معاملات میں عزت اور برابری کی حامی ہوں

اللہ  ہم  سب  کو  ہمارے  نیک  مقاصد  میں  کامیاب  کرے,دین کو بہتر طور پر سمجھنے،  اور  ہمیں  معاشرے  کی  فلاح  کے  لئے  فعال  کردار  ادا  کرنے کی  توفیق  دے۔  آمین

لنچ باکس

میرے سارے دن کا موڈ خراب کرنے کے لئے یہ ناشتے کا ڈبہّ کافی ہے‘‘، صمد غصے سے ڈبے میں رکھے سیندوچ کو دیکھ رہا تھا جس میں سے ٹماٹر اور کھیرے باہر جھانک رہے تھے۔۔ اتنے میں میسج کی بیپ بجی اور اسکرین پر ثمرہ کا میسج دیکھ کر غصہ مزید بڑھ گیا۔۔
’’تم نے لنچ کرلیا؟‘‘ اُس نے پوچھا تھا۔۔
دل تو کررہا ہے بولوں یہ جو تم نے دیا ہے! یہ لنچ کہلانے کے لائق ہے؟؟ صمد نے خود سے کہا
’’نہیں‘‘، اُس نے مختصراً لکھ بھیجا
’’کیوں؟؟، کھا لینا چاہیئے تمہیں اب تک۔۔ ‘‘ اُس نے پھر میسج کیا
’’ہاں بس تھوڑا کام ختم کر لوں پھر کھاتا ہوں‘‘ جیسا بھی تھا کھانا تو وہی تھا۔
’’اوکےجلدی کھا لینا، ٹیک کئیر‘‘ ثمرہ نے جواب دیا  
صمد نے موبائل کو نخوت سے دیکھا اور ایک طرف رکھ دیا۔۔

**** 


’’پتہ ہے آج آفس میں کتنا مزہ آیا‘‘ ثمرہ دھپ سے بستر پر بیٹھی اور صمد کے قریب ہوتے ہوئے بولی
صمد بدستور موبائل میں دیکھتا رہا۔۔
’’صمد؟‘‘ ثمرہ نے اُس کی بے رُخی محسوس کی ’’کیا ہوا؟
’’کچھ نہیں
’’کیا پرابلم ہے؟؟
ثمرہ آفس کے علاوہ بھی لائف میں بہت کچھ ہے، تم سے کتنی بار کہا ہے کہ گھر پر اور مجھ پر بھی فوکس کرو، کوئی تمہیں کچھ کہتا نہیں ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم کبھی سدھرنے کی کوشش ہی نہ کرو‘‘
سدھرنے کی کوشش؟؟‘‘ آر یو سیرئیس؟؟ ایسا کیا کیِا ہے میں نے، اور کس بات کا دھیان نہیں رکھا میں نے، ثمرہ حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی
تمہارے سوال میں ہی جواب ہے، کہ تم نے کیا ہی کیا ہے، تم نے کچھ بھی نہیں کہا، تمہیں ایک سینڈوچ تک بنانا نہیں آتا۔۔ تنگ آگیا ہوں میں یہ کھیرا ٹماٹر کھا کر۔۔
’’صمد تم مجھ سے ایسے اس لئے بات کررہے ہو کیونکہ مجھے سینڈوچ بنانا نہیں آتا۔۔
’’ہاں اور اس لئے بھی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تمہاری اس نوکری سے میں اور میرا گھر سَفَر کرتا ہے، تمہارے اس بے تُکے شوق کی خاطر ۔۔
’’میرے اس بے تکے شوق کی خاطر تم ڈھنگ کا لنچ نہیں کر پاتے؟ ثمرہ نے اُس کی بات کاٹ دی۔۔ 
صمد خاموش ہوگیا مگر او کا غصہ برقرار تھا، اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی بات ثمرہ کو کیسے سمجھائے
’’ میں نے تم سے کبھی نہیں بولا کہ میں ماسٹر شیف ہوں، جس شوق کو تم بے تُکا کہہ رہے ہو وہ میری لائف میں تم سے پہلے آیا تھا، اور ویسے بھی شادی کے لئے میں نے کام کے ٹائمنگ میں اتنی لیوریج لی ہے کہ میرا پروموشن متاثر ہوا ہے۔۔ میں نے اپنے چھہ سال کے کرئیر کو تمہارے لئے ، تمہارا لنچ بنانے کے لئے خراب کردیا ہے، ثمرہ کو شدید غصہ آرہا تھا
مجھے تم سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی، صمد نے غصے سے کہا 
فائن! ثمرہ منہ موڑ کر سو گئی

*****


اگلے دن صمد کی آنکھ کھلی تو ثمرہ بستر پر نہیں تھی، اور ابھی دونوں کے آفس جانے میں بہت وقت تھا، صمد کو تشویش ہوئی پھر اسے رات کی لڑائی یاد آئی اور اُس کا دل دھک سے رہ گیا، کہیں ثمرہ مجھے چھوڑ کر تو نہیں چلی گئی ، ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اُس کے ذہن میں ایک کوندہ لپکا تھا، اور اُس نے خود کو ساٹھ سال کی عمر میں اکیلا تصور کیا۔۔ 
اف !! وہ اُٹھ کر باہر بھاگا
دیکھا تو ثمرہ کچن میں تھی، اُس کا ٹیبلیٹ سامنے کچن کاؤنٹر پر پڑا تھا جس میں سے ترکیب دیکھ کر اُس نے ناشتے کے لئے آلو کے پراٹھے اور لنچ میں کلب سینڈوچ بنائے تھے، مگر اس سب کے لئے اُس کو بہت جلدی اٹھنا پڑا تھا۔۔ 
صمد کو سمجھ نہیں آیا کہ خوش ہو یا شرمندہ۔۔ پھر اُس کے اندر کے شیوونسٹ نے اُسے کہا کہ اُس کی ڈانٹ سے ثمرہ سدھر گئی ہے۔۔
ثمرہ نے اُس سے کوئی بات نہیں کی، اُس نے ناشتہ کیا، کپڑے استری کئے، سب چیزیں جگہ پر واپس رکھیں، اور آفس کے لئے نکل گئی۔۔ 
دو دن تک یہی روٹین رہا، صبح جلدی اُٹھنے کی وجہ سے وہ رات کو تھک کر جلدی سوجاتی تھی، 

اب لنچ اچھا بناؤگی تو منہ بھی بنا کر رکھو گی کیا۔۔؟ صمد نے ایک صبح ثمرہ سے کہا 
تمہیں اچھے لنچ سے مطلب ہے وہ تمہیں مل رہا ہے۔۔ 
ثمرہ تمہیں پتہ ہے ایسا نہیں ہے۔۔
مجھے کچھ نہیں پتہ صمد، مجھے بس وہ پتہ ہے جو تم نے مجھے فیل کروایا ہے، میں یہ سب کرنا چاہتی ہوں ، میں تمہارے لئے تمہارے آرام کے لئے یہ سب کر سکتی ہوں، لیکن میں یہ سب محبت سے کرنا چاہتی ہوں مجبوری سے نہیں، میں جو ہوں جیسی ہوں ویسے رہتے ہوئے بھی یہ سب کر لوں گی، لیکن جس طرح تم نے اُس دن بی ہیو کیا، مجھے بہت انسلٹنگ لگا۔۔ 
وہ اپنی بات کر کے نکل گئی، صمد ایک بار پھر غصے میں تھا۔۔ 

تیسرے دن جب ثمرہ  میکے میں تھی،، امی نے صمد سے پوچھا
’’تم نے ثمرہ کو کچھ بولا ہے؟‘‘ امی چشمے کے پیچھے سے اُس کو گھور رہی تھیں جیسے اُس کا چہرہ پڑھنا چاہتی ہوں
’’نہیں‘‘، صمد نے نظریں چرا لیں
’’جھوٹ مت بولو‘‘ امی نے گھرکا
’’ارے بھئی کیا ہوا‘‘ ابو بھی متوجہ ہوگئے
’’آپ تو اس کو کچھ بولتی نہیں، تو مجھے ہی بولنا پڑے گا‘‘ صمد نے ناراضی سے کہا
’’کیا مطلب؟ کیا بولوں اُسے‘‘ امی نے پوچھا
’’آپ کیسی ساس ہیں؟َ وہ ٹھیک سے کھانا نہیں بناتی اور آپ اُسے کچھ بھی نہیں سمجھاتیں، آپ اُسے کیا دیکھ کر لائی ہیں‘‘ صمد نے ساری بھڑاس نکال دی
’’اوہ! تو تم چاہتے تھے کہ اچھا کھانا پکانے والی بہو لائی جائے،‘‘ 
’’امی بات کو غلط مطلب مت دیں، وہ ان معاملات میں کتنی لاپروا ہے، اس کو گھر مینج کرنا نہیں آتا‘‘ 
’’صمد گھر مینج کرنا اور گھر کے کام کرنا سیکھا جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی بری نیت اور بری فطرت کا ہو تو اچھائی نہیں سیکھ سکتا، ایٹ لیسٹ وہ ایک صاف دل کی لڑکی ہے، اپنی غلطیوں کو سمجھتی ہے، مجھ سے اکثر کئی چیزیں پوچھتی ہے، سیکھنے کی کوشش کرتی ہے، میرے لئے اتنا کافی ہے، میں انسانوں کو اُن کے اسکلز پر جج نہیں کرسکتی مگر افسوس کہ میرا اپنا بیٹا اتنا بے بصیرت ہے‘‘ 
بس شروع عورتوں کی وکالت‘‘ صمد غصے سے اٹھ کر چلا گیا

*****

تھوڑے دن بعد آفس میں اُسے ایک پرانے دوست کی کال ریسیو ہوئی ، اور وہ اُس سے ملنےاُسکے آفس پہنچ گیا
عثمان سے مل کر اور اُس کی فیلڈ کے بارے میں جان کر اُسے بہت مزہ آیا،، باتوں باتوں میں ہی عثمان نے اُسکے سامنے اپنا لنچ باکس کھول لیا۔۔ اور اُس سے ضد کی کہ ساتھ کھا کر جائے
’’نہیں تم کھاؤ، بھابی نے تمہارے لئے دیا ہے۔۔ ‘‘ صمد نے نرمی سے منع کیا
’’ارے نہیں وہ ہمیشہ دو لوگوں کا کھانا دیتی ہے۔۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے عثمان وہ عظیم الشان لنچ باکس کھولا
دم کیا قیمہ، لچھے دار پراٹھے ، اچار ، سلاد ، رائتہ اور شاہی ٹکڑے۔۔ 
یہ لنچ باکس ہے یا دعوت؟؟ صمد نے حیرانی سے بولا
’’ہا ہا ہا ۔۔ یار تمہیں تو پتہ ہے کہ میں کھانے کا کتنا شوقین ہوں، امّی نے بہت مشکل سے ڈھونڈا ہے عظمی کو۔۔ بہت زبردست کھانا پکاتی ہے، تم چکھو‘‘ عثمان نے اُس کو کہا
اور چکھنے کے بعد صمد کے دل کی حالت اور خراب ہوگئی، یار ایسی بھی بیویاں ہوتی ہیں۔۔ اتنا زبردست کھانا
واقعی بھابی تو ماسٹر شیف ہیں۔۔ صمد نے کہا اور پھر اُسے ثمرہ کا جملہ یاد آیا ’’ میں نے تم سے کبھی نہیں بولا کہ میں ماسٹر شیف ہوں، صمد کی آہ نکل گئی
بھابی ہاؤس وائف ہیں؟ صمد نے پوچھا
ہممم کہہ سکتے ہو، شادی سے پہلے وہ ایک فیشن ڈزائننگ فرم میں انٹرن تھی، اب وہ گھر سے آن لائن ڈزائنر شاپ چلاتی ہے، اُس کی ایک فرینڈ اُس کی پارٹنر ہے اور ایک رائڈر ہے۔۔ اچھی ارننگ ہو جاتی ہے اور مجھے جو گھر سے باہر نکلنے کا ایشوتھا وہ بھی ختم، دراصل میں کمفرٹیبل نہیں ہوں بیوی  کو اس طرح باہر کام کرنے دینے کے۔۔ عثمان کہہ رہا تھا
صمد کے افسوس میں اضافہ ہورہا تھا
چلو گُڈ، آل پرفیکٹ‘‘ صمد نے بوجھل دل سے کہا
’’نہیں یار آل پرفیکٹ کب ہوتا ہے،، آج کل بہت ٹینس ہوں‘‘ عثمان نے کہا
ارے کیوں کیا ہوا‘ صمد نے پوچھا
’’یار بس امی خوش نہیں ہیں عظمی سے، کہتی ہیں اس کا یہ کام بند کروا دو، اب میں کس منہ سے کام بند کرواؤں جبکہ وہ ہر چیز اتنی اچھی طرح مینج کرتی ہے۔۔ گھر کو، میری بیٹی کو، اپنے کام کو، تم یقین نہیں کرو گے کہ امی کو ہل کر پانی بھی نہیں پینا پڑتا، اُس نے گھر کے معاملات سے اُنہیں بری الذمہ کردیا ہے ۔۔ مگر پچھلے کچھ دن سے امی بہت عجیب بی ہیو کررہی ہیں۔۔پتہ نہیں کیوں، اُن کا بی پی بھی نارمل نہیں آرہا۔۔ عثمان افسوس سے کہہ رہا تھا
افف! اتنی پرفیکٹ بہو سے بھی اتنی شکایتیں اور ایک میری اماں ہیں۔۔ صمد نے دل میں سوچا۔۔ 
’’خیر تم کسی دن لاؤ نا بھابی کو عظمی سے ملوانے ۔۔ عثمان نے موضوع بدلا۔۔ 
’’ہاں ضرور‘‘ ملاقات تمام ہوئی مگر پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔ صمد دل ہی دل میں عظمی بھابی سے بے حد متاثر ہو چکا تھا، اور اسکے ذہن میں اُن کی ایک شبیہہ بن گئی تھی، ملگجے کپڑوں میں مزیدار لوازمات بناتی ہوئی، بکھرے ہوئے بالوں سے بچی کو سنبھالتے ہوئے، گہرے سیاہ حلقوں والی آنکھوں سے کپڑے ڈیزائن کرتے ہوئے، اُس کی شدید خواہش تھی کہ ثمرہ اُن سے ملے اور اُن سے کچھ گُر سیکھ لے۔۔ اور پھر ایک دن عثمان کی باقاعدہ دعوت موصول ہوئی اور اُس نے فوراً حامی بھر لی۔۔ 
اور وہاں جا کر تو صمد کے لئے سانس لینا اور بھی مشکل ہوگیا۔۔ عظمی اس کی سوچ کے بر عکس انتہائی خوبصورت حلیے میں تھی، اس کا چہرہ بے حد فریش تھا، لگ رہا تھا کہ وہ خود کو بھرپور توجہ دیتی ہے، صمد کو ثمرہ پر مزید غصہ آیا، 
ایک میری بیوی ہے، ناشتہ بنانے کے لئے جلدی اٹھنا پڑے تو سارا دن منہ پر بارا بجتے رہتے ہیں، اُس نے سوچا
اُس کے دل میں عظمی کے بت کے چاروں طرف پکی اینٹوں والا مندر بن گیا۔۔
دعوت پر تکلف تھی، کھانے سے پہلے سوُپ اور چکن لالی پاپس، کھانے میں جس قسم کی بریانی اور کڑھائی سَرو کی گئی تھی اُس فلیور کی یہ دونوں ڈشز صمد نے کہیں اور نہیں  کھائیں تھیں، مگر جو مچھلی اُنہوں نے بنائی تھی اُس کا ذائقہ بہترین ریستورنٹ جیسا تھا۔۔ میٹھے میں رس ملائی اور گلاب جامن دیکھ کر صمد کا منہ کھلا رہ گیا کیونکہ وہ بھی عظمی کے ہاتھ کی بنی تھیں۔۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ثمرہ پر اس دعوت کا بہت اچھا پریشر بن گیا ہوگا، کیونکہ وہ تو کسی بھی دعوت کے لئے یہ سب اکیلے نہیں بنا پاتی، اور اگر بنا لیتی تو دعوت ختم ہونے تک خود بے ہوش ہو جاتی۔۔ 
پھر اُس کو اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا، کاش کہ ثمرہ بھی عظمی بھابی جیسی ہوتی، اُس نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی تھی۔۔
واپسی پر ثمرہ نے اُس کو بتایا کہ
 ’’میں نے بھابی کا اسٹوڈیو دیکھا ، اوپر والی منزل پر ہے ‘‘
’’اچھا‘‘
’’بہت اچھے ڈیزائن ہیں صمد‘‘ 
’’ہمم اُنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اچھے ہی ڈیزائن ہوں گے‘‘ صمد نے کہا
’’یار لیکن تمہیں پتہ ہے صمد، کچھ بہت عجیب ہے اُس پورے سیِن میں‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’پتہ نہیں! 
’’کیا پتہ نہیں‘‘
’’مجھے بس کچھ ٹھیک نہیں لگا، آنٹی کا رویہ بہت عجیب تھا اپنی بہو کے ساتھ، اور بھابی کے ری ایکشن بھی۔۔ بھابی مجھے تھوڑی عجیب لگیں جیسے وہ ویسی نہیں ہیں جیسی بن رہی ہیں خیر‘‘
’’جل رہی ہو؟‘‘ صمد کو بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا
’’ کیا مطلب؟ کس چیز سے؟‘‘ ثمرہ نے نا سمجھی سے اُس کی طرف دیکھا
’’اُن کی پرفیکشن سے‘‘ صمد نے استہزئیہ لہجے میں بولا
اور ثمرہ اُسکا طنز سمجھ گئی، اُس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے مگر وہ ضبط کر کے بیٹھ گئی، بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔ 


*****
پھرچند دن بعد عثمان نے صمد کو بتایا کہ وہ کمپنی کے کام کے سلسلے میں ترکی جا رہا ہے، اور اُس کو تین ہفتے لگ جائیں گے۔۔
اُن تین ہفتوں میں وہ وقتاً فوقتاً فیس بک پر اُس کی ترکی میں مختلف مقامات پر تصاویر دیکھتا رہا، مگر تین ہفتوں بعد وہ اُس سے رابطہ کرنا یاد نہ رکھ  سکا۔۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد اُس کو اچانک احساس ہوا کہ عثمان نے بھی اُس سے رابطہ نہیں کیا
صمد نے کال کی مگر فون بدستور بند تھا، فیس بک واٹس ایپ وہ کہیں بھی دستیاب نہ تھا، اُس نے ہفتہ اتوار بڑی مشکل سے گزارے، ثمرہ سے بھی ذکر کیا، اُس کو بھ یتشویش ہوئی کہ عثمان ترکی سے خیر و عافیت کے ساتھ پاکستان آگیا ہو، اور پھر پیر کے روز صبح اپنے آفس جانے سے پہلے وہ عثمان کے آفس پہنچ گیا۔۔
وہاں جا کر اُسے پتہ چلا کہ عثمان جب سے ترکی سے واپس آیا ہے اُس نے جوائننگ نہیں دی اور فی الوقت وہ اسپتال میں داخل ہے۔۔صمد اُسکے دفتر سے نکل کر سیدھا اسپتال پہنچا، وارڈ کے باہر ہی عثمان کی امی اپنے بھانجے کے ساتھ کھڑی تھیں، اور وہ اُنہیں سمجاھ رہا تھا
’’خالہ ایسے نہیں کریں، آپ گھر چلیں، روز روز ایسے بیٹھنے کا کیا فائدہ،
 انکی آنکھیں خشک تھیں مگر چہرے پر بے حد کرب تھا
’’اسلام علیکم‘‘ صمد نے قریب جا کر کہا۔
’’صمد بیٹا، تمہیں بھی معلوم ہوگیا‘‘ آنٹی نے کہا
’’ آنٹی میں کب سے رابطے کی کوشش کرہا تھا، مجھے تو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ کیا ہوا، آج پریشان ہو کر آفس گیا تو اُن لوگوں نے بتایا کہ عثمان یہاں ہے‘‘ میں نے بتایا
’’آفس والے؟؟ آفس والوں کو کیا پتہ ہے؟؟ ‘‘ آنٹی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں، صمد کو بے حد عجیب لگا
’’ اُنہیں تو بس یہ پتہ ہے کہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے عثمان یہاں داخل ہے، کیوں آنٹی کیا ہوا ہے ؟؟ ایسا کیا ہے جو کسی کو نہیں پتہ‘‘ صمد نے بھی ڈر کر پوچھا۔۔
آنٹی کی خشک آنکھوں میں سیلاب آگیا، صمد کا خوف مزید بڑھ گیا تھا۔، کہیں اسکا خوب رو جوان جہان دوست کسی جان لیوا بیماری میں تو نہیں پھنس گیا تھا۔ 
آنٹی نے اُسے کچھ نہیں بتایا، عثمان دواؤں کے اثر کی وجہ سے مستقل نیند میں تھا۔۔ 
صمد کئی دیر وہاں کھڑا رہا۔۔ 
’’آنٹی نماز پڑھنے اُٹھیں تو اس نے عثمان کے کزن کو جا پکڑا، اور وہ لڑکا اپنی کم عقلی کے باعث سب بول گیا
دراصل خالہ کہ جو بہو ہیں نا عظمی بھابی، عثمان بھائی کی وائف۔۔ وہ اپنی شاپ کے رائڈر کے ساتھ بھاگ گئیں، شادی سے پہلے سے افئیر تھا اُن کا۔۔ آنٹی نے ایک دو بار اُنہیں اوپر والی منزل میں رائڈر سے بات چیت کرتے بھی دیکھا تھا، اسی لئے وہ عثمان بھی سے کہتی تھیں کہ ان کا کام بند کروا دو۔۔ بھابی اس کام سے خوب پیسے جمع کررہی تھیں۔۔ اور جیسے ہی عثمان بھائی اتنے ٹائم کے لئے گئے اُنہوں نے سامان سمیٹنا شروع کردیا۔۔ وہ اپنی بیٹی کو بھی چھوڑ گئیں‘اسی لئے عثمان بھائی کو نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے، ڈاکٹر نے اُنہیں ٹریکولائزر دیا ہوا ہے، کیونکہ ہوش میں آکر وہ پھر سے اعصاب کھونے لگتے ہیں‘‘
سولہ سترہ سال کے لڑکے کے منہ سے دوست کی بیوی کے بارے میں سن کر صمد کے سر پر بم پھوٹنے لگے
صمد کے لئے وہاں کھڑے رہنا مشکل ہوگیا، وہ یہ سوچ سکتا تھا کہ اُس کا دوست کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوگیا لیکن یہ بات اُس کے لئے بلکل نا قابلِ برداشت تھی کہ وہ جس کو گھر کی عزت بنا کر رکھتا ہو وہی عورت اُس کی عزت کا جنازہ نکال دے، 
’’میں دوست ہو کر یہ نہیں سہہ پا رہا تو عثمان اور آنٹی کی کیا حالت ہوگی‘‘ اُس نے سوچا
اچانک امی کی آواز اُس کے کانوں میں گونجنے لگی
’’صمد گھر مینج کرنا اور گھر کے کام کرنا سیکھا جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی بری نیت اور بری فطرت کا ہو تو اچھائی نہیں سیکھ سکتا، ایٹ لیسٹ وہ ایک صاف دل کی لڑکی ہے، اپنی غلطیوں کو سمجھتی ہے، مجھ سے اکثر کئی چیزیں پوچھتی ہے، سیکھنے کی کوشش کرتی ہے، میرے لئے اتنا کافی ہے، میں انسانوں کو اُن کے اسکلز پر جج نہیں کرسکتی مگر افسوس کہ میرا اپنا بیٹا اتنا بے بصیرت ہے‘‘ 
اُس کے دل میں شدید چبھن کا احساس ہوا 
اُسے یاد آیا کہ اُس نے کس قدر دل سے اللہ سے کہا تھا کہ ثمرہ بھی عظمی بھابی جیسی ہوجائے
’’اوہ مائے گاڈ، اللہ پلیز۔۔۔ میری بیوی کو ایسا ہی رکھنا پلیز۔۔ میں تو یہ سوچ کر ہی مر جاؤں گا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کرے، اف کبھی نہیں‘‘ 
اُس ہی وقت فون بجنے لگا، اُس نے دیکھا تو ثمرہ کی کال تھی۔۔
’’ہیلو‘‘
’’ہاں صمد، کھانا کھا لیا؟‘‘
’’نہیں‘‘ صمد کے گلے میں آنسو پھنس گئے
’’کیوں نہیں کھایا، کتنی بار کہا ہے کہ دوپہر میں وقت پر کھا لیا کرو‘‘ ثمرہ روٹین کی طرح اُس کو کھانا نہ کھانے پر ڈانٹ رہی تھی، اور اُس کو آج احساس ہوا تھا کہ ثمرہ اچھا لنچ نہیں بناسکتی تھی مگر وہ اپنے طور پر اُس کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرتی تھی، وہ روز آفس میں لنچ کرنے سے پہلے اُس سے ضرور پوچھتی تھی کہ صمد نے لنچ کیا یا نہیں۔۔ 
صمد کا ضبط ٹوٹ گیا، وہ رونے لگا
’’صمد؟؟ کیا ہوا تمہیں؟ تم ٹھیک ہو؟‘‘ ثمرہ نے بہت بے چین ہو کر پوچھا تھا
’’ آئی ایم سوری ثمرہ‘‘ صمد نے بمشکل آواز نکالی
’’کس بات کا‘‘ ثمرہ نے حیرت سے پوچھا
’’پلیز مجھے معاف کردینا میں بہت سیلفش ہوں‘‘ صمد نے بچوں کی طرح روتے ہوئے کہا
’’صمد تم نے دوسری شادی تو نہیں کر لی نا؟‘‘ ثمرہ نے بے یقینی سے پوچھا
’’ایڈیٹ‘‘ صمد نے غصے سے کہا 
’’کیا ہوا؟‘‘ ثمرہ نے پوچھا
’’میں دوسری کہاں سے کروں گا‘‘ صمد نے کہا
’’تو پھر یہ کیا کررہے ہو؟ رو کیوں رہے ہو‘‘ ثمرہ نے پوچھا
’’ کچھ نہیں، تم آفس سے کب نکلو گی‘‘ صمد نے آنسو پونچھ کر اپنی سانس بحال کی
’’ابھی تو دو گھنٹے ہیں‘‘ ثمرہ نے بتایا
’’ٹھیک ہے میں آؤں گا تمہیں لینے‘‘ صمد نے کہا
’’خیریت‘‘ ؟
’’ہاں، نئی بیوی کے لئے ولیمے کا جوڑا تمہاری پسند سے لینا ہے، صمد نے کہا 
’’شٹ اپ، ٹائم سے آجانا‘‘ ثمرہ نے ہنستے ہوئے فون بند کردیا۔۔ 
 ثمرہ کی ہنسی سن کرصمد نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھ کر دل میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکر الحمداللہ   

Sunday, June 10, 2018

عالمی یومِ بحر ۲۰۱۸


عالمی یومِ بحر ۲۰۱۸ ؁


پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی کی روک تھام
اور
سمندر کو صحت مندبنانے کی تجاویزات کی حوصلہ افزائی




خالقِ کائنات نے بھی دنیا کو کس قدر بیش قیمت نعمتوں سے مالا مال کررکھا ہے، حیرت انگیز طور پر ان نعمتوں کا صحیح توازن ہی اس کرّہ ارض کی بقا کا واحد راستہ ہے مگر بنی نوع انسان نے اپنی تمام تر صلاحیات کا استعمال کر کے اس توازن کو حتی الامکان بگاڑے رکھا ہے، بلاشبہ قدرتی وسائل کے معاملے میںیہ لاپرواہ رویہ ایک گھاٹے کاسودا ثابت ہوا ہے اورفی زمانہ ان نعمتوں کا بیان کسی خسارے کی روداد سا بن گیا ہے۔۔ اور میں بھی ایسی ہی ایک روداد ہوں۔
میَں بحرِ ہند کے وسیع و عریض دامن کا ایک حصہ ہوں، جو شمال مغرب کی سمت سے جنم لے کر بھارت، عمان، پاکستان اور یمن کے درمیان بہہ رہا ہے، میَں خلیجِ عمان کوپانی کی پتلی سی گزرگاہ ’’ہرمز‘‘ کی مدد سے خلیجِ فارس سے جوڑنے کا ذریعہ ہوں، یہی نہیں بلکہ جنوب مغربی سمت سے میں خلیجِ عدن کو ریڈ سی سے جا ملاتا ہوں۔۔ جی ہاں۔۔ میں بحیرۂ عرب ہوں!

میری اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ، خود قرآن مجھے اللہ کی نعمتوں میں شمار کر کے سورۃ النحل کی آیت ۱۴ میرا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ
’’اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس لیے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو تاکہ اس کا شکر کرو‘‘ ۔
اس آیت میں اللہ تعالی سمندر کو ایک فائدہ مند وسیلے کے طور پر پیش کرتا ہے جس سے انسان متعدد فائدے حاصل کر سکتا ہے مگر افسوس کہ انسان نے ان قدرتی وسائل کی قدر نہیں جانی، وہ ان سے فائدے ضرور حاصل کرتا ہے مگربدلے میں ان کا خیال نہیں رکھتا ، اسی لیے مجھ جیسے کئی وسائل بدحالی کاشکار ہیں، اور فائدہ پہنچانے کے بجائے خطرات کا پیش خیمہ بن گئے ہیں۔اور آج میں بات کروں گا ایشیائی ممالک بلخصوص پاکستان میں اپنی موجودگی اور اپنے حالات کی۔ 
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیںیہ بلاشبہ خطے کے اعتبار سے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے، پھر چاہے اس حیثیت میں اضافہ کرنے والی شمال میں موجود بلند و بانگ برف پوش قراقرم کی پہاڑیاں ہوں یا پھرایشیا کا تیسرا بڑا صحرا ئے تھر، وہیں اس کی زرخیز زمین اور پھر میری موجودگی نے اسے متعدد خوبیوں کا مجموعہ بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ ہی ایک ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہے۔
پاکستان میں میری شناخت اُس ۸۰۰ کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے ہوتی ہے جوسندھ سے بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس ساحلی پٹی کوصوبۂ سندھ میں کراچی بندرگاہ اورصوبۂ بلوچستان میں گوادر بندرگاہ کی بدولت ملک کی صنعتی ترقی میں خاطرخواہ اضافہ کرنے کاشرف حاصل ہے۔ان بندرگاہوں کی وجہ سے یہ صوبے ملک کے نمایاں تجارتی مراکز ہیں۔میں متعدد مچھلیوں کے ساتھ ساتھ کئی قسم کی وہیل مچھلیوں، کچھوؤں، ڈولفن، سیپیوں والے متعدد جانور، اور کورل ریفز کا بھی گھر ہوں۔ میرے ساحل سے آنے والی ٹھنڈی ہواؤں نے شہر کے موسموں کو بھی باقی شہروں سے منفرد بنائے رکھا ہے، مون سون کے مہینوں میں سمندری ہوائیں بارشوں کا لطف دوبالا کئے دیتی ہیں۔جہاں ایک طرف گرمیوں کے موسم میں چلنے والی سمندری ہوائیں کسی عطیہ خداوند سے کم نہیں،وہیں میرا مزج بگڑنے پر کئی بار شہر کو سمندری طوفانوں جیسے خدشات کا بھی سامنا رہا ہے۔متعدد اہم باتوں کے علاوہ اسی ساحل سے میری بدترین یادبھی وابستہ ہے جب ۲۰۰۳ ؁ میں، مَیں ایک تکلیف دہ سانحے سے دوچار ہوا جس میں سمندری پانی اور حیات کئی عرصے کے لئے سیاہی میں ڈوب گئے ۔
کئی سو سال پہلے جب بھارت اور پاکستان برّصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے تب بھی میری ساحلی پٹی نے صوبۂ سندھ کے شہر کراچی کو ایک امتیازی حیثیت دے رکھی تھی،گو اُس وقت کراچی ،کراچی نہیں بلکہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ، کولاچی تھا اور اسکی آبادی صرف ایک لاکھ ماہی گیروں پرہی مشتمل تھی۔ چونکہ بحیرۂ عرب سمندری حیات کے معاملے میں زرخیز مانا جاتا ہے اس لئے یہ پہلے بھی ماہی گیروں کے ذریعۂ معاش کا اہم مقام سمجھا جاتا تھا اور اب بھی ہے۔میرے وسییع و عؑ ریض د امن میں کولاچی کے ماہی گیروں کے لئے پاپلیٹ، پلّہ، اور سُرمئی مچھلی جیسی لذیذ خوراک کے علاوہ کئی قسم کے جھینگے اورانواع واقسام کے سمندری جانور ہیں جوصرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی لوگوں کی خوراک کے طور پر بے حد مرغوب سمجھے جاتے ہیں، اسی زرخیز سمندری حیات کی بدولت ماہی گیری کا یہ عام سا پیشہ صنعتی سطح تک ترقی کرتا گیا۔
وقت گزرتا گیا اور برٹش راج میں اس چھوٹے سے شہر کی اہمیت مزید بڑھ گئی اب یہ صرف بندرگاہ نہیں بلکہ صنعت و تجارت کے مرکز میں تبدیل ہوتا جا رہا تھااور میرا ساحل ملک میں درآمدات وبرآمدات کا بہترین ذریعہ بنا۔ ۱۸۹۹ ؁ تک کراچی بندرگاہ مشرق میں گندم کی برآمدات کرنے والی سب سے بڑ ی بندرگاہ بن چکی تھی۔
ترقی کے راستے پر ایک بار چل نکلنے کا بعد یہ شہر پھر کہاں رُکا،چند سو ماہی گیروں کی آبادی پر مشتمل یہ شہر اب ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اور کئی مختلف زبانیں بولنے والے تقریباً۲ کروڑ سے زائد افراد کا گھر بن چکا ہے،جہاں ماہی گیری کی صنعت میں اب لگ بھگ ۸۰ ہزار کے قریب ماہی گیر شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کپڑا،چمڑا، ربڑ،پلاسٹک،ادویات، اور اشیأخوردونوش کی صنعتیں اس شہر کی شناخت کا حصہ ہیں،مگر دن دگنی رات چوگنی ترقی کے اس سفرکو دیکھنے میں سب سے زیاد ہ ظلم بھی مَیں نے ہی سہا ہے! 
شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ان صنعتوں نے سمندر کے سکون کو برباد کرکے رکھ دیا۔ سمندری پانی کی تمام خصوصیات کو بدل کر اُسے ایک کثیف چیز میں تبدیل کردیا اور اس پانی میں سانس لینے والی زندگی کے لئے جینا دو بھر کردیا۔سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں جو شہریوں کے لئے تازگی اور فرحت کا احساس لاتی تھیں، اب بدبودار تھپیڑوں کی صورت انسانوں کو سمندر سے دور بھگا دیتی ہیں۔ 
یہ عظیم الشان صنعتیں جہاں شہر کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، وہیں یہ مجموعی طور پر ایک بڑی مقدار میں زہریلے مادّوں والا فضلہ پیدا کرنے کی بھی ذمہ دار ہیں ،ایسے مادے ہوا اور زمین کے ساتھ ساتھ پانی کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ صنعتی فضلہ کسی بھی قسم کے حفاظتی عمل سے گزارے بغیر سمندر کے پانی میں شامل کردیا جاتا ہے، جس سے سمندری پانی آلودہ اور سمندری حیات بے حد متاثر ہوتی ہے۔

کراچی شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود شہر میں سیوریج اور سالڈ ویسٹ کے انتظامات بدستور عدم توجہی کا شکار ہیں۔شہر میں ایسی سرکاری کچرا کنڈیاں کم ہی ہیں جہاں پر کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگایا جا سکے ، اس لئے رہائشی علاقوں کے کچرے کوبھی جلا کر یا بغیر جلائے سمندر ہی کی نذر کردیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کی احتسابی کمیٹی کے مطابق روزانہ ۴۷۲ملین گیلن سیوریج میری نذر کردیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ کورنگی انڈسٹریل ایریا، نہرِ خیام، کینجھر جھیل، اور ملیر ندی کے راستے مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔
سندھ اینوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ، نعیم مغل نے بتایا کہ ’’ کراچی میں کُل دس ہزار مختلف صنعتی مراکز ہیں جو مجموعی طور پر ہر روز ۸۰ ملین گیلن فضلہ پیدا کرتے ہیں، اس فضلے میں متعدد زہریلے مادے اور کیمیکل موجود ہوتے ہیں اور یہ سب براہِ راست سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ شہر کے رہائشی علاقوں میں سے ہر روز ۰۰۰،۱۲ ٹن کچرا اکھٹا کیا جاتا ہے لیکن کوئی لینڈفل نہ ہونے کی وجہ سے اُسے بھی سمندر بُرد کردیا جاتا ہے۔ ان رہائشی علاقوں سے آنے والے کچرے کی اکثریت پلاسٹک پر مشتمل ہے جو سمندری حیات کا بدترین دشمن ہے‘‘
پلاسٹک کیا ہے؟ اور یہ مجھ میں پناہ لینے والی حیات کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟ یہ حقائق کوئی سمندر سے ہی پوچھے ۔۔ شہریوں کے لئے یہ پلاسٹک روزمرہ استعمال کی جانے والی ایک عام چیز ہے۔مختلف مہنگی دھاتوں سے احتراز کے پیش نظر برتنوں سے لے کر آلات تک اب ہر چیز پلاسٹک میں دستیاب ہے۔ اپنی دستیابی اور پائیداری کی بدولت یہ غیر محسوس طریقے سے زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ استعمال کے وقت انتہائی آسان لگنے والی یہ پلاسٹک بعد از استعمال جب کوڑے کرکٹ کا حصہ بن جاتی ہے تو ماحول پر سب سے زیادہ مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ حیاتیاتی فضلے یعنی organic wasteمثلاً پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے اور دیگر باقیات کی طرح زمین یا پانی میں شامل ہو کر اپنی صورت بدل کر ماحول دوست صورت اختیار نہیں کرتی بلکہ کئی سال تک ماحول میں موجود رہ کر اسے نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنتی رہتی ہے۔۔

روزمرہ کچرے میں کم ازکم بھی۱۰ فیصد پلاسٹک پائی جاتی ہے، یہ پلاسٹک اپنی بناوٹ میں موجود کیمیائی مادوں کی وجہ سے تنزلی یعنیdegradation کا شکار نہیں ہوتی بلکہ سالہا سال ماحول میں موجود رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایک عام پلاسٹک کی بوتل ۴۰۰ سال جبکہ مچھلی پکڑنے کے لئے استعمال کئے جانے والا جال ۶۰۰ سال تک سمندر کے پانی میں اپنی صورت برقراررکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بحرِ اوقیانوس میں پچھلے چند سالوں میں کچرے کے ڈھیر سے بنے جزیرے نمودار ہوچکے ہیں۔یہ وہی کچرا ہے جو بنی نوع انسان وقتاً فوقتاً میری نذر کرتی رہتی ہے چاہے وہ صنعتوں سے آئے، رہائشی سے علاقوں سے یا سیرو تفریح کے لئے آنے والے لوگ تحفتاًمیری طرف اچھال جائیں یہ سب جمع ہو کرایسی ہی صورت اختیار کرتا ہے۔ایسے ہی چند حقائق کی بنیاد پر دنیا کے کئی محققین کی رائے ہے کہ ۲۰۵۰ ؁ تک سمندر میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک کے زیادہ پائے جانے کا امکان ہے۔ 
سمندری پانی میں پلاسٹک اپنی موجودگی سے ’’بائی سیفنول‘‘ جیسے ماحول دشمن کیمیائی مادے کا اضافہ کرکے اسے کثیف بناتی ہے جسکی وجہ سے سمندری حیات بدستور تباہ حالی کا شکار ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ساحلی علاقے سے ۱۲۹ کلو میٹر تک اب مچھلیوں کا کوئی نام و نشان نہیں، اور ماہی گیر سمندر میں کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے مچھلیوں اور جھینگوں کو تلاش کرتے ہیں۔خود میرے ساحل کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پہلے میری ساحلی پٹی سے ہی اُنہیں خاطر خواہ مقدار میں مچھلیاں مل جاتی تھیں مگر اب اُنہیں سمندر میں چھ سے سات گھنٹے کا سفر کر کے تسلی بخش مقدار میں مچھلی ملتی ہے۔
مقدار کے ساتھ ساتھ سمندری خوار ک کا معیار بھی پستی کی طرف گامزن ہے،مچھلیاں نہ صرف اپنی ساخت میں کمزور دکھائی دینے لگی ہیں بلکہ ان سے ملنے والی غذائیت بھی متواتر کمی کا شکار ہے۔ پلاسٹک سے پھیلنے والی کثافت مچھلیوں کے جسم کا مستقل حصہ بنتی جا رہی ہے اور ایسی مچھلیوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے سے انسان کینسر اور کئی دوسرے موذی امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات سے دوچار ہے ۔مچھلیوں کے علاوہ دوسرے سمندری جانور بھی اس آلودگی کے سبب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور اُن کی نسلیں خاتمے کی طرف رواں دواں ہیں، متعدد قسم کے کچھوے پلاسٹک کی تھیلیوں کو جیلی فش سمجھ کر نگلنے کی کوشش کرنے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، سمندری جانوروں کی بقا کے لئے انتہائی اہم کورل ریفز اب پتھر بن چکے ہیں، اور پچھلے کئی سالوں میں ڈولفنز اور وہیل مچھلیوں نے میرے ساحل کے پاس آنا چھوڑ دیا ہے، یہ ساری علامات مجھے اس بات سے خبرادر کرتی ہیں کہ ان جانوروں کی نسلوں کی تباہی سے قدرتی ماحولیاتی نظام بہت جلد اپنا توازن کھو دے گا، اور اگر ایسا ہوا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان انسانوں کو ہی ہوگا۔جس طرح اب سمندر کے کثیف پانی سے مسلسل قریب رہنے والے ماہی گیر بھی اب کئی قسم کی طبی شکایات درج کرواتے نظر آتے ہیں۔ ماہی گیروں میں اس کثافت سے جلد، تنفس، اور معدے کی کئی بیماریوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی فضلے کی بدولت مجھ سے معاش تلاش کرنے والے ماہی گیر اب کرومیم ، کیڈمیم اور لیڈ جیسی دھات کے زہریلے اثرات کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسے اثرات کا انکشاف انسانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم 



ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کسی سے چھپے نہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے مگر انسانی افعال اس سے نمٹنے کو مشکل تر بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ ۲۰۱۶ ؁ میں جرمنی کے ’’تھنک ٹینک‘‘ جرمن واچ کی شائع کردہ ایک فہرست میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی نشاندہی کی گئی ، اس فہرست میں پاکستان پہلے پانچویں نمبر پر ہے۔ 
عالمی تپش یعنی global warming کی وجہ سے ساری دنیا ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے، انسان اپنے ماحول سے لاپرواہی برتتے ہوئے ایک ماحول دشمن روّیہ اختیار کئے ہوئے ہیں، جس میں اُسے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پائیدارئ وسائل کا کوئی خیال نہیں، پھر چاہے وہ زمینی وسائل ہوں یا آبی۔۔ انسان تو جس ہوا میں سانس لیتا ہے اُسکو بھی آلودہ کر چھوڑا ہے، اور خود کو کثافت کے اس دلدل میں پھنسا کر وہ ترقی کی کون سی منازل طے کررہا ہے یہ وہ خود بھی نہیں جانتا،وہ بس ایک دوڑکاحصہ بن گیا ہے، جس کا اختتام شاید اس سیارے کی تباہی پر ہوگا۔ 
عالمی تپش کے پیشِ نظردنیا بھر میں موسم تیزی سے بدل رہا ہے، گرمیاں ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ رہی ہیں،اوزون لئیرکی خستہ حالی کے باعث سورج اپنی تمام تر صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے برفانی تودوں کو تیزی سے پگھلا رہا ہے ،ان برفانی تودوں کا پانی دنیا بھر کے سمندروں سے جا ملتا ہے۔جس کی وجہ سے پچھلی دہائی میں سمندری سطح میں ۱۰ سینٹی میٹر تک اضافہ ہوا ہے، سمندری سطح کا یہ اضافہ سمندری طوفانوں کی شرح میں زیادتی کا پیش خیمہ ہے، یوں تو بحیرۂ عرب میں ان طوفانوں کی شرح نسبتاًکم ہے اور ان کے ممکنہ رُخ بھارت کے شہر گجرات، پاکستان میں بدین/تھرپارکر، کراچی/ٹھٹھہ، گوادر یا عمان کی ساحلی پٹی کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن ان تبدیلیوں کے باعث اب شہرِ کراچی میں موجود میری ساحلی پٹی پران طوفانوں کا خدشہ قدرے بڑھ گیا ہے۔دو کروڑ سے زائد کی آبادی والے شہرکے لئے یہ خطرہ کتنابڑا ہے اس کا اندازہ کرنا بہت آسان ہے مگر اس کے باوجود اسکی روک تھام کے لئے کئے جانے والے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔



المیہ یہ ہے کہ مجھے قدرتی طور پر نتھار دینے والے تمر کے درختوں کو بھی ترقی کی نذر کر کے میرے لئے اپنا بچاؤ مزید مشکل کردیا۔ تمر کے یہ درخت نہ صرف مختلف قسم کی مچھلیوں،کیکڑوں اور جھینگوں کے نورسیدہ انڈوں کو نشونما کے لئے جگہ دیتے ہیں، بلکہ قدرتی طور پر طوفان کے مقابلے میں بھی شہریوں کے محافظ ہیں،تمر کے یہ درخت طوفان کے آنے پر پانی کے تیز بہاؤ کو قابو کرنے میں مدد دیتے ہیں جس کے نتیجے میں طوفان سے ہونے والے نقصانات کا اندیشہ تقریباً ختم ہوجاتا ہے۔ سمندری پانی کی یہ گزرگاہیں پانی کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں مگر فی زمانہ مجھے محفوظ رکھنے والے یہ درخت بھی محفوظ نہیں۔

جہازرانی اور بندرگاہوں کی وفاقی وزارت کے سیکریٹری خالد پروز نے ایک اندازے کے مطابق بتایاکہ’ کراچی بندرگاہ کے علاقے سے تقریباً ۲۷۵ ملین گیلن سیوریج کا فضلہ سمندر برد کیا جاتا ہے جبکہ ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی سے سمندر میں بہائے جانے والے سیوریج فضلے کی مقدار ۱۳۶ ملین گیلن ہے۔ایسی صورتِ حال میں کراچی بندرگاہ پر موجود تمر کے یہ قدرتی جنگلات بلاشبہ ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں مگر بندرگاہ پر ہونے والی تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان جنگلات کی نگہداشت ایک مشکل امر ہے ۔



جہازرانی بندرگاہوں پر ہونے والی تجارتی سرگرمیوں کا لازمی حصہ ہے مگر اس سے بھی سمندر کو کئی قسم کی آلودگی کا سامنا ہے۔ایسی صورتحال کے باوجود تجارتی سرگرمیوں کو روکنا یقیناًممکن نہیں مگر اُس کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے اقدامات کرنا لازم ہے۔ جس میں تمر کے درختوں کی شجرکاری اور نگہداشت سرِفہرست ہے۔ تاکہ میری قدرتی صفائی کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے اورماحولیاتی تبدیلی کے باعث تجارتی عوامل میں بھی کبھی رکاوٹ نہ آئے۔ 
انسانیت کو بلاشبہ اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے مگر اُسے اشرف باقی تمام مخلوق اور قدرتی وسائل پر غالب آنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ اُنہیں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہوئے آئندہ نسلوں کے استفادے کو بھی یقینی بنانا ہے،وہ اس سیارے کا مالک نہیں ہے بلکہ اس پورے قدرتی نظام کو ان مختلف مخلوق اور وسائل کے ساتھ بانٹ رہا ہے۔اُسے ان وسائل سے کام لیتے ہوئے انہیں تباہ و برباد نہیں کرنا بلکہ انکی قدرتی صورت کو محفوظ رکھنا ہے، تاکہ نسل در نسل نوعِ انسانی ان سے فائدہ لیتی رہے۔
مختلف زمینی اور آبی وسائل کی خستہ حالی سیارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لئے ان کے تحفظ کی ذمہ داری انسان پر ہی سب سے زیادہ ہے۔ اس تحفظ کے عمل کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ ماحول کی طرف اپنے روّیے کو تبدیل کرلے، اپنے اندر ماحول کے متعلق حسّاسیت پیدا کرے۔۔انفرادی سطح پر کی جانے والی کاوشیں اجتماعی صورت میں کارگر ثابت ہوتی ہیں، جیسے میںَ بوند بوند سے مل کر سمندر بن جاتا ہوں، اور کتنے طریقوں سے نوعِ انسان کی فلاح میں مددگار ہوں۔ 
پلاسٹک کے مصنوعات کو ماحول سے ختم کرنانا ممکن ہے بجز اس کے کہ اس کا استعمال ہی ختم کردیا جائے، ورنہ وہ کسی نہ کسی صورت زمیں پر یا سمندر میں ماحول کا حصہ بن کر ماحول کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔
پولیتھین بیگز کے بجائے کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو ترجیح دی جائے۔
سٹائروفوم کے کپ اور پانی پینے کیلئے پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال کی مکمل تردید ہونی چاہیئے ۔
پلاسٹک ریپرز اور پلاسٹک سے بنی دوسری چیزیں جیسے قلم ، تار یا پھر کھلونوں کے ٹوٹ جانے پر کچرے میں پھینکنے کے بجائے ری سائیکل کر کے کسی اور صورت میں استعمال کے قابل بنا لیا جائے، تاکہ وہ کچرے کے ڈھیر کا حصہ بن کر زمین یا پانی کو آلودہ کرنے کاسبب نہ بنیں۔
اور سب سے اہم یہ کہ سیر و تفریح کے غرض سے میرے ساحل پر آنے والے لوگ مجھے آلودہ نہ کرکے جائیں، کوشش کریں کہ اول توایسی کوئی چیز ساتھ نہ لائیں جو بعد از استعمال کچر ے کا حصہ بن جائے اور اگر کچرا جمع ہو بھی جائے تو اُسے ساحل پر نہ پھیلائیں، اپنے پولیتھین بیگز کو میرے کچھوؤں سے دور رکھیں۔ 
حکومتی عہدیداروں سے میری التجاء ہے کہ
حکومتی سطح پر پلاسٹک مصنوعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں تا کہ لوگوں کے لئے انفرادی طور پر اس کا متبادل ڈھونڈنا اور استعمال کرنا آسان ہو
رہائشی علاقوں کے کچرے کی چھانٹی اور ری سائکلنگ سے اُسے کار آمد بنایا جائے تاکہ کچرے کی مقدار میں کمی آئے اوراس کو ٹھکانے لگانے کے لئے زمینی اور آبی وسائل کا ضیاع نہ کرنا پڑے 
صنعتوں کو اس بات کا پابند بنایاجائے کہ اپنے فضلے کو حفاظتی اقدامات سے گزارے بغیر مجھ میں نہ ملائیں تاکہ مجھ میں سانس لینے والی زندگی اور مجھ سے معاش تلاش کرنے والے انسان متاثر نہ ہو سکیں۔ 
کئی ترقی یافتہ ممالک کی طرح سیوریج کے پانی کو مختلف پلانٹز کے زریعے ممکنہ حد تک صاف کرکے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے تاکہ مستقبل میں ہونے والی پانی کی قلت جیسے مسائل سے نمٹنے کا انتظام ہو اور ملک کے زرعی شعبے کو کسی نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ 



کاش بنی آدم میری سر پٹختی لہروں کی آہ و فغاں سن لے، جو اپنے ہر طرزِ عمل سے اُسے یہ باور کروانا چاہتی ہیں کہ اللہ کے حکم کے مطابق مجھ
سے فائدہ لیتے رہو، اور بدلے میں مجھے نقصان نہ پہنچاؤ۔ورنہ ان نقصانات کا بدلہ لینا قدرت بھی جانتی ہے۔ 

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...