Sunday, December 22, 2019

چاچا



کسی بھی انسان کی زندگی میں ماں باپ کا کیا مقام ہوتا ہے یہ کسی کو سمجھانے یا بتانے کی ضرورت نہیں، لیکن شاید ہر انسان کی قسمت میرے جیسی نہیں ہوتی۔۔ میری جگہ اگر کوئی اور لڑکا ہوتا تو اس کی ساری عمر خدا سے شکایتوں میں اور جان بوجھ کر غلط کام کر کے باپ کی بددعائیں لینے میں گزر جاتی، لیکن میں کوئی اور لڑکا نہیں تھا، میں رشید تھا، اور میرے پاس بشیر چاچا تھا۔۔ یہ نام بھی مجھے میرے چاچے کا ہی دیا ہوا تھا۔۔۔ کیونکہ ابّے کو مجھ میں روزِ اول سے ہی کوئی دلچسپی نہ تھی، ابّے کے پاس پیار کرنے کو پہلے ہی تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، اس کو چھٹی اولاد کی کوئی خواہش نہ تھی، لیکن جیسی زندگی میں نے گزاری ہے اس کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اللہ نے ہم سب کو دنیا میں کسی نہ کسی مقصد سے بھیجا ہے۔۔ 
میں پیدا ہوتے ہی چاچے کی گود میں گیا تھا، کیونکہ ابّے کے پاس میرے لئے وقت نہ تھا، ہمارے گاؤں میں چند ہی نرسیں تھیں جو گھر پر آکر زندگیوں کو دنیا میں لانے کا کام کرتی تھیں، اور ان کے ہاتھ میں ایسی بات تھی کہ بہت ہی کم عورتیں بچے کی ولادت کے بعد صحت مند زندگی گزار پاتی تھیں، حفظان صحت کے اصولوں کا نہ ان نرسوں کو کچھ علم تھا، اور گھر کی عورتوں کی نا اہلی تو پھر نہ ہی پوچھیں۔۔۔ ویسے بھی ہمارے گاٴؤں میں کوئی اتنا بے غیرت نہ تھا کہ اپنی لڑکیوں کو اسکول بھیجتا، تو اس لئے عورتیں، ان کی گھریلو زندگی اور ان کے تمام معاشی و مذہبی معاملات کن حالات کا شکار تھے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، یہ وہ لوگ تھے جو اندھیرے میں رہ رہ کر بصیرت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، روشنی ان کی آنکھیں چندھیا دیتی تھی، روشن خیالی انہیں بے چین کئے دیتی تھی، اور ان سب کی بیچ میں ہی تھا میرا چاچا۔۔۔ جس کی روشن آنکھیں میری ساری دنیا کو روشن کرنے کے لئے کافی تھیں۔۔ اس نے مجھے گودوں میں اٹھایا، جب اماں صبح سے شام اپنا بہو ہونے کا فرض ادا کرتیں اور ماں ہونا بھول جاتیں تب ماں کی طرح وہ میرا خیال رکھتا، ابّا کاروباری آدمی تھا، اور اس کا کاروبار اس کی زندگی، وہ آدم بیزار تھا، اس کو صرف اپنے اوزار اپنا مال اپنی دکان اور اپنے منافعوں کا دھیان رہتا، البتہ چاچا بہت کچھ کر سکنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود دادا کی چھوڑی ہوئی چند ایکڑ زمین پر کاشت کرتا تھا۔۔ میری خاطر اس نے کتنے ہی دن کام کی پرواہ نہ کی، اس نے میرا نام رکھا، مجھے راتوں میں سلایا، دن میں کھانا کھلایا، جب میں بڑا ہونے لگا تو اس نے مجھے خود سے مزید قریب کرلیا، گاؤں چھوٹا تھا، سب لوگ چاچے کو جانتے تھے، اور یہ بھی جانتے تھے کہ اس نے شادی نہیں کی، اس کے باوجود اکثر یہ گمان کر جاتے کہ میں اس کا بیٹا ہوں، نماز کے لئے مسجد جانا ہو، یا کھیتی کے لئے زمین پر، میں چاچا کے ساتھا ہوتا، وہ گھر اور باہر ہر کسی کا پسندیدہ تھا، پتہ نہیں اس میں ایسا کیا تھا، کیسا سحر تھا کہ جو اس سے ایک بار ملتا اس کا ہو جاتا تھا۔۔
اتنے سال گزارنے کے بعد اور زندگی میں اتنا کچھ دیکھنے کے بعد اب لگتا ہے کہ یہ چاچا کا خلوص تھا جو اس کو ممتاز بناتا تھا۔۔ 
 اس کو میں نے غصے میں بہت کم دیکھا لیکن اگر ایک بار غصہ آجائے تو توبہ ہی بھلی، سو میں خود ہی شرافت کا بھرپور مظاہرہ کرتا اور تیر کی طرح سیدھا رہتا ۔۔۔ گھر کا کوئی مسئلہ ہو یا باہر کا کوئی فیصلہ ابا بھی چاچا کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کرتا تھا، یہی حال دادی کا تھا۔۔ یہاں تک کہ میری ماں کی پھوپھی بھی اماں سے کہتی ذرا توُ اپنے دیور بشیر سے اس معاملے میں مشورہ کر کے بتا۔۔ الغرض چاچا ہر مرض کی دوا تھا۔۔۔

چاچا سے پورے گھر کو بس ایک شکایت تھی، کہ وہ شادی نہیں کرتا تھا۔۔ دادی چاچیاں پھپھیاں اس کے لئے گاؤں اور گاٴؤں سے باہر رہنے والے ہر رشتے دار کے خاندان سے اس کا ممکنہ جوڑ ڈھونڈ چکے تھے، مگر چاچا کو کوئی بھی لڑکی پسند نہ آتی، گاؤں کی اکژر محفلوں میں خوبصورت لڑکیاں صرف اس لئے مجھے پیار کرتیں کیونکہ میں چاچا کہ بہت قریب تھا، میں نے کئی لڑکیوں کو اس کا نام لے کر آہیں بھرتے  اور کئی کو اسے صرف اس لئے کوستے ہوئے دیکھا ہے کہ اس نے ان کے رشتے کو انکار کردیا، اماں اور پھوپھی سے بھی ایک دفعہ سنا تھا کہ ایک رات گاؤں کی کوئی لڑکی بھاگ کر ہمارے گھر آگئی تھی اور ضد پکڑ کر بیٹھ گئی تھی کہ بشیر سے شادی کرواؤ تو ہی گھر جاؤنگی۔۔ بعد میں اس کے مٓاں باپ نے آ کر معذرت کی کہ لڑکی پر جن ہے جو اس سے الٹے سیدھے کام کرواتا ہے، یہ بات کر کے اماں اور پھوپھی بہت دیر ہنستے رہےاور چاچا کو کئی دن تک اس کی لڑکی کے نام سے چھیڑتے رہے۔۔۔ چاچا دادی کا لاڈلا تھا۔۔ اور میں چاچا کا، اس لئے ہم دونوں سے حسد کرے والے بے شمار لوگ تھے، اور پھر ایک دن ہم دونوں اس حسد کا شکار ہوگئے۔۔ میں چار سال کا تھا اور چاچا چالیس برس کا ۔۔ جب ایک دن مجھے پتہ چلا کہ چاچا شادی کررہا ہے۔۔ وہ لڑکی کون تھی جو میرے اور چاچا کے بیچ میں آرہی تھی، میں نہیں جانتا تھا، بس یہ جانتا تھا کہ کوئی بھی اتنا خوش نہ تھا، جتنا بننے کی ایکٹنگ کررہا تھا۔۔ دیکھنے کو زور  و شور سے تیاری ہورہی تھی ، لیکن اندر ہی اندر ایک عجیب سی خاموشی تھی، بولتی تھیں تو صرف نظریں، اشاروں کنایوں میں ایسا بہت کچھ ہورہا تھا جس کا نتیجہ چاچا نے بعد میں بھگتنا تھا۔۔ 
چاچا کی خوشی کے لئے سب پیش پیش تھے، اور چاچا نے بھی ایک منٹ کے لئے اپنے پرانے رشتوں کو فراموش نہ کیا، اسے اپنی شادی میں بھی سب کی فکر تھی، جس دن وہ اپنے کپڑے بنوانے اپنے پسندیدہ درزی کے پاس گیا، جس کو گھر میں سب مذاق سے شاہی درزی کہتے تھے، اس نے اپنے میرے ابا کے اور میرے تین بھائیوں کے اور باقی چاچاؤں کے بھی کپڑے بنوائے۔۔۔ جب وہ کپڑے گھر لایا، تو سب نے کپڑے لے کر اس کے منہ پر یہ جملہ مار دیا کہ تجھے بڑی خوشی ہے اپنی شادی کی جو سب کو کپڑے بانٹ رہا ہے، چاچا کی روشن آنکھیں ایک دم ہی بجھ گئیں، سب کے چہروں پر معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کروہ یہی کہہ پایا کہ میں تو ہمیشہ ہی سب کے لئے لاتا ہوں، 
پتہ نہیں کیوں میرے حافظے میں وہ سارے لمحے آج تک محفوظ ہیں، آپ ایک چار سال کے بچے کے سامنے غیبت کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ اسے کیا پتہ، عورتیں اپنی سازشیں اس بچے کے سامنے باآسانی پلان کرلیتی ہیں کہ اسے کیا سمجھ
لیکن بد قسمتی سے وہ سب سن لیتا ہے، اور مزید بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اگر یہ سب اس کے حافظے میں محفوظ رہ گیا، تو شعور کی منازل طے کرنے تک اس کے دو نتائج ہونگے۔۔ یا تو وہ اپنے بڑوں جیسے منفی روّیے اپنا لے گا، یا ان کی غلطیاں سمجھ جانے کے بعد ان سے بدظن ہوجائے گا۔۔ لیکن ہمیں اس وقت ان دونوں ہی چیزوں کی کب پرواہ ہوتی ہے۔۔ 
چاچا کا بیاہ ہوگیا۔۔۔ اس دن چاچا بہت خوش تھا، اور پورا گاؤں اس کی ہنسی اڑا رہا تھا۔۔ گاؤں کی خوبصورت اور امورِ خانہ داری میں ماہر لڑکیاں چھوڑ کر وہ شہر کی سوکھی سڑھی زردی مائل رنگت والی لڑکی لے آیا تھا، لوگوں کے نزدیک اس کے نصیب پھوٹ گئے تھے، دادی کے سامنے جب کوئی پوچھتا کہ یہ کیسے ہوا تو سینے پر گھونسے مار کر کہتیں ہائے میں کی کراں ، میرے بشیر تے کوئی تعویز کرا دیتا، پنڈ دی انی سوہنیاں کڑیاں چھڈ کے پتہ نئیں کنو اٹھا لایا۔۔اور پھر ایک سرد آہ بھر کر آنسو پوچھ لیتی۔۔ 
میں چھوٹا تھا، زیادہ سمجھ نہیں تھی، لیکن اکثر پھوپھیاں چاچیاں اور اماں بھی چلتے پھرتے ، ہنسی مذاق میں مجھے کہہ دیتیں کہ اب گیا تیرا چاچا، اب نہیں کرے گا تجھے پیار۔۔ اب چاچی آگئی ہے۔۔ اور بس یہ سب سن سن کر مجھے لگتا کہ وہ میری چاچی نہیں کوئی سوکن ہو! اور چاچی۔۔ وہ بھی کوئی عجیب شے تھی۔۔ شروعات میں کئی عورتوں کو یوں لگا کہ اس کا ذہنی توازن خراب ہے۔۔ چاچا سے وہ یوں بات کرتی جیسے وہ اس کا شوہر نہیں دوست ہو۔۔ جبکہ گھر کی باقی عورتوں کے لئے شوہر صرف صرف شوہر ہوتا تھا، جو ان کی ضروریات پوری کرے، نان نفقہ دے اور جو ان کی اولادوں کا باپ ہو۔۔ اس سے آگے کوئی تعلق بنانے کی نہ مردوں کو ضرورت تھی نہ عورتوں کو خواہش۔۔۔ چاچا اکثر جب چاچی کے ساتھ چھت پر بیٹھتا، تو چاچی مجھے بھی گود میں اٹھا کر چھت پر ہی لے جاتی، جب وہ دونوں ساتھ ہوتے۔۔ تو کہکشاؤں سے لے کر زمین پر چلنے والے کیچوے تک کی بات کرتے۔۔ مجھے اس وقت وہ دونوں پاگل لگتے کیونکہ میں نے گھر میں کسی کو کسی سے ایسی بات کرتے نہ دیکھا۔۔ کبھی کبھی لگتا کہ چاچی انسان نہیں ہے، وہ کوئی چلتا پھرتا کمپیوٹر تھی، جس میں چاچا اپنا کی ورڈ ڈالتا اور وہ معلومات اگلنے لگتی۔۔ چاچی کسانوں کے فلاحی پروگرام کے لئے گاؤں آئی تھی، جہاں ٹریننگ کے دوران وہ چاچا سے ملی، شہر کی اس پڑھی لکھی اور خود مختار لڑکی کو چاچا میں کیا پسند تھا یہ میں  اس سے زندگی میں ایک بار ضرور پوچھنا چاہتا تھا۔۔ 


اور چاچا کو بھی جانے اس میں کیا پسند تھا۔۔ جب کہ گھر میں کسی کو بھی اس میں کچھ پسند نہ تھا۔۔ اس میں گاؤں کی عورتوں جیسی کوئی بات نہ تھی، جہاں عورتیں صبح تڑکے اٹھ کر لسّی بلوتی، وہ باؤلی ایک کڑوا پانی پیتی تھی، جو ایک کانچ کی برنی میں وہ شہر سے اٹھا لائی تھی۔۔ جانے اس کو اس میں کیا پسند تھا۔۔ جہاں عورتیں گھر کا ہر ایک کام خود کررہی ہوتیں، وہ حیرت سے سب کو تکتی کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔ کئی مرتبہ وہ عورتوں کو کہتی کہ اتنا سخت کام کوئی عورت خود کیسے کرسکتی ہے، تو عورتیں اس پر کبھی ہنسی دیتیں کبھی ناراض ہوجاتیں۔۔ اگر وہ خوراک یا حفظان صحت کے بارے میں کسی کو اپنی معلومات سے مستفید کرکے اس کی اصلاح کرنا چاہتی تو سب اسے دیکھتیں جیسے وہ کوئی جاہل ہو۔۔ وقت گزرنے لگا۔۔ چاچی اور چاچا کی شہرت میں اضافہ ہونے لگا۔۔ ہر تقریب میں، عورتوں کی ہر بیٹھک میں چاچی کو معنی خیز نظروں سے دیکھا جانے لگا۔۔ گھر کی عورتوں نے اس کی کمیوں کو ہر وقت نشانہ بنائے رکھا، چاچی کے چہرے کی ساری رونق اور چاچا کی آنکھوں کی ساری روشنی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑنے لگی۔۔ 
وقت گزرنے لگا اور شاید چاچی خود بھی بھول گئی کہ وہ کون تھی اور کہاں سے آئی تھی، اس نے وہ کالا کڑوا پانی چھوڑ کر لسّی بلونا اور پینا شروع کردیا۔۔ وہ بھی سب عورتوں کی سخت محنت والے کام خود سے ہاتھ سے کرنےکی عادی ہوگئی۔۔ اس نے چاچا کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر چاچا کا سب کچھ اپنا لیا تھا۔۔۔ لیکن گھر والوں نے چاچا کی ساری عمر کی محبت اور خدمت کو ایک لمحے بھی یاد نہیں رکھا۔۔ نہ ہی چاچی کی کسی بھی کوشش کو کبھی قدر کی نگاہ سے دیکھا
سال بیتے اور چاچا اب تک بے اولاد تھا۔۔ اب مذاق طعنوں تشنوں کی صورت اختیار کرگیا تھا۔۔ اس سب عرصے میں نہ صرف چاچا کی محبت میں مزید اضافہ ہوا تھا۔۔ بلکہ مجھے محبت کرنے والوں میں چاچی کا نام بھی شامل ہوگیا تھا۔۔ 
جب اماں مجھے شام ڈھلے گھر بلاتی اور ڈراتی کے گھر میں آجا ورنہ پیڑوں کے جن تجھ پر چڑھ جائیں گے، تو میں بستر میں ڈر کے چھپ جاتا۔۔ تب چاچی آکر سمجھاتی کہ رات کے وقت پیڑ کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کی صحت متاثر ہوتی ہے، اسی لئے رات کو پیڑوں کے نیچے نہ کھیلو تو بہتر ہے۔۔ اور ماں کہتی دیکھ لے تیری چاچی کو جن کا نام بھی پتہ ہے۔۔ کبھی کبھی مجھے چاچی کے طور طریقے قریب سے دیکھ کر لگتا جیسے وہ چاچا ہی ہو۔۔ وہ بلکل اس جیسی ہی تھی، محبت کرنے والی اور اپنا آپ بھول کر محبت کرنے والی۔۔ 
جاڑے کہ ایک دن اماں نے مجھے کہا کہ  چاچا کے کمرے کی دو چھتّی میں سے کمبل اور لحاف نکالنے ہیں۔۔ میں مزے سے ٹارچ لائٹ لے کر چھّتی میں چڑھ گیا۔۔ سوچا تھا کچھ دیر وہیں آرام سے بیٹھوں گا تاکہ اماں کہ کاموں سے بچ جاؤں۔۔ 
چھتّی پر اب چاچی کا بہت سامان تھا، بہت مشکل سے بیٹھنے کو جگہ بنائی اور ایک لفافہ اٹھا لیا۔۔ اس لفافے میں چاچی کے نام کی کئی سندیں تھیں۔۔ انعامات وصول کرتے ہوئے کئی تصویریں تھیں۔۔ تصویروں میں دیکھ کر ایک منٹ کو یقین نہ آیا کہ گھر میں ایک درجن سونے کی چوڑیاں پہنے، ریشمی کپڑوں پر پراندہ ڈالے عورت وہی ہے جو ان تصوریروں میں جینز کرتہ اور شانوں تک کٹے بالوں میں کھڑی ہے۔۔ اس دن سے میں نے دل ہی دل چاچی کا نام ڈیانا رکھ دیا۔۔ 
دو برس اور بیتے۔۔ میری دسویں سالگرہ قریب تھی، جب چاچی نے بیٹی کو جنم دیا۔۔ دادی خوشی سے جھوم رہی تھیں، چاچا بشیر کے اولاد ہوئی تھی۔۔دادی کا لاڈلا چاچا بشیر۔۔  گھر کا پسندیدہ چاچا بشیر لیکن یہ خوشی بھی بہت تھوڑی تھی، لوگوں کے تبصروں اور باتوں نے ایک بار پھر سب کے دل بدل دئے۔۔ پہلی بار اس ننھی لڑکی کو دیکھ کر میرا دل مسکرایا تھا، اس کی آنکھیں بلکل چاچا کی طرح روشن تھیں، پھر میرے کانوں میں ایک آواز پڑی۔۔ اب نہیں پیار کرتا تیرا چاچا تجھ سے، اب اس کی اپنی اولاد آگئی ہے۔۔ لیکن میں نے ان سنا کردیا۔۔ ہائے رنگ تو بلکل ماں پر چلا گیا، بھائی بشیر کی طرح گوری نہیں ہے۔۔ 
ہاں بھائی بشیر تو کتنے سرخ سفید ہیں۔۔
اس کی تو پلکیں بھی چھوٹی ہیں۔۔ اس سے لانبی پلکیں تو میرے رشید کی ہیں۔۔ اماں زور سے ہنسی
بھابی کو تو بھائی بشیر مل گیا۔۔ اس کا رشتہ کیسے ہوگا۔۔ پھوپھی نے زوردار قہقہہ لگایا۔۔ 
ہنس ہنس کے گاؤں کی عورتیں دوہری ہورہی تھیں اور کوئی نہیں دیکھ رہا تھا کہ چاچی کتنے آنسو حلق میں اتار رہی ہے۔۔ 

چاچی کے لئے وہ زندگی پہلے بھی آسان نہ تھی، اور گڑیا کی پیدائش کے بعد مسائل روز بروز سنگین ہونے لگے۔۔ اصل لڑائی جب شروع ہوئی جب چاچا نے اپنی بیٹی کو گاؤں کی باقی عورتوں کی طرح بڑا کرنے سے انکار کردیا۔۔ 
چاچی چاہتی تھی وہ چاچی کی طرح تعلیم حاصل کرے اور اپنی زندگی لسّی اور مکھن بنانے میں سرف نہ کرے۔۔ چاچی کی روشن خیالی گاؤں کی عورتوں کے لئے آزاد خیالی یا یوں کہہ لیں کہ بے غیرتی تھی۔۔ قائل کرنے کی ہر کوشش بے سود تھی۔۔ 
میں نے ساری عمر اس گھر کو دی، ابا کا نام زندہ رکھنے کے لئے اس کی زمین کو دی، اپنے بارے میں کبھی نہیں سوچا، اپنی بیوی کے بارے میں بھی نہیں سوچا، لیکن اپنی اولاد کو اس گھر پر قربان نہیں کروں گا۔۔ یہ وہ آخری جملہ تھا جو وہ دادی کو کہہ گیا۔۔ 
چاچا گاؤں چھوڑ گیا، اس نے صرف چھت الگ کی تھی، تعلق اس سے گھر والوں نے خود توڑا
اس رات گھر میں کوئی نہ سویا، دادی اماں چاچیاں پھپھیاں ساری رات چاچی اور اس کی بیٹی کو کوستے رہے۔۔ تعلیم یافتہ ہونے کو کوستے رہے، شہر میں رہنے والے ہر ایک شخص کو، اور شہر کے طور طریقوں پر لعنت بھیجتے رہے۔۔ 
جاتے ہوئے ان دونوں  نے مجھے بہت پیار کیا، دعائیں دیں۔۔ ایک سیلاب تھا جو چاچی کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا، اور ایک طوفان تھا جو چاچا دل میں دبائے چلا گیا۔۔
میری زندگی، میرے ذہن اور میری شخصیت پر اس واقعے نے گہرا اثر ڈالا، میں کافی عرصے تک اسی الجھن میں لگا رہا۔۔ کہ کون غلط تھا، کس کی وجہ سے میرا چاچا مجھے چھوڑ گیا، اور اس کے چھوڑ جانے سے جو محبت مجھ سے چھن گئی اس کا قصور کس کے سر ہے، چاچا کے خلوص کا قتل کس کے سر ہے، بدگمانیوں اور بغض کے؟ مخول اور فراغت میں عورتوں کی بنائی ہوئی باتوں کے؟ گاؤں کی رسموں یا شہر کے طریقوں کے؟ بے بصیرت لوگوں کے یا روشن خیالی کے؟
جواب کوئی نہیں تھا۔۔ 
چاچا خط لکھتا رہا، کوئی جواب موصول نہ ہونے کے باوجود بھی لکھتا رہا۔۔ پھر اس نے گاؤں میں اپنے واحد دوست عزیز لالہ کے ذریعے خیریت لینی شروع کردی، عزیز لالہ اکثر مجھے روک کر چاچا کا خط پڑھوا دیتا، اور پوچھتا تیری طرف سے کیا لکھوں ۔۔ اور میں ایک مغموم مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ جاتا۔۔ دادی کے انتقال کی خبر بھی اسے لالہ نے دی، جب وہ پہنچا، میّت قبرستان پہنچ چکی تھی، وہ بھاگا بھاگا قبرستان پہنچا، دادی کو لحد میں اتارا، ابا نے اس دن بھی اسے گلے نہ لگایا، جب پیدا کرنے والی ماں ہی دنیا سے ناراض چلی جائے تو باقی رشتے کتنے بے معنی سے ہو جاتے ہیں، چاچا ٹوٹ چکا تھا، میں چاچا کے قریب جانا چاہتا تھا، لیکن ابا نے مجھے سختی سے تھامے رکھا۔۔ میں اپنی اس بزدلی پر آج تک پچھتاوے میں ہوں اور شاید ساری عمر رہوں گا۔۔ 
چاچا واپس چلا گیا۔۔۔ لیکن لالہ کے پاس اس کے خط اب تک آتے تھے، گھر میں ہونے والے ہر بچے کی پیدائش اور میرے سب بہن بھائیوں کی شادی کی خبر اسے لالہ کے ذریعے ملتی رہی، اور وہ لالہ کے ہاتھ سب کے لئے کچھ نہ کچھ بھیجتا رہا، سب کو لگتا رہا کہ یہ نظرانے اور سلامی لالہ پرانی دوستی کے مان میں دے رہا ہے، کسی نے یہ نہ سمجھا کہ یہ سارا مان اس کا دیا ہوا ہے جس سے ہمارا خون کا رشتہ ہے۔۔ 
کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا۔۔ کہ سب کو اپنی غلطی کا احساس ہے لیکن انا کے مارے کوئی کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔۔ 

میں جوان ہوگیا، اور چاچا بوڑھا۔۔ لالہ اکثر مجھے کہتا کہ میں شہر جا کر چاچا سے ملوں لیکن میری کبھی ہمت نہ ہوسکی۔۔ چاچا اب بھی خط لکھتا تھا، اور اکثر خطوط میں صرف میرا ذکر رہ گیا تھا۔۔ اس نے اپنے گھر اور بیٹی کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا ہوا تھا۔۔ وہ بظاہر ایک آسودہ زندگی گزار رہا تھا، لیکن اپنی اولاد کو یہ آسودگی دینے کے لئے وہ کس دوزخ میں جلا تھا یہ میں بخوبی جانتا تھا، ایک پرخلوص انسان بدلے کی امید سے کسی کے ساتھ اچھا نہیں کرتا، وہ سب کی محبت میں خود کو مارتا ہے، قربانیاں دیتا ہے، وہ جانتا ہے اس کے بدلے اسے کوئی تمغے یا میڈل نہیں ملیں گے، لیکن کم از کم اسے محبت تو ضرور ملنی چاہئے ، اور اگر وہ محبت اسے نہ ملے تو وہ ایک نامکمل زندگی گزارتا ہے۔۔ ایسی ہی نامکمل زندگی اس نے گزاری تھی۔۔ 


خط آتے رہے، اور میری بزدلی اپنی جگہ قائم رہی، مجھے ہمت اس آخری خط نے دی جو چاچا کی طرف سے نہ تھا، یہ خط چاچی نے لکھ کر چاچا کی موت کی خبر دی تھی۔۔ یہ خط لے کر میں گھر آگیا تھا۔۔ اور فیصلہ سنا کر چلا گیا تھا۔۔ بہت سے جملے اب بھی کانوں میں پڑ رہے تھے۔۔ لیکن اس وقت بس چاچا کے آخری خط کی یہ لائینیں ذہن میں گردش کررہی تھیں کہ یہ عورت اور ہماری یہ بیٹی میری ساری عمر کا اثاثہ ہیں عزیز، ڈرتا ہوں میرے بعد ان کا میرے جتنا خیال کون رکھے گا۔۔


لالہ کے ساتھ شہر روانہ ہوا، چاچا کے گھر پہنچا، چاچی کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے کوئی ناگہانی کسی بستی کو ویران کر گئی ہو، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لب پر ان کہے شکوے تھے، کتنے سالوں کا انتظار تھا جو اس نے چاچا کی آنکھوں میں دیکھا ہوگا۔۔ لیکن وہ کچھ نہیں بولی، کیسے بولتی، چاچا نے رشتوں کو ہمیشہ جو مان دیا تھا وہ چاچی شکایت کر کے کبھی نہ توڑتی۔۔۔  گڑیا کو دیکھا۔۔ وہ بلکل چاچا کی صورت تھی۔۔ میرے دل نے ایک دم ہی بہت کچھ محسوس کیا۔۔ چاچا کی دی ہوئی ساری محبت میرے دل میں اس لڑکی کے لئے بھر گئی۔۔ 
ہم رات وہیں رُکے۔۔ لالہ نے مجھے جاگتے ہوئے پا کر پوچھا۔۔
شیدے ۔۔ تم بھی وہی سوچ رہے ہو جو میں سوچ رہا ہوں،
شاید۔۔ میں نے سوچ میں ڈوبے انداز میں کہا
سوچ مت، اس لڑکی کو ساتھ لے جا۔۔ اس کو اس کے باپ کے گھر میں ہی بیاہ کر لے جا۔۔ 
میرے جواب نے لالہ کو حیران کردیا۔۔ اور فیصلے کو صبح پر ٹالے رکھا۔۔ 


اگلے روز جب ہم نے چاچی کو اس فیصلے میں شامل کرنا چاہا تو اس کا پریشان ہونا حق بجانب تھا۔۔ گڑیا بھی کئی تحفظات کا شکار تھی۔۔ لیکن شعور کی جو دولت اسے چاچا چاچی سے ملی تھی، اس کی بنا پر اس نے اور چاچی نے اپنے مستقبل کے لئے یہ فیصلہ لے لیا۔۔

چاچی کی عدت ختم ہونے تک شہر سے جانے کی اور گاؤں میں بسنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔۔۔
ٴٴ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج چاچا کی پانچویں برسی ہے، اسی لئے یہ کہانی آج سنا رہا ہوں، میں نے اور چاچی نے گاؤں واپس آکر چاچا کے نام سے ایک فلاحی ادارہ کھولا ہے، گاؤن اب کافی بدل گیا ہے، لوگوں میں بہت حد تک شعور آگیا ہے، لیکن اب بھی اس شعور کو اجاگر کرنے اور بہتر زندگی کی طرف لانے کا سفر جاری ہے۔۔ آج اس فلاحی ادارے کی بھی چوتھی سالگرہ ہے۔۔ چاچی نے ادارے کے اندر ہی ایک چھوٹا سے کمرے کو اپنی رہائش گاہ بنایا ہوا ہے۔۔ 
اس رات ایک لمحے کو خیال آیا کہ گڑیا سے شادی کر کے اسے ہمیشہ کے لئے اپنے ساتھ رکھ لوں، لیکن پھر اپنی ماں، چاچیوں اور پھپھیوں کا چہرہ سامنے آگیا۔۔ چاچی کے لئے ان کی ناپسندیدگی یاد آئی، اور ایک منٹ کے لئے لگا کہ اس سے شادی کر کے اسے ایک اچھی زندگی دینے کے بجائے اسے وہ ہی سب بھگتانے لے جاؤں گا جو چاچی نے بھگتا ہے۔۔

اس لئے اس کی شادی عزیز لالہ کے اکلوتے بیٹے سے کردی، جو نوکری کے لئے دبئی جا رہا تھا۔۔ لالہ کہتا ہے کہ میں نے چاچا کی محبت کا حق ادا کیا، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ چاچا کی اپنی نیکی تھی جو اس کے بعد چاچی اور گڑیا کو عزت کی زندگی ملی۔۔ میں نے اپنے لئے تمام عمر کے پچھتاوے جمع کئے ہیں، پہلے چاچا سے نہ ملنے کا، اور دوسرا گڑیا کے معاملے میں بھی ہمت نہ کر سکنے کا۔۔ میں نے مصلحت کا راستہ اپنائے رکھا۔۔ لیکن اگر آپ کی زندگی میں کوئی بشیر چاچا ہے تو اسے ضرور منا لیجئیے گا۔۔

Tuesday, February 12, 2019

سودا


دماغ میں کوئی خیال یونہی تو نہیں آجاتا، مَیں پچھلے دنوں ہونے والے تمام واقعات کو یاد کررہی تھی، اور ہر چیز مجھے بری طرح متاثر کررہی تھی، میں اپنے آس پاس ہر چیز کو تنقیدی نظر سے دیکھ رہی تھی، اور شاید میں بہت زیادہ ہی حساس محسوس کررہی تھی۔۔ 

*******
پچھلے ہفتے میری دوست سدرہ کی بہن خلع لے کر گھر آگئی، اُس کی اور میری شادی ساتھ ساتھ ہی ہوئی تھی، اُس نے سولہ سترہ سال کی رفاقت کو توڑنے کا فیصلہ کیسے کرلیا، سدرہ نے تو خیر شادی کی ہی نہیں تھی، وہ اپنی آزادی سے شادی کرچکی تھی اور اب وہ ایک کورپوریٹ لائف کی غلام تھی، صبح نو سے پانچ مشینوں کی طرح کام کرتی، آفس میں ہر طرح کے ماحول اور گھر کے باہر ہر قسم کے سرد و گرم کا مقابلہ کرتی، مگر نمرہ کی شادی کیوں ٹوٹ رہی تھی؟َ

بس آپی میری حد پار ہوگئی تھی، مزید چاکری نہیں کرسکتی تھی آذر اور اس کے گھر والوں کی، اس نے میری زندگی تباہ و برباد کردی ہے، کیا سے کیا بنا دیا مجھے، دیکھیں میری طرف۔۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی
نمرہ مجھ سے چھوٹی تھی، اور دوست کی بہن ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ اُس سے ایک الگ سی محبت رہی تھی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میری اپنی کوئی چھوٹی بہن نہیں تھی، مجھے آج بھی وہ اُتنی ہی گلابی رنگت والی من موہنی سی لگ رہی تھی، روتے ہوئے اُس کی ناک سرخ ہوگئ تھی، اُس نے بالوں کو بھورے رنگ میں رنگا ہوا تھا، جو اُس کے گلابی چہرے کو مزید دیدہ زیب بنا رہے تھے، تازہ تازہ مینی کیور ہوئے ہاتھوں سے اُس نےآنسو پونچھے تو میرا دھیان اُس کے سراپے سے ہٹ کر ایک بار پھر اُس کے مسئلے کی طرف آگیا۔۔ 

ارے! میں تو ہمیشہ سمجھاتی رہی ہوں اسے لیکن اس نے کس طرح اتنے سال ضائع کردئے، اُس فضول شخص کے لئے اس نے اپنی بنک کی نوکری تک چھوڑ دی، اور اس کے گھر کی کام والی بن گئی۔ سدرہ نے غصے سے کہا

دیر سے سمجھ آئی لیکن آ تو گئی نہ۔۔۔ نمرہ نے ناراضی سے کہا

سمجھ تو آگئی گڑیا، لیکن اب وہ وقت کہاں سے لاؤ گی، کیا تمہیں تمہاری زندگی کے وہ سال واپس مل سکتے ہیں؟ کیا وہ نوکری اور ان سولہ سالوں میں جو ممکنہ ترقی ہوسکتی تھی وہ مل سکتی ہے؟ اپنا وہ سولہ سال پہلے والا وجود مل سکتا ہے؟ سب کردیا نہ ضائع اس کے پیچھے۔۔ سدرہ سمجھاتے سمجھاتے یکدم ترش ہوتی گئی
نمرہ آواز کے ساتھ رونے لگی

میں نے اُسے گھورا
پاگل ہوگئی ہو کیا سدرہ، ضروری ہے یہ سب باتیں کرنا۔۔ 

ہاں ضروری ہے، اور یہی سب میں تمہیں بھی سمجھاتی آئی ہوں لیکن تم عورتوں نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ ذلالت کی زندگی جیو گی۔۔۔ سدرہ یہ کہہ کرپاؤں پٹختی ہوئی چلی گئی۔

اس کی طبیعت ایسی ہی تھی، اور بچپن کی دوستی وجہ سے میں اچھی طرح سمجھتی تھی، باپ کو وہ بہت پہلے کھو چکے تھے اور کچھ عرصے پہلے ماں کے جانے کے بعد مزید تنہائی کا شکار تھے۔۔ رشتے داروں کے نام پر چند ایک مفاد پرست لوگ آس پاس تھے۔۔ اس وقت میں اُن سے ناراض نہیں ہو سکتی تھی، مجھے اُنہیں تسلی دینی تھی۔۔ 

میں بوجھل دل کے ساتھ گھر آگئی، مجھےت واقعتاً افسوس تھا۔۔ افسوس اس بات کا  کہ نمرہ کا گھر ٹوٹ جائے گا، اور سدرہ کی باتوں سے واقعی مجھے لگا کہ عورت کس طرح خود کو ایسی چیزوں کے پیچھے ضائع کردیتی ہے جس میں آخر 
کو اُس کا کچھ حصہ نہیں ہوتا۔۔

*******                                                 

آج صبح سے بچوں نے شور لگایا ہوا تھا کہ اُن کے پرانے کھلونے اتارنے ہیں کیونکہ اسکول سے اسائنمنٹ ملا تھا ’’پرانی یادوں‘‘ کا۔۔ اور اُنہیں ان کھلونوں کی تصویریں اپنی تحریروں کے ساتھ لگانی تھیں۔۔ 

دو چھتی سے وہ صندوقچی اتارنا میرے لئے مزید زہرِ قاتل ثابت ہوا۔۔ بچوں کے کھلونے نکال دینے کے بعد صندوقچی میں ایک فائل بچ گئی۔۔
 
فائل کھولنی تھی کہ بس آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی چلنے لگی، فائل میں میرے سارے تعلیمی دستاویزات، اخباروں کی وہ کٹنگز جن میں ایم اے انگلش کے دوران میری تحریریں چھپی تھیں، میرے سارے تعریفی و توصیفی سرٹیفیکیٹ، چند پرانی تصویریں جن میں یونیورسٹی کے ایام کی تفریحاں آج تک محفوظ تھیں۔۔۔
 
آہ اب کہاں ایسے مل بیٹھ سکتے ہیں، ہم سب تو بھولے بسرے ہوگئے۔۔ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں اتنا کچھ لکھ لیتی تھی، خود اپنی تحریریں پڑھ کر اچنبھا ہوا کہ یہ سب میں نے لکھا تھا۔۔کتنے ہی ڈکلیمیشن اور تقریریں جیتی تھیں میں نے، اور اب تو جیسے میں جرح کرنا ہی بھول گئی تھی، صرف ہاں اور جی کہنا یاد تھا، میں تو اپنے آپ کو یکسر بھلا چکی تھی، میں کون تھی، کیا بننا چاہتی تھی، زندگی سے میری کیا کیا امیدیں تھیں، کیا عزائم تھے، میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا کہ مجھے خود پر فخر ہوتا، میں نے اپنی شناخت کھو دی۔
ایک آنسو میری آنکھ کے کنارے سے ٹپک گیا۔۔ میں نے جلدی فائل بند کردی۔۔ اور صندوقچی میں اس طرح رکھی جیسے اپنے وجود کا کچھ حصہ دفنا دینا چاہتی ہوں

*******                                              

کل فرید صاحب گھر آئے تو بڑے خوش تھے، کمپنی والے اُنہیں سالانہ جلسے میں بہت سے تعظیمی تمغوں سے نواز رہے تھے۔۔ وہ محنتی تھے، اور اپنے کام کو پورے خلوص سے انجام دے رہے تھے، وہ اس تعظیم سے کہیں زیادہ کے مستحق تھے۔۔  اصولاً سب سے زیادہ خوشی اور فخر مجھے محسوس ہونا چاہیئے تھا، لیکن مجھے پہلی بار اُنہیں خوش دیکھ کر اپنی ناخوشی کا شدید احساس ہوا۔۔ 
وہ بار بار شکر ادا کرہے تھے اور اُن کے چہرے پر ایک سکون تھا۔۔ 
اور میرے دل میں عجیب سی ٹیس اٹھ رہی تھی۔۔ 
کیوں نہ ہوں فرید صاحب خوش۔۔ وہ تو فائدے ہی میں رہے ہیں، گھاٹے کا سودا تو میں نے کیا ہے۔۔ میں بھی اس شادی اور گھر کے لئےخود کو فراموش نہ کرتی تو شاید آج میری خوبیوں کا بھی زمانہ معترف ہوتا۔۔ میں بھی لوگوں کو دکھا دیتی کہ میں کون ہوں  اور شاید میں اپنے شعبے میں فرید صاحب سے بھی زیادہ کامیاب بن سکتی تھی، لیکن میں یہ سب نہیں کرسکی، کیونکہ میں عورت ہوں۔۔ 
میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں،میں نے فرید صاحب کی خوشی شئیر نہیں کی۔۔ اور منظر سے غائب ہوگئی، واش روم جا کر میں نے خود کو آئینے میں دیکھا تو میری بھری ہوئی آنکھیں بہہ گئیں
میرے بال سفید ہوگئے تھے، میری آنکھیں ویران تھیں، چہرہ بھی کس قدر بجھ گیا تھا، میں وہ لڑکی نہیں تھی جس کو اُس دن میں نے صندوقچی سے نکلنے والی تصویروں میں  دیکھا تھا۔۔ شاید میرا بھی سب کچھ ضائع ہو گیا تھا۔۔
 
*******                                                

میں شدید بددل تھی، اداس بھی، ایک دم ہر چیز سے دل اچاٹ سا ہوگیا تھا۔۔ فرید صاحب بھی یہ بات نوٹ کررہے تھے۔۔
کیا ہوا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں؟ اُنہوں نے رات کے کھانے پر پوچھا۔۔
میرے تینوں بچوں نے میری طرف دیکھا۔۔ 
کیا ہوا؟ امی کو، ہم نے تو محسوس ہی نہیں کیا۔۔ میرے بیٹے نے کہا۔۔
ہاں تم کو فرصت کہاں ہے کہ ماں کے چہرے کو دیکھو، لیکن مجھے فکر ہے ان کی۔۔ انہوں نے بچوں کو گھرکا
بچوں نے نظریں جھکا لیں۔۔ میرے دل کو کچھ ہوا۔۔ مجھے حقیقتاً اچھا لگا کہ اُنہیں میرے چہرے سے اندازہ ہوگیا کہ میں ٹھیک نہیں ہوں
میں ٹھیک ہوں، آپ سب کو کیوں نہیں لگ رہا۔۔میں نے نظریں چرا کر کہا۔۔ 
ہمممم۔۔ فرید صاحب نے مزید کچھ نہیں کہا۔۔ شاید وہ صرف احساس دلانا چاہتے تھے کہ اُن کی مجھ پر گہری نظر ہے۔۔

*******                                              

نمرہ اور سدرہ سے وقتاً فوقتاً بات ہوتی رہتی، آذر کی برائیاں سننے کو ملتی رہتیں۔۔ پتہ نہیں اب وہ آگے کیا کرنے والی تھی۔۔ 
میں نے امی سے بھی اس بارے میں ذکر کیا۔۔
توُ مانے یا نہ مانے، یہ سب سدرہ کا کیا ہوا ہے۔۔ امی نے غصے سے کہا۔۔

امیّ سدرہ کہاں سےآگئی اس سب میں۔۔ میں نے ہمیشہ کی طرح اس کی طرف داری کی

خوب جانتی ہوں کیسے آئی سدرہ، امی نے چڑ کر کہا، نہ اس نے خود گھر بسایا نہ کسی کو بسنے دے گی، بہن کو بھی وہی اکساتی ہوگی، مجھے اس سے یہ توقع تو ہے نہیں کہ وہ کوئی ڈھنگ کا مشورہ دے گی 

امی آپ بغیر کچھ جانے ہی سب کہہ رہی ہیں، بے چاری نمرہ کی تو زندگی برباد ہوگئی، بلکہ شاید ہر عورت اپنی زندگی یوں ضائع ہی کررہی ہے، میرے دل کی بات زبان پر آگئی

ہیں ہیں ہیں ؟ کیا بک رہی ہو؟ اُس کی الٹی سیدھی پٹیوں کا اثر تم پر بھی تو نہیں ہوگیا۔۔ اماں نے کہا

کوئی پٹی نہیں ہے اماں اُسکی، ہم خود دیکھ رہے ہیں اپنی حالت، اتنی بڑی دنیا میں کہاں اسٹینڈ کرتے ہیں ہم، ہمارے عزائم ہماری قابلیت کس کے لئے اہم ہے، ہم تو اپنے شوہروں کے لئے اپنا آپ بھی بھلا چکے ہیں، اور پتہ ہے یہ سب کر کے بھی کسی سالانہ جلسے میں تو کیا چار لوگوں کی محفل میں بھی ہماری تعظیم کے لئے کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ معاشرے نے یہ ازخود تصور کر لیا ہے کہ عورت کا تو فرض ہی یہ ہے۔۔۔ میں نے تیز لہجے میں اماں کو جواب دے کر وہ تمام بھڑاس نکال دی جو اتنے دن سے میرے دل میں تھی

ہک ہا بیٹی، صحیح کہتی ہو، شوہر کے خون پسینے کی کمائی سے دھڑا دھڑ برانڈڈ سوٹ خریدنے والی مظلوم عورتوں کا یہی المیہ ہے، تب شوہر کو بھی یہی باور کرایا جاتا ہے کہ یہ سب اُس کا فرض ہے، اور وہ یہ فرض ہر ممکن حد تک بخوشی پوری کرتا ہے، بیوی کے سارے خرچے، بیماری میں اُس کی دوا، اُسکے شوق کی کوئی چیز، یہ سب وہ خوشدلی سے کرتا ہے، لیکن آج کل کی بیویاں اتنی بے وقوف تھوڑی ہیں کہ اتنی بڑی بڑی قربانیاں دے کر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بہل جائیں۔۔ ہیں نا! اماں بھگو بھگو کر مار رہی تھیں ۔۔ میں خاموش رہی۔۔ 
خاموش کیوں ہو بی بی اب بولو۔۔۔ تم عورتیں اپنے دماغ سے یہ فلموں ڈراموں میں دکھائی جانے والی خرافات نکال دو، میاں بیوی کا رشتہ بلا شبہ کسی حد تک بہت بے لوث ہوگا، لیکن اتنا بھی نہیں کہ ایک ہی شخص اس میں اپنا آپ گھلاتا رہے، میاں اور بیوی اس کے لئے برابر محنت کرتے ہیں، نہ ہی کوئی مرد اتنا پاگل ہے کہ ایسی عورت کے پیچھے سب لٹا دے جو اُسے اور اُس کے گھر والوں کو بے سکون کرتی ہو، نہ ہی کوئی عورت اتنی عظیم ہے کہ ہمیشہ ایسے مرد سے محبت قائم رکھ سکے جو اُسکی بنیادی ضرورتیں پوری نہ کرتا ہو، ہاں یہ الگ بات ہے کہ رشتہ توڑنے جتنی ہمت ہر ایک میں نہیں ہوتی لیکن اُن کے دل میں ایک دوسرے کے لئے بغض ہوتا ہے، شکر ادا کرو کہ تمہیں ایسی کوئی تکلیف نہیں، اور زندگی میں اگر کوئی مسئلہ نہ ہو تو انسانی دماغ خود بخود مسئلے بنانے لگتا ہے۔۔ تمہاری باتوں سے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے، رہی بات تمہارے ٹیلنٹ کی، تو دنیا تمہارے آنے سے پہلے بھی چل رہی تھی اور تمہارے مرنے کے بعد بھی اس کے کسی نظام پر فرق نہیں پڑے گا۔۔ تم سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تمہارا نام کتنے روزنامچوں میں چھپا ہے ، بلکہ تم سے تمہارے گھر اور تمہاری اولاد کے بارے میں سوال ہوگا، لوگوں کے جو تم پر حقوق ہیں اُنہیں پورا کرنے کی فکر کرو، اللہ نے جو تین انسان تمہیں دیے ہیں ان کی دنیا اور آخرت کی فکر کرو، اور اس سب کے لئے تمہیں کسی تمغے یا میڈل کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ عورت کی ان ریاضتوں کا صلہ کسی سالانہ جلسے میں نہیں اللہ کے پاس روزِ قیامت کے لئے محفوظ ہیں۔۔ سن بھی رہی ہو یا میں یونہی بکواس کئے جا رہی ہوں۔۔ اماں سانس لینے کے لئے چپ ہوئیں

ماں سے ملنے والی بے عزتی اور ڈانٹ ہر عمر میں یکساں اثر کرتی ہے یہ مجھے آج پتہ چلا۔۔میں زار و قطار رونے لگی

چپ کر، بچوں کی طرح کیوں رہ رہی ہے، تیرے بچے سمجھیں گے، خدا جانے نانی نے کیا کردیا۔۔ اور بات سن۔۔ سدرہ سے ہزار اختلاف کے باوجود میں نے اُس سے تیری دوستی کبھی ختم کروانے پر اصرار نہیں کیا۔۔ کبھی سوچا ہے کیوں؟ کیونکہ مجھے سدرہ کی منفی سوچوں اور طرزِ عمل سے زیادہ تمہاری طبیعت اور اپنی تربیت پر بھروسہ رہا ہے، میں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ شاید تیری وجہ سے اس پر کوئی اچھا اثر ہو، اس کا فائدہ ہوجائے، تو میرا یہ مان نہیں توڑنا۔۔ 

اماں نے تو اتنا سب کہہ دیا، لیکن میرا دل مزید بوجھل ہوگیا، کیا میں جو سوچ رہی تھی وہ واقعی اتنا غلط ہے۔۔۔
*******                                                

آج صبح سے ہی ذہن میں خیال تھا کہ گھر کی گروسری لینے سپر اسٹور جاؤں گی۔۔ مگر نکلتے نکلتے دوپہر ہوگئی، خیر میں سپر اسٹور پہنچی اور ٹرالی لے کر سامان جمع کرنے چل نکلی، یہ ویک ڈے تھا اور دوپہر کے کوئی ساڑھے بارہ ہوئے ہونگے، اس لئے رش بہت کم تھا، میں با آسانی ٹرالی گھسیٹتی ہوئی شیلفز کے بیچ سے نکل رہی تھی کہ اچانک میری نظر آذر پر پڑی۔۔ مجھے ایک سیکنڈ کو یقین نہیں آیا کہ یہ واقعی آذر ہے یا میری نظر کو دھوکہ ہوا ہے۔۔ وہ انتہائی پژمردہ سا لگ رہا تھا، اُسکی شیو بڑھی ہوئی تھی، کپڑے بے شک صاف تھے مگر لگتا تھا کہ کئی دن سے وہ انہی کپڑوں میں ہے، بال بھی قدرے بکھرے ہوئے تھے، رنگ اُڑا اُڑا اور آنکھوں میں ایک عجیب سی تھکن ۔۔ میں شاید اُسے اتنے غور سے دیکھ رہی تھی کہ اُس نے محسوس کرلیا اور میری طرف متوجہ ہو کر وہ بھی حیران ہوا۔۔ پھر اُس نے مجھے سلام کیا۔۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میرا یہاں آذر سے کوئی بھی بات کرنا ٹھیک ہے یا نہیں لیکن میں نے تھوڑا سوچ کر سلام کا جواب دیا۔۔ آذر بھی کچھ محسوس کر کے خاموش ہوگیا۔۔ مگر پھر پوچھا۔۔
 آپ کیسی ہیں آپی۔۔ اس کا لہجہ بہت تھکا ہوا تھا۔۔

میں ٹھیک ہوں، تم سناؤ۔۔ میں نے بمشکل کہا

کیا سناؤں ، اُس نے ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا اور میں ٹرالی گھسیٹنے لگی۔۔ 

آپی۔۔ اس نے مجھے روکا۔۔

ہم بات کرسکتے ہیں۔۔۔ دو منٹ؟ پلیز؟ اُس نے التجائیہ لہجے میں کہا۔۔ اور ہم سپر اسٹور کے احاطے میں رکھی بنچوں پر بیٹھ گئے۔۔ 

نمرہ کیسی ہے آپی۔۔ اس نے پوچھا

ٹھیک ہے نوکری تلاش کررہی ہے۔۔ میں مختصراً کہا

وہ خاموش ہوگیا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا۔۔ مجھے اُسکی حالت پر ترس آیا

یہ سب کیسے ہوا آذر۔۔۔ میں نے اُس سے پوچھا، میں اب کچھ حد تک ذہن کو سنبھال چکی تھی

کچھ بھی نہیں ہوا ہے آپی آپ یقین کریں۔۔ بیلیو می! مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ایسا کیا ہوگیا کہ نمرہ نے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی میرے لئے۔۔ وہ روہانسا ہورہا تھا

تمہیں احساس ہی نہیں کہ وہ کتنی تکلیف میں رہی ہے، اُس کو کتنا دکھ ہے! اُس نے کتنا کچھ کیا تھا آذر تمہارے لئے۔۔ میں نے کہا

اور میں نے؟ آپی میں نے کچھ نہیں کیا؟ اس کی ہر تکلیف میں اس کا ساتھ دیا ہے، ہمیشہ اُس کی خوشی کا خیال رکھا ہے، میں مانتا ہو ں کہ اُس نے میرے لئے بہت قربانیاں دی ہیں، خود کو بہت بدلا بھی ہے، لیکن میں نے بھی اُن سب قربانیوں کا دل سے احترام کیا ہے، میں آج بھی نہیں چاہتا کہ وہ سب ہو جو وہ کرنا چاہ رہی ہے۔۔ 

مجھے ایک سیکنڈ کو لگا کہ شاید نمرہ کا گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔۔ 

تم سدرہ سے بات کرو۔۔ میں نے آذر کو کہا

ان کا نام بھی مت لیں۔۔ وہ ہی ابلیس ہیں سب سے بڑی ان کی ہی وجہ سے یہ تفرقہ
 ڈالا ہے میرے گھر میں۔۔ اُس نے غصے سے کہا

آذر تمیز سے بات کرو، میں نے ہلکا سا گھرکا۔۔

آپی آپ چاہے نہ مانیں لیکن یہی سچ ہے! نمرہ کا اُن سے ہر چھوٹی موٹی بات شئیر کرنا اور ان کا ہر بات پر کوئی منفی جملہ کہنا، اس سب کا میں خود گواہ ہوں۔۔ اور میں اس بات کو مانتا ہوں کہ شادی شدہ زندگی میں انسان محبت اور زمہ داری کے احساس میں ایک دوسرے کے لئے ایسا بہت کچھ کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے جو اس کے اصولوں میں سے نہیں ہوتا اور غیر شادی شدہ انسان اس کیفیت اور ازدواجی زندگی کی ان صورتحال کو نہیں سمجھ سکتے۔۔ سدرہ آپی نے جس چیز کا کبھی تجربہ ہی نہیں کیا وہ نمرہ کو اس کے بارے میں مشورے کیسے دے سکتی ہیں۔۔ اُس نے سر ہاتھوں میں تھام لیا۔۔

مجھے اس کی بات کچھ کچھ صحیح لگی۔۔ 

مجھے معلوم ہے آپی ، آپ کو میں ہی غلط لگوں گا۔۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں عورت ہی مظلوم اور قربانی کی دیوی سمجھی جاتی ہے، مرد اپنے خاندان کے لئے جو بھی کرلے اُس کو ہمیشہ فار گرانٹد لیا جاتا ہے۔۔ بہت سارے مرد بھی اپنے شوق اور اپنے پیشن کو چھوڑ کر صرف گھر چلانے کے لئے، زیادہ پیسہ کمانے کے لئے ساری زندگی ایسی نوکریاں کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں جس سے وہ دلی طور پر مطمئن نہیں ہوتے، روز صبح میرے لئے بستر سے نکل کر ناشتہ بنانا نمرہ کے نزدیک بہت بڑی قربانی تھی، سدرہ آپی کے لئے یہ میری چاکری تھی، لیکن نمرہ یہ نہیں سوچتی کہ روز میں بھی تو بستر چھوڑ کر دس گھنٹے اپنا خون جلانے باہر کیوں نکلتا ہوں؟ کیا صرف اپنے لئے؟ اس لئے کہ میں اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں، چاہتا ہوں کہ اس کو زمانے کی سرد و گرم سے بچا کر رکھوں، تا کہ اُس کے وجود کو کوئی تکلیف نہ ہو۔۔ اس کے وجود کی نرمی اور نازکی کی حفاظت کر سکوں۔۔ لیکن وہ چاہتی ہے کہ وہ سدرہ آپی کی طرح باہر کے مردوں کے سامنے یس سر نو سر سوری سر بولے، اور اپنے شوہر پر رعب جھاڑ سکے کہ میں بھی  چار پیسے کما سکتی ہوں۔۔

مَیں خاموش ہوگئی، کیا کہتی، کل امی سے ہونے والی باتیں اور آج آذر سے ہونے والی ملاقات کے بعد مجھے واقعی لگا کہ میں بہت زیادہ مطلبی ہو کر سوچ رہی تھی، بے شک میری زندگی میں جو بھی آسودہ حالی ہے وہ میرے اکیلے کی کوششوں کی وجہ سے نہیں ہے، میں کتنی پرسکون زندگی گزار ہی ہوں اور یہ فرید صاحب کی مدد کے بغیر ناممکن تھا، اُنہوں نے میری کتنی رہنمائی کی ہے۔۔ خیال رکھا ہے، میری ہر ضرورت کو پورا کیا، تکلیف کے وقت میں میرے لئے آسانی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، بے شک برے وقت بھی دیکھے ہیں، لیکن مشکل وقت ہمیشہ بہت تھوڑا ہوا کرتا ہے، ہم انسان ہی اُسے اپنی پوری زندگی پر محیط کرلیتے ہیں اور کبھی اُس فیز سے باہر نہیں نکلنا چاہتے، شاید ہمیں ہمدردیاں لینا، مظلوم بننا اچھا لگتا ہے، اگر مرد بھی عورتوں کی طرح اپنی پر قربانی کا راگ الاپنے لگیں تو عورتوں کے لئے زندگی کتنی مشکل ہوجائے گی، لیکن مرد یہ سب کچھ خوشدلی سے کر لیتے ہیں، اللہ نے اُن کو ہم پر حاکم بنایا ہے، وہ جو ایک درجہ فضیلت دی ہے، وہ شاید اُن کے اس ہی وصف کی وجہ سے دی ہے۔۔ جس کے تحت وہ اپنی خون پسینے کی کمائی ہم پر اور ہماری ضروریات پر خوشی خوشی خرچ کردیتے ہیں۔۔ اور بدلے میں صرف یہ چاہتے ہیں کہ گھر کی چار دیواری میں سکون قائم رہے
 انہی سوچوں کے درمیان میری نظر فرید صاحب کی پسندیدہ بیکری پر پڑی، مجھے یاد آیا کہ میں نے اُنکی خوشی تک ٹھیک سے شئیر نہیں کی
مجھے اپنے رروّیے اور طرزِ عمل پر مزید افسوس ہوا، مجھے خوش ہونا چاہیئے تھا کہ میرے شوہر کو اُن کی خدمات کے لئے سراہا جا رہا تھا، وہ بلاشبہ اس کے حقدار تھے، میں نے گاڑی بیکری کے سامنے روک دی، اور فرید صاحب کا پسندیدہ کیک اور بچوں کے لئے کچھ چیزیں لے کر گھر کی طرف نکل پڑی، میرے اندازے کے مطابق ابھی فرید صاحب کے گھر پہنچنے میں کچھ دیر باقی تھی، تب تک میں چائے پر کچھ مزید انتظام کرلوں گی اور کل کے فنکشن سے پہلے ہی اُنہیں اچھی طرح مبارکباد دوں گی۔۔ 
داخلی دروازہ کھول کر میں اندر پہنچی تو فرید صاحب پہلے ہی گھر میں موجود تھے، میں خالی خالی نظروں سے اُنہیں دیکھنے لگی، کیونکہ یہ میری پلاننگ کے بلکل برعکس تھا۔۔
کیا ہوا؟ فرید صاحب نے کہا
آپ آگئے؟ میں نے خالی الذہنی سے پوچھا
نہیں بیگم راستے میں ہوں؟ کچھ منگوانا ہے، فرید صاحب نے میرے بے تکے سوال کا جواب دیا
پیچھے سے تینوں بچوں کے ہنسنے کی آواز آئی
میں اُن کی طرف متوجہ ہوئی تو دیکھا کہ ڈائننگ ٹیبل میری پسندیدہ چیزوں سے بھری ہوئی تھی، ساتھ ہی میرے پسندیدہ پھولوں کے گلدستے، اور کئی تحائف پیک ہوئے پڑے تھے
یہ سب کیا ہے؟ ایک منٹ کو مجھے لگا بچوں نے فرید صاحب کے لئے کوئی تیاری کی ہے، لیکن اتنا سب بچے اکیلے نہیں کرسکتے تھے۔۔ 
ہاں یہ اچھا سوال ہے، چلئے۔۔ فرید صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر ڈائننگ ٹییبل کا رخ کیا۔۔ 
اور میرے ہاتھ میں کیک دیکھ کر رک گئے۔۔
یہ کیا؟ اُنہوں نے پوچھا۔۔
اوہ! یہ میں آپ کے لئے لائی تھی۔۔ میں نے کہا
ہمم، وہ مسکرائے۔۔ اسی طرح ہم یہ سب آپ کے لئے لائے ہیں۔۔ اُنہوں نے مجھے ٹیبل کے سامنے کھڑا کردیا۔۔
میرے لئے۔۔ میری چیخ نکلی۔۔
جی، بھئی دیکھیں سچی بات ہے، میں آپ کے لئے کوئی سالانہ فنکشن تو ارینج کر نہیں سکتا اور اس سے بھی سچی بات یہ ہے کہ عورت اپنے گھر کے لئے جو بھی کرتی ہے اُس کا شکریہ سال کے آخر میں دی گئی کوئی ٹرافی یا میڈل تو ہو ہی نہیں سکتا، ہر اچھے برے وقت میں میرا ساتھ دینے کا، میری ہمت بڑھانے کا اور مجھے آرام دینے کا جو کام آپ نے اتنے خلوص سے بغیر اتوار کی چھٹی کے کیا ہے، اس کے لئے میں نے سوچا کہ خود ایوارڈ لینے سے پہلے آپ کو ایک شکریہ تو کرنا چاہیئے، آپ گھر کی زندگی میں میری اتنی رہنمائی نہ کرتیں تو شاید باہر کی زندگی میں میَں اپنی تمام تر صلاحیات کو اس طرح کام میں نہ لا پاتا،یہ گھراور اسکا سکون آپ کی محنتوں کا صلہ ہے، آپ کو خود پر فخر ہونا چاہیئے کہ آپ ایک کامیاب عورت ہیں فرید صاحب بول رہے تھے اور میں زمین میں گڑھتی جا رہی تھی
میں بغور اُن کے مطمئن چہرے کو دیکھ رہی تھی، وہی اطمینان جو تھوڑے دن پہلے مجھے کھٹک رہا تھا، آج وہ مجھے اُس اطمینان کی وجہ بتا رہے تھے، لیکن یہ سکون میری وجہ سے نہیں اُن کی اپنی نیت کی خالصت کی وجہ سے تھا۔۔۔ کیونکہ وہ میرے اور گھر کے لئے کی جانے والی ہر چیز کو سود و زیاں کے ترازو میں نہیں تول رہے تھے، سودا تو میں کررہی تھی، خسارہ اور منافع تو میرے ذہن پر سوار تھے، وہ تو محبت کررہے تھے، گھر سے، پانی ذمہ داریوں سے، اسی لئے وہ پرسکون تھے، میری آنکھیں ٹپ ٹپ برسنے لگیں۔۔ مجھے اپنی ہر سوچ پر بے حد شرمندگی ہوئی، اور پھر ہر اچھے مسلمان کی طرح میں نے اپنے نفس کی ہر برائی کو جلدی سے شیطان کے کھاتے میں ڈالنا شروع کردیا۔۔ ہائے میں کیوں شیطان کے بہکاوے میں آگئی۔۔ کیوں اتنا برا برا سوچا اپنے شوہر کے بارے میں، خواہ مخواہ اماں کی بھی ڈانٹ سنی۔۔ لیکن اب سمجھ آگئی تھی کہ جیسے اللہ نے میری رہنمائی کی ہے اُسی طرح مجھے بھی کسی کی سوچ کو صحیح راہ دکھانی ہے۔۔ 

Tuesday, February 5, 2019

میراث

ابّا دنیا کے سب سے محنتی آدمی تھے، شاید ہی ایسا کوئی کام تھا جو وہ خود نہ کر سکتے ہوں، گھر میں کئی پریشانیاں تھیں کچھ معاشی تھیں، کچھ ابّا کی طبیعت بھی بہت اچھی نہیں رہتی تھی، وسائل بھی بہت نہ تھے مگراُن کے چہرے پر ایک 
عجیب سا سکون تھا، جیسے وہ بہت مطمئن ہوں
پتہ نہیں ابا واقعی اتنے اطمینان سے مصائب کا مقابلہ کرتے تھے یا وہ ہم بچوں پر اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے، ابآ کتنے کمزور تھے یہ احساس مجھے اُس دن ہوا جب وہ ایک دن ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے۔ ماں باپ کے لئے اولاد کو بڑھتے ہوئے دیکھنے میں ایک عجیب سی خوشی ہوتی ہے، جب بچہ اُنکی گود سے نکل کر خود اپنے پیروں پر چلنے لگتا ہے، جب اُس کی زبان صحیح صحیح الفاظ ادا کرنے لگتی ہے، جب وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگتا ہے، اور پھر ان سب خوشی کے لمحات میں ایک ایسا وقت آتا ہے، جب وہ بچہ اتنا خود مختار ہوجاتا ہے کہ خود کو ماں باپ سے الگ تصور کرنے لگتا ہے، اس کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، اپنے عزائم اور مقاصد ہوتے ہیں، وہ اپنا گھر اپنا خاندان بنانا چاہتا ہے۔۔
جیسے ابا نے ہم سب بہن بھائیوں کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اسی طرح میں نے بھی ابا کو بہت نزدیک سے بوڑھا ہوتے دیکھا تھا، میں نے ابا کے رعب کو ڈھلکتے دیکھا تھا، اُن کے جوان اور تر و تازہ چہرے پر جھریاں پڑتی محسوس کی تھیں، اُن کی تلوار جیسی مونچھوں کی جگہ اب سفید داڑھی نے لے لی تھی۔
ابّا سادہ آدمی تھے، اُنہوں نے آج کل کے لوگوں کی طرح ترقی نہیں کی، نہ ہی اُن کے کوئی بڑے بڑے مقاصد تھے، بس عام لوگوں کی طرح صبح کام پر جانا، اور واپس آکر ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارنا، اماں کے ساتھ باتیں کرنا، چھٹی کے دن ابا جو بھی کام گھر پر کرتے وہ ہم سب بہن بھائی دیکھتے، سیکھتے اور اُن کا ساتھ دیتے۔ 
میں جانتی تھی کہ سادہ لوح ابا اتنی محنت اس لئے کررہے ہیں کہ گھر بنا سکیں، ایک بہت اچھا گھر، جس گھر میں سیڑھیاں اوپر کی منزل کو جائیں اور پھر گھر کے اوپر بھی ایک گھر ہو، جب کبھی وہ اماں سے گھر کے بارے میں بات کرتے میں بہت خوشی سے اُن سے پوچھتی۔۔
ابّا ہمارا بہت بڑا گھر ہوگا؟
ہاں بیٹی۔ وہ جواب دیتے
گھر کے اوپر بھی گھر ہوگا۔ میں پھر کہتی
وہ ہنس کر گردن تائید میں ہلا دیتے۔۔
ہم وہاں کیا کریں گے؟ میں پوچھتی
کیا کریں گے مطلب؟ تم سب وہاں رہنا، کھیلنا کودنا، جب تمہاری اماں تمہارے شور و غل سے تنگ ہوں تو اوپر والی منزل پر بھاگ جانا۔۔ چھٹی والے دن ہم سب چھت پر جا کر کھانا کھایا کریں، گرمیوں کی راتوں میں چھت پر ہی سوئیں گے۔۔ ابا لمبی لمبی پلاننگ بتاتے
ابا پھر ہم ہمیشہ وہاں رہیں گی؟ میں مزید کہتی۔
ہاں، میں اور تمہارے بھائی تو رہیں گے، لیکن تم اور تمہاری چھوٹی بہنیں اپنے اپنے گھر چلی جاؤگی، پھر تم سب کئی کئی دن بعد یہاں اکھٹی ہوا کرو گی، تم سب یہاں ساتھ ہنسو بولو گے تو میرا یہ گھر بنانے کا مقصد پورا ہوجائےگا، میں نے زندگی میں اور کوئی بڑا کام نہیں کیا، لیکن میری خواہش تھی کہ اپنے بچوں کو چھت ضرور دوں تا کہ وہ اُس طرح تتر بتر نہ ہوں جیسے میں اور میری بہنیں ہوگئیں، اگر میں یہ کر سکا تو خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت ترین اور کامیاب آدمی سمجھوں گا بیٹی۔۔

ابا کی آنکھیں کسی خواب کی سی کیفیت میں ڈوب جاتیں اور یہ سب کہتے کہتے کسی قدر نم ہوجاتیں۔۔ میں ابا کو دیکھ کر خاموش ہوجاتی اور اللہ سے دعا کرتی کہ ابا کے خواب ضرور پورے ہوں، خواب تو خواب ہیں، انسان کا کسی قدر اپنی کوشش پر اختیار ہے وہ اپنے طور پر بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کچھ چیزیں، وقت، واقعات اور حادثات اُس کے بس میں نہیں ہوتے۔ 

ابا کی مستقل مزاجی اور ان تھک محنت سے گھر بن گیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ابا مزدوروں کے ساتھ مزدوروں ہی کی طرح کام کیا کرتے، راج کے ساتھ راج بن جاتے، مستری کے ساتھ مستری، گھر کی کتنی ہی اینٹیں ابا نے اپنے ہاتھ سے رکھی تھیں، کتنے ہی کمروں کے نقشے اور بنیادیں  ہم چھٹی والے دن ابا کے ساتھ جا کر طے کرتے، ابا اپنے آلات سے فرش کا ڈھلان چیک کرتے، دیوراوں کی موٹائی، اُن کا رنگ، گھر کی سجاوٹ ہر چھوٹی بڑی چیز میں اب بھی ابا نظر آتے ہیں، ہر ایک کمرے میں وہ کھڑے، چلتے پھرتے، کام کرتے، مزدوروں کو ہدایت دیتے، اُن سے حساب کتاب لیتے نظر آتے۔۔ گھر بن گیا، ہم سب وہاں رہنے لگے، ابا کے کہنے کے مطابق، وہی اوپر نیچے کی دھما چوکڑی، وہی گرمیوں کی راتوں کو چھت پر ڈیرے اور پھر اُس گھر سے وقتِ رخصت۔۔ یہ بیک وقت زندگی کا سب سے خوبصورت مگر سب سے تکلیف دہ وقت تھا، یکے بعد دیگرے ہم ساتوں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں، بہنیں چلی گئیں، بھابیاں آگئیں، بھائیوں کے بچوں نے گھر کے در و دیوار میں رنگ اور روشنیاں بھر دیں، ابا سارا دن اُن بچوں کو گرد اگرد جمع کئے رہتے۔۔ کتنی ہی یادیں ابا نے اس گھر سے منسوب کردی تھیں۔۔ اور زندگیوں کو اتنا بھرپور رکھنے والے ابا ایک دن خاموشی سے چلے گئے، کوئی طریقہ، کوئی آہ و بکا، کوئی فریاد اُنہیں روک نہ سکی 


اماں کی زندگی میں بھی ابا کے سوا تھا ہی کیا، انہوں نے اپنی تمام عمر ان کے ، ان کی اولاد کے لئے اور اُن کے گھر کے لئے وقف کی ہوئی تھی، شاید وہ ابا ہی کے لئے دنیا میں موجود تھیں، ابا گئے تو چند مہینوں میں وہ بھی ابا ہی کے پاس چلی گئیں۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا کیسے ویران ہوتی ہے یہ کوئی اُس سے پوچھے جس کے ماں باپ نہ ہوں، اکثر عجیب عجیب خوف سے نیند میں آنکھ کھل جایا کرتی تھی اور مجھے یہ تسلی نہیں ہوتی تھی کہ دو شفیق ہاتھ میری لئے دعا کرتے ہیں تو میں ہر بلا سے محفوظ ہوں، بلکہ یہ احساس ہوتا تھا کہ اب میرے لئے دعا کرنے والا کوئی نہیں۔ 
اماں ابا نہیں رہے مگر وہ گھر اب بھی ابا کا گھر ہی کہلایا جاتا رہا، جب کبھی وہاں جاؤ ہر جگہ اماں اور ابا بیٹھے نظر آتے، 

اوپر والی منزل پر ابا اپنے ہاتھ سے کچن کی دیوار بناتے نظر آتے، کبھی چھت پر پرندوں کو دانہ ڈالتے ہوئے، کبھی صحن میں اماں سِل بٹے سے چٹنی پیس رہی ہوتیں، اور کبھی تار پر ابا کا سفید قمیض شلوار سکھا رہی ہوتیں۔ 

پھر ایک دن خبر ملی کے سب بہن بھائیوں کو ابا کے گھر جمع ہونا ہے، تو بھائی دفتر اور بہنیں سسرالی کی تمام مصروفیات ترک کر کے آگئیں، لیکن آج نہ وہ گھر ابا کا گھر تھا اور نہ وہ لوگ جو وہاں جمع تھے وہ میرے بہن بھائی تھے، 

ابا کا گھر بیچا جا رہا تھا، اور بھکاری کشکول اٹھا لائے تھے، یکدم سب اتنے تنگ دست اور مفلس ہوگئے تھے کہ ابا کے گھر بکنے سے ہی مالا مال ہوسکتے تھے، اور سب کی پریشانیاں بس ان چند روپوں سے حل ہونے والی تھی

ایک سیکنڈ کے لئے ایسا لگا کہ وہ سب بہت عرصے سے اس انتظار میں تھے شاید میں ہی بے خبر تھی، یا شاید میرے ذہن کے کسی گوشے میں کبھی یہ خیال آہی نہیں سکا کہ یوں بھی تو ہو سکتا ہے، لیکن آتا بھی کیسے میرے لئے تو وہ گھر ابا کی نشانی تھا، میرے لئے وہ مٹی بجری اینٹوں اور سیمنٹ کی کوئی عمارت نہیں تھی، ابا کی عمر بھر کی کمائی تھی، اُن کی مستقل مزاجی اور اپنی اولاد کے سکون کے لئے ساری عمر کی گئی ریاضت تھی۔۔ پتہ نہیں باقی سب کے لئے وہ صرف ایک جائیداد کیوں تھی؟ کیا ابا اپنے جیسی بے لوث محبت اور سادہ دلی اپنی اولاد میں منتقل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے؟ یا واقعی دنیا اور دنیاوی ضروریات اتنی اہم ہیں کہ اُن کے آگے ان جذبوں کی نہ کسی کو ضرورت ہے نہ پرواہ۔۔ کیا سب بہت مادہ پرست ہوگئے تھے یا میں ہی ضرورت سے زیادہ حساس ہورہی تھی، ابا کے گھر سے نکلتے ہوئے میرا دل بری طرح کھنچ رہا تھا، ایک منٹ کو لگا کہ پتہ نہیں اگلی بار یہاں اس استحقاق سےبھی آسکوں گی یا نہیں، دروازے کے باہر لگی ابا کے نام کی لوح دیکھ کر میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں، ایک ہی لمحے میں ذہن کے پردے پر اس گھر کے بننے سے لے کر یہاں آکر بسنا، اسکول کالج جانا، بھائیوں کا دفتر کے لئے نکلنا، بہنوں کی رخصتی، بھائیوں کی بارات سے واپسی، بھتیجیوں اور بھتیجوں کی پیدائش اور اُن کے اس گھر میں اُٹھنے والے پہلے قدم، اما ابا کے جنازے اور پھر یہ آج کا دن۔۔۔ سب ایک جھماکے کی صورت ابھرے اور میری برستی آنکھوں  کے ساتھ سارے منظر بہہ گئے۔۔ 


میں گھٹنوں پر سر رکھے زاروقطار رو رہی تھی جب ابا میرے پاس آکر بیٹھ گئے،
مت رو بیٹی، ایسا بھی کیا ہوگیا، دنیا میں یہی تو ہوتا ہے، باپ مکان بناتا ہے کہ بچوں کو چھت دے سکے، ان کے حصے بخرے نہ ہوجائیں اور باپ کے مرنے کے بعد وہی بچے خود اپنے ہاتھ پیر کاٹ دیتے ہیں، 
لیکن ابا۔۔۔۔ مجھ سے جملہ مکمل نہیں ہوسکا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں
لیکن کیا؟ 
وہ گھر آپکی نشانی تھا۔۔۔ میں نے سانس بحال کرنے کی کوشش کی 
ابا نے ایک سرد آہ بھری۔۔ بیٹی صحیح معنوں میں تو اولاد ماں باپ کی نشانی ہوتی ہے، میں نے جن بچوں کو اکھٹا کرنے کے لئے وہ چھت بنائی تھی، وہ تو میرے مرنے کے بعد اکھٹا ہونا ہی بھول گئے، دنیا کی ہوس نے اُنہیں خون کا رنگ تک بھلا دیا ہے، تو اُس عمارت کو رکھ کر کیا کریں گے، میری نشانی تو تم سب ہو، جہاں مل کر بیٹھ جاؤ گے وہی میرا گھر ہوگا، مگر ساتھ بیٹھنے کی فرصت کسے ہے؟ کینہ، بغض، منافقت، حسد اور مطلب پرستی نے دلوں کے آئینے اتنے سیاہ کردیئے ہیں کہ خون کے رشتوں کے عکس اب وہاں سے مکمل طور پر غائب ہیں۔۔ ابا نے نظر اُٹھا کرآسمان کو دیکھا مجھے لگا اُنکی پلکیں بھی بھیگی ہوئی تھیں
ہمیں معاف کردیں ابا۔۔ ہم آپ کی محبت کا حق ادا نہیں کرسکے۔۔ میں نے سر واپس گھٹنوں پر رکھ دیا۔۔
نہیں بیٹی، معافی نہ مانگو، تم تو میری سب س پیاری بیٹی ہو بس مجھ سے ایک وعدہ کرو۔۔ ابا نے التجائیہ لہجے میں کہا
میں نے سر اٹھا کر اُنہیں دیکھا
وعدہ کرو کہ اپنی اولاد کو اور کچھ چاہے نہ دے پاؤ، مگر اُنہیں آپس کی محبت ضرور دینا، محبت کرنا سکھانا، بے لوث محبت، جو خون کے رشتوں کا حق ہے، اُنہیں لالچ اور مادہ پرستی سے نفرت کرنا سکھانا، اُنہیں سمجھانا کہ اصلی دولت کیا ہے، اُنہیں بتانا کہ خدا نوٹوں میں، عالیشان گھروں میں، اور برانڈڈ کپڑوں میں نہیں بستا، اُس کے نزدیک تو وہ لوگ محترم اور محبوب ہیں جو اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں، اُن کے حقوق پورے کرتے ہیں،انسان کی اصل دولت اُسکی میراث بھی یہی ہے. میری دعا ہے کہ اللہ تمہیں اولاد کی طرف سے کبھی کسی آزمائش میں ڈالے۔۔۔

ایک جھرجھری سی میرے پورے جسم کو ہلا گئی، میری آنکھ کھلی تو میرا تکیہ بھی آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا، شاید میں خواب دیکھتے ہوئے بھی روتی رہی تھی۔

Tuesday, October 9, 2018

پاگل

تنگ آگئی ہوں میں اس لڑکی سے، ساری رات جاگتی رہتی ہے، صبح اُٹھ کر بغیر ناشتہ کئے کالج چلی جاتی ہے، واپس آئے گی تو سارا دن کمرے میں بند رہتی ہے، گھر میں کوئی آئے جائے اسے کوئی غرض نہیں۔۔
امّی شدید پریشانی میں بڑے بھائی سے ثمرہ کی کیفیت کا تذکرہ کررہی تھیں، ثمرہ ہمیشہ سے ہی کم گو تھی، مگر اب جو رویہّ اُس نے اختیار کرلیا تھا ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔۔
دیکھ لیں امّی مجھے تو لگ رہا کہ کالج جا کر بھی پڑھائی وغیرہ کررہی ہے یا نہیں، کہیں کسی غلط صحبت میں نہ پڑ گئی ہو۔۔ بھابی نے امّی اور بھائی کی سوچ کو ایک نیا رُخ دے دیا۔۔
اللہ نہ کرے بہو۔۔ امیّ روح تک کانپ گئیں، اور اُنہیں احساس ہوا کہ اُنہیں بہو کے سامنے بیٹی کے بارے میں اس طرح بات نہیں کرنی چاہیئے تھی، اُنہوں نے دل ہی دل میں خود کو کوسا۔۔ 
اُنہوں نے اگلے دن ثمرہ سے کہا۔
ثمرہ کیوں اس طرح بی ہیو کرنے لگ گئی ہو تم۔۔ 
کیا امیّ میں نے کیا کیا؟ ثمرہ کا لہجہ انتہائی سست اور پژمردہ تھا، امی کو اُس کی آواز تک عجیب لگی
بیٹی کیوں اس طرح سارا دن کمرے میں بند رہتی ہو، کوئی مسئلہ ہے؟ پڑھائی میں کوئی مسئلہ ہے؟ کچھ چاہئیے ؟ یا کوئی اور ایسی بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے تو مجھے کہہ دو بیٹی میں تمہاری مدد کروں گی۔۔ امّی نے ہر ممکن بات جو اُن کے دل میں تھی کہہ دی، وہ واقعی اُسکی مدد کرنا چاہتی تھیں، وہ ڈانٹ ڈپٹ اور بے جا سختی کی روادار نہ تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ اُس کی کیفیت کو سمجھ سکیں تاکہ اُس کی بہتر مدد ہو سکے۔۔ 
ثمرہ نے ایک دم عجیب نظروں سے امّی کی طرف دیکھا۔۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ 
یا اللہ ثمرہ کیا ہوا ہے بولو؟ امّی جو پہلے سے ہی پریشان تھیں مزید پریشان ہوگئیں۔۔
ثمرہ نے اپنا سر امی کی گود میں رکھ دیا۔۔ 
مجھے نہیں معلوم امی کہ کیا ہوا ہے، میرا کچھ بھی کرنے کو دل نہیں چاہتا، نا کھانے کا نہ پڑھنے کا نہ کسی سے بات کرنے کا، مجھے کلاس میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے، میں سب کچھ ٹھیک سے کرنا چاہتی ہوں لیکن مجھ سے کچھ بھی نہیں ہورہا۔۔ 
چپ ہوجاؤ بیٹا پلیز۔۔ کوئی بات نہیں اللہ چاہے گا تو تم بلکل پہلے جیسی ہو جاؤ گی۔۔
امی میری دل میں بہت برے برے خیال آتے ہیں۔۔ ثمرہ نے ایک اور انکشاف کیا۔۔
امی کی تکلیف مزید بڑھ گئی۔۔ اُنہیں احساس ہوا کہ یکے بعد دیگرے ابوّ کی موت جیسے حادثے، پھر بھائی کی شادی اور پوتی کی پیدائش نے امی کو اتنا مصروف کئے رکھا کہ ثمرہ یکسر نظر انداز ہوتی گئی۔۔ لیکن اُنہوں نے فوراً اُسکی مدد کرنے کا سوچا۔۔ 
رات کو امی اُس ہی کے کمرے میں آگئیں۔۔ اور دیر تک اُس سے کئی باتیں کیں۔۔ امیّ نے محسوس کیا کہ اُسکی آنکھوں کے گرد حلقے کتنے گہرے اور کالے ہوگئے تھے، بستر سے اُترتے ہوئے امی کی نظر سائڈ میں رکھے ڈسٹ بن پر پڑی تو وہ ٹوٹے ہوئے بالوں سے بھرا تھا۔۔ یقینناً ثمرہ کے بال تیزی سے جھڑ رہے تھے۔۔ 
امّی نے وضو کیا اور جائے نماز پر کھڑی ہوگئیں، رات کے تین بج رہے تھے، ثمرہ سو چکی تھی اور امی جائے نماز پر بیٹھ کر یہ سوچ رہی تھیں کہ ثمرہ کی مدد کیسے کی جائے۔ 
پہلا خیال جو کسی بھی ایشیائی ماں کے دل میں آتا وہ یہی تھا کہ شاید اُس پر کسی جن بھوت کا اثر ہے۔۔ 
اُن کے لئے سب سے مشکل کام تھا کہ ثمرہ کا مسئلہ وہ کس کے ساتھ شئیر کریں کیوں کہ بہو کہ تجزیے نے اُنہیں اس معاملے میں بہت ڈرا دیا تھا۔۔ 
امیّ نے بری چیزوں سے حفاظت کرنے والے کئی وظیفے کرنے شروع کردیے مگر ثمرہ کا جن اُن وظیفوں سے ٹلنے والا نہ تھا۔۔ 
تھوڑے دن اسی تگ و دو میں گزرے، امی نے گھر کے کاموں میں مدد کروانے کے لئے ماسی کا انتظام کیا، اور سارا کام اُسکو سمجھا کر خود ثمرہ کو زیادہ وقت دینے لگیں۔۔ امّی ہر دن اُسکے لئے کوئی نئی چیز ڈھونڈ کر رکھتیں، کبھی اُسکی پسند کا کئی اسنیک شام میں تیار ہوتا، کبھی امی کے بچپن کی پرانی تصویریں، کبھی کوئی نامکمل پینٹینگ جو وہ ثمرہ کے ساتھ پوری کرتی، کبھی شاپنگ اور کبھی کبھار وہ اُس کو کہتیں کہ لیپ ٹاپ پر کوئی فلم دیکھ لینی چاہئے۔ 
ان سب دنوں میں امی نے یہ محسوس کیا کہ ثمرہ پر کسی غلط صحبت یا عادت کا اثر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک الگ قسم کی کیفیت کا شکار ہے، توجہ دینے پر اور کوئی الگ یا نیا کام کرنے پر اُس کا چہرہ یکدم بدل جاتا ہے، مگر جیسے ہی وہ کام ختم ہوتا ہے، وہ دوبارہ اُس ہی کیفیت میں چلی جاتی ہے۔۔ 
اُنہی دنوں اخبار میں نفسیاتی امراض کی آگہی کے بارے میں تفصیلی فیچر چھپا۔۔ جس میں نو عمر لڑکے لڑکیوں میں ڈیپریشن کی بڑھتی ہوئی شرح کے بارے میں بتایا۔۔ یکایک امی کے ذہن میں یہ بات آئی کہ شاید ، ثمرہ کا جن بھی یہی ڈیپریشن ہے۔۔ 
امی نے بھائی سے اس کا ذکر کیا، کیونکہ کسی ماہر نفسیات تک امی اکیلے رسائی حاصل نہیں کرسکتیں تھیں۔۔
آپ کہنا چاہ رہی ہیں کہ وہ پاگل ہے؟ 
جاہلوں جیسی بات نہیں کرو، ہر نفسیاتی یا دماغی مرض پاگل پن نہیں ہوتا۔۔ امی نے غصے سے کہا
امی آپ اُسے سائیکیٹرسٹ کے پاس لے جانا چاہتی ہیں۔۔ بھائی نے پھر کہا۔۔
ہاں تو؟ 
امی پلیز۔۔۔ 
کیا ہوگیا ہے تمہیں۔۔ 
امی لوگ کیا بولیں گے، میری بہن پاگل ہے، نفسیاتی مریض سے، اللہ نہ کرے کہ بات پھیل گئی تو اُس کے رشتوں میں بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔۔ 
میرے لئے لوگوں کی باتوں سے زیادہ ثمرہ کی صحت اور اُس کا سکون ضروری ہے۔۔ رہی بات شادی کی تو وہ ابھی صرف انیس سال کی ہے، میں صرف اُسے لوگوں کی باتوں اور رشتے نہ ہونے کے ڈر سے ایسی زندگی گزارنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتی۔۔ تمہیں تو اس بات کو مجھ سے بہتر سمجھنا چاہیئے۔۔ تم مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے ہو، بیٹا، جیسے نزلہ زکام کسی کو بھی ہو سکتا ہے ویسے ہی یہ بھی ایک بیماری ہے۔۔ اگر ہم نے اس وقت اس چیز کو اہمیت نہ دی تو ہمارے لئے بعد میں مسئلہ بن سکتا ہے۔۔ 
بھائی چپ ہوگیا۔۔ اُس کو واقعی احساس ہوا کہ اُسکی سوچ کتنی غلط تھی۔۔ 
تھوڑے دن بعد اُس نے امی کو آکر کہا۔۔ 
امی میرا ایک دوست ہے اُسکی مامی بہت اچھی سائیکیٹرسٹ اور کاؤنسلر ہیں، شاید آپ نے اُن خاتون کو ٹی وی پر بھی دیکھا ہو۔۔ سب سے اچھی بات جو مجھے لگی وہ یہ کہ وہ ثمرہ جیسے بچوں کو جنہیں خود اپنی بیماری کا نہیں معلوم ہوتا،  اُن سے مریض کی طرح نہیں مہمان کی طرح ملاقات کرتی ہیں، اب میں کسی دن وقت لے کر ثمرہ کو بہانے سے اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔۔ اور اُن سے ملواؤں گا۔۔ 

یہ تمام مراحل بہت مشکل تھے۔۔ کئی جھوٹ بولے گئے،، بہانے ہوئے اور کسی طرح ثمرہ کو سائیکیٹرسٹ سے تین بار ملوایا گیا۔۔ ثمرہ پہلی ملاقات کے بعد بہت خوش تھی کہ آنٹی بہت اچھی اور دوستانہ ہیں، اور تیسری بار سائیکیٹرسٹ نے اُسے ایک دوست کی حیثیت سے مال کے فوڈ کورٹ میں کھانے پر بلایا جہاں ثمرہ کا جن بلاآخر باہر آگیا۔۔ 
سائیکیٹرسٹ نے اس ملاقات کے بعد امی کو فون کیا۔۔ اور اُنہیں بتایا، کہ ابو کی موت نے اور امی کی عدم توجہی نے ثمرہ کے اندر ڈیپریشن کو اُکسایا مگر اُس کے بعد کئی ایسی چیزیں ہوتی گئیں کہ ثمرہ کا ہلکا سا صدمہ اور اکیلا پن ایک مکمل بیماری بن گیا۔۔ اسکول میں وہ جس ٹیچر کے ساتھ کافی قریب تھی اور اُسے بہت پسند کرتی تھی، اُس نے اسکول ختم ہونے کے بعد ثمرہ سے بہت برا رویہ رکھا، اور پھر رابطہ ختم کردیا، یہ وہی دن تھے جب وہ اپنے والد کے انتقال کے دکھ میں تھی اور چاہتی تھی کہ وہ ٹیچر اُس کو دلاسہ دے، وہیں امی بھی عدت اور ابو کے دکھ میں باقی لوگوں کو یکسر بھول گئی تھیں۔۔ کالج میں اُسکی کلاس کی لڑکیوں نے اُسکے دکھ اور حساسیت کو مذاق کا نشانہ بنایا اور اُس سے دوستی ختم کرلی، گھر میں بھابی آئیں تو اُن کا رویہ بھی دوستانہ نہ تھا، اور بھائی بھی دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے دور ہوگیا۔۔ ثمرہ کی صحت متاثر ہوئی اور اُس کے جسم میں ہارمونز اور اُن سے بننے والے کیمیائی مادّوں نے اپنا توازن کھو دیا۔۔ 
مجھے شک ہے کہ اُسکا ہیموگلوبن بھی کم ہوگا۔۔ اور اگر یہ زیادہ کم ہوجائے تو دماغ تک خون کی عدم رسائی کی وجہ سے کبھی کبھی جسم میں خون کا فشار اتنا کم ہوجاتا ہے کہ انسان کے ہاتھ پیر اکڑنے لگتے ہیں اور آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں تو ہم جیسے نابلد کہتے ہیں کہ ارے! دورہ پڑ گیا جن آگیا۔۔ تو پلیز ایسی صورتحال نہ آئے اس لئے میں آپ کو چند ٹیسٹ لکھ کر میسج کررہی ہوں، آپ ثمرہ سے یہی کہیئے گا آپ کو لگتا ہے کہ اُسے خون کی کمی ہے اس لئے یہ ٹیسٹ ہورہے ہیں، اور بعد ازاں دوائیاں بھی یہی کہہ کر دیجیئے گا کہ یہ سپلیمینٹس ہیں۔۔ کوشش کریں کہ اچھی ایکٹیوٹیز میں وقت گزارے، اچھی کتابیں پڑھے، یا کچھ بھی ایسا جس سے وہ اچھا محسوس کرے ورنہ بے مطلب باتیں سوچ کر اور دُکھی موسیقی سن سن کر وہ خود کو مزید بیمار کر لے گی۔۔ 
امی کو بے حد افسوس ہوا کہ اُن کی بے اعتنائی نے ثمرہ کو تکلیف میں مبتلا کئے رکھا، لیکن اُنہوں نے اللہ کا شکر کیا کہ وقت رہتے نہ صرف اُنہیں ادراک ہوگیا، بلکہ اُنہیں ایک بہتر علاج بھی مل گیا۔۔

***********************                                  

اُف کتنے عرصے بعد مل رہے ہیں تم سے تہمینہ ۔۔ چچی نے بولا
ہاں بھئی مجھے تو لگ رہا تھا اب بھی نہیں مل پائیں گے۔۔ تائی جاں بھی ساتھ تھیں۔۔
نہیں بس میں نے اس بار بہت دعا کی کہ ایک بار سب سے مل لوں کیونکہ پھوپھی جان اتنی دور سے آئی ہیں تو میں یہ موقعہ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔۔ 
اچھا تو تم صرف پھوپھی سے ملنے آئی ہو۔۔ تائی نے مصنوعی ناراضگی دکھائی۔۔ 
کیوں بھئی تم کیوں نہیں ملتیں ان سب سے۔۔ پھوپھی نے گلے لگاتے ہوئے پوچھا۔۔ 
پھپھو جان ان کی ساس پاگل ہیں نا، تو یہ ہر وقت اُن کے ساتھ رہتی ہیں، اُن کو اکیلے نہیں چھوڑ سکتے۔۔ 
یہ جملہ چچی کی بارہ سالہ بیٹی نے بولا تھا جو یقیناً اُس نے بڑوں سے سُنا تھا۔۔ 
تہمینہ نے ناراضگی سے سب بڑوں کی طرف دیکھا۔۔ سب کی نظریں جھک گئیں، کیونکہ وہ سب پیٹھ پیچھے یہی الفاظ استعمال کرتے تھے۔۔
پھپھو نے جانچتی ہوئی نظروں سے سب کو دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ کیا معاملہ ہے،
اتنی دیر میں تہمینہ نے اُس بارہ سالہ بچی کو مخاطب کر کے بولا،

نہیں بیٹا وہ پاگل نہیں ہیں کیونکہ دماغ کی ہر کمزوری یا بیماری پاگل پن نہیں ہوتی اُنہیں صرف او سی ڈی ہے 
اس بیماری میں مریض ایک کام کو جنون کی حد تک بار بار دوہراتے ہیں اور مطمئن نہیں ہوتے، اسی لئے وہ کئی بار وضو کرتی ہیں اور اپنی نماز سے بھی غیر مطمئن رہتے ہوئے کئی بار نماز پڑھتی ہیں، رات میں اکثر اُنہیں خدشہ رہتا ہے کہ اُنہوں نے گھر کے مرکزی دروازے کے تالے چیک نہیں کئے اور وہ بار بار اُٹھ کر تسلی کرتی ہیں کہ گھر محفوظ ہے، ایسے شخص کی دیکھ بھال کے لئے ہر وقت کسی ایسے انسان کو اُن کے پاس ہونا چاہئے جو یہ سمجھتا ہو کہ یہ بیماری خود مریض کے لئے بھی کم تکلیف دہ نہیں ہے، اور اُن کے رویوں کو تحمل سے برداشت کرتے ہوئے اُن کا دھیان دوسری چیزوں کی طرف لے جانے کی کوشش کرے۔ یہ کوئی پاگل پن نہیں بس دماغی میں موجود ہونے والے ہارمونز اور دوسرے کیمیائی مادّوں کے عدم توازن کا نتیجہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ سب جاہل لوگ دماغ کی ہر بیماری کو پاگل پن سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کم ہی ایسے مریض ہیں جو ان بیماریوں سے جان چھڑا پاتے ہیں، کیونکہ اُنکی کیفیت کو اُن کے اپنے گھر والے اور عزیزو اقارب مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔

تہمینہ کہتی رہی اور گھر کے تمام بڑے سے جھکائے سنتے رہے۔۔

***********************                          
مائدہ ایک ایسے ماحول میں رہی تھی جہاں اللہ سے زیادہ ابّا سے ڈرا جاتا تھا، بلاضرورت گھر سے باہر جانا، دروازے پر کھڑے رہنا، دوستیاں کرنا، اور زیادہ ہنسنا بولنا ابا کو سخت ناپسند تھا، مائدہ اور اس کی تین بہنیں گھر کے اندر والے کمرے میں ہی زیادہ تر رہتیں یا پھر باورچی خانے میں امّا کا ہاتھ بٹاتیں 

اسکول ختم ہوا تو ابا نے کالج جانے کی سخت مخالفت کی، مگر اُس ہی سرکاری اسکول کی استانی نے بتایا کہ اب اسکول میں ہی گیارہویں اور بارہویں جماعت کا نصاب پڑھایا جائے گا، گویا اسکول کے ہی چند کمروں میں کالج ہوگا، تو ابا کو کوئی اعتراض نہ ہوا کیونکہ اسکول گلی کے کونے پر ہی تھا، اور محلے کی کوئی بیس پچیس لڑکیاں وہاں ساتھ جاتی تھیں۔۔ 
بارہویں کا امتحان دینے کے بعد مائدہ نے پرائیویٹ پڑھنے میں ہی عافیت جانی اور اسی طرح وہ بی اے پاس کر گئی مگر سرکاری اسکول اور اس کے بعد پرائیویٹ بی اے کرنے سے نہ اُس کی شخصیت ہی میں تعلیم یافتہ لوگوں جیسا کوئی بدلاؤ تھا، نہ ہی اُسے اس تعلیم سے کوئی دنیاوی شعور ملا تھا۔۔ 

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ، ابّا کی بدستور گرتی صحت نے اُنہیں بستر سے لگا دیا، اور گھر میں ذریعہ معاش کچھ نہ بچا۔۔ اماں نے کوشش کی کہ محلے کی بچیاں اُن سے سلائی یا مائدہ سے ٹیوشن پڑھنے آجائیں مگر محلے میں زیادہ دوستی اور بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی لڑکی نے آنا مناسب نہ سمجھا، دوسرا یہ کہ سرکاری اسکول میں مارے باندھے پڑھنے والی وہ لڑکیاں ٹیوشن نہیں پڑھ سکتی تھیں۔ 
پھر اسکول کی استانی نے اُسے اپنے بھائی کے کمپیوٹر سینٹر میں ریسیپشن کی جاب کی پیشکش کی، مائدہ اس جاب کے بارے میں  کچھ نہیں جانتی تھی، مگر استانی نے وعدہ کیا کہ اُنکا بھائی بھرپور مدد اور تربیت کرے گا، مائدہ اس طرح کی نوکری کے لئے خود کو موذوں نہیں سمجھتی تھی، پھر بھی اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہ تھا۔۔ نوکری شروع ہوگئی اور ساتھ میں مائدہ کی ذہنی الجھن بھی۔۔ کبھی گھر سے نہ نکلنے والی لڑکی کو بس سے ایک اسٹاپ کا سفر کر کے سینٹر پہنچنا پڑتا، اور جہاں لڑکیوں سے دوستی کی بھی اجازت نہ تھی، وہیں روز کئی لڑکے لڑکیوں کے بے مطلب سوالات کا جواب دینا پڑتا، اس کے عدم اعتماد نے بہت جلد اسے مذاق کا نشانہ بنوانا شروع کردیا، اور اس کا شدید رد عمل اُس کے ذہن نے اینزائٹی اٹیک کی صورت میں دیا، گھر کے حالات کی وجہ سے نوکری چھوڑنا ناگزیر تھا، اور اپنی عادتوں کی وجہ سے نوکری جاری رکھنا مزید مشکل، ایسے حالات میں وہ جب بھی کسی کی آنکھوں میں خود کے لئے تمسخر دیکھتی اُس کے ہاتھ کانپنے لگ جاتے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی، اور جب یہ کیفیت شدید ہوتی اُس کا سانس گھٹنے لگ جاتا۔۔ 
ان حالات سے پیدا ہونے والے سٹریس نے اُس کے ہارمونز کو بھی متاثر کیا، مائدہ کا ذہن سوچوں میں اس قدر الجھا رہتا کہ اُس کو یہ تک اندازہ نہیں ہوتا کہ اُس کا پیٹ بھر گیا ہے یا نہیں اور وہ کھانے بیٹھتی تو کھاتی ہی جاتی، نتیجتاً اس کا وزن کچھ ہی مہینوں میں کئی کلو بڑھ گیا۔۔ پیروں پر ہر وقت سوجن رہنے لگی، سر اور کندھے بھاری رہنے لگے، بال جھڑ گئے، چہرہ مہاسوں سے بھر گیا۔۔ کوئی کہتا کہ اس عمر میں اکثر لڑکیوں میں یہ بدلاؤ آجاتا ہے، کوئی کہتا کہ مائدہ کو تھائرائڈ کا مسئلہ ہوگیا ہے، لیکن مائدہ کی ماں اس کے لئے کچھ نہ کر سکتی تھیں، کیونکہ اُن کے معاشی مسائل اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے۔۔ 

***********************                          


ان مثالوں جیسےکتنے ہی لوگ ہمارے آس پاس اپنے ہی آپ میں ایک جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن ہم اُن کی طرف مدد کا ہاتھ نہیں بڑھاتے، کیونکہ ہماری سوسائٹی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ یہ پاگل پن ہے، ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ تمہارا ڈیپریشن تمہاری ناشکری ہے، سب کچھ تو ہے تمہارے پاس پھر تمہیں کس بات کا دکھ ہے، اور ایسے ہر رویّے کو روا رکھتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہین کہ کوئی بھی خود اپنے لئے اس ذہنی اذیت کو پسند نہیں کرتا، وہ مجبوراً اس میں مبتلا ہوتا ہے۔ 

ہمارا معاشرہ جس تیزی سے اخلاقی اور معاشی بحران کی طرف گامزن ہے، اس ہی تیزی سےان بیماریوں کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اپنے آس پاس لوگوں کے مسائل کو سمجھیں، ان کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھائیں، اور کچھ نہیں تو اُن کے ساتھ رحم دلی سے پیش آئیں۔ 

Friday, September 7, 2018

میرا بیٹا ۔۔ مرد نہیں ہے


سات سال ہوگئے لیکن اُس خط کا ایک ایک لفظ مجھے آج بھی اَزبر ہے، ہمیں زندگی سے اتنا کچھ ملا ہے کہ ہم اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ لوگ کس کس طرح کی محرومیوں میں زندگی گزارتے ہیں اور ان محرومیوں کا اُن کی سوچ پر کیسا اثر پڑتا ہے۔

*********

یہ مدرز ڈے ہماری مارکیٹنگ کیمپین کے لئے بہت اہم ہوگا، اس کا بجٹ بھی ہم نے حتی الامکان بڑا رکھنے کی کوشش کی ہے، اور آپ سب لوگ جو اس ٹیم کا نیا حصہ ہیں، آپ سب سے ہمیں نہ صرف بہت امیدیں ہیں بلکہ آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے، اس کیمپین کی کامیابی میں جس کا جتنا کنٹریبیوشن ہوگا، اُس سے یہ فیصلہ ہوگا کہ نئی کرییٹو ٹیم کا مستقل حصہ کون بنے گا۔ 
کمپنی کا مارکیٹنگ مینجر زور شور سے بول رہا تھا۔ اور تمام نئے ٹیم ممبران کی شکلوں پر مختلف رنگ دیکھے جا سکتے تھے، کسی کی آنکھوں میں اپنی تخلیقی صلاحیات کی چمک تھی، تو کوئی اس بات پر پریشان تھا کہ اُس کے پاس صلاحیات کے نام پر صرف رٹّا لگا کر حاصل کی گئی ڈگری اور پرچی سے حاصل کی گئی نوکری ہے تو اس عملی میدان میں جھنڈے گاڑنے کے لئے اُس کے پاس کچھ نہیں۔۔ اور میَں؟ میَں ہمیشہ کی طرح اپنے خیالوں کے وسیع سمندر میں ٖغوطہ زن تھی جہاں آئیڈیاز گولہ بارود کی طرح تابڑ توڑ برس رہے تھے، مینجر ہمیں ۱۵ دن کی ڈیڈلائن دے رہا تھا جبکہ میں ۱۵ منٹ میں پوری اسٹریٹجی بنا چکی تھی، 
مس نمرہ؟ مینجر نے مجھے کھویا ہوا پا کر پکارا
جی۔۔۔ جی سر، مَیں چونکی
آپ سن رہی ہیں؟ اُس نے گھرکنے کے انداز میں پوچھا
جی سر۔۔۔ میں نے گھبرا کر کہا
ہممم۔۔۔ اُس کے اس ہممم سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ بھی کئی اور لوگوں کی طرح یہ خیال کر چکا تھا کہ میں گم صم تھی اور مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، اور نہ ہی میں اس معاملے میں کچھ کر پاؤں گی۔
میٹنگ ختم ہوئی۔۔
میرا آئیڈیا نہ صرف مشکل بلکہ بہت رِسکی تھا، اُس کو سب لوگوں کے سامنے سمجھانا میرے بس میں نہ تھا۔ 
اس لئے میَں نے فیصلہ کیا کہ کل اس آئیڈیا کو بہترین طریقے سے پریزینٹ کرنے کے لئے ساری تیاری کر کے آؤں گی اور مینجر کے سامنے دکھاؤں گی،
اور اگلے دن میں منجر کے سامنے تھی، وہ مجھے اتنا نالائق سمجھ چکا تھا کہ اُسے یقین تھا کہ میں اُس کا وقت ضائع کرنے آئی ہوں۔۔
جی مس نمرہ ، فرمایئے۔۔
اُس کی چڑھی ہوئی تیوری مجھے مزید ڈرا رہی تھی، پہلے ہی مجھے ڈر تھا کہ اگر اُسے یہ آئیڈیا سمجھ نا آیا تو کیا ہوگا، میں نے میں موٹیویشن پر جتنی کتابیں پڑھی تھیں سب سے سیکھے ہوئے اسباق کو ایک بار دل سے یاد کیا، کہ کاش یہ اصلی زندگی میں کارگر ثابت ہوجائیں۔ ایک گہری سانس خارج کی اور لیپ ٹاپ کھول کر کرسی پر بیٹھ گئی۔
سَر ۔۔ ہم نے آج تک کسی بھی اہم دن پر جتنی بھی کیمپینز دیکھی ہیں وہ مثبت روّیوں اور جذبات کی بنیاد پر پیش کی جاتی ہیں، کیونکہ شاید یہ آسان ہے، اور لوگوں کے لئے پرکشش بھی، اس میں ہر میڈیوکر،، یعنی عام اور سطحی سوچ رکھنے والا انسان حصہ لیتا ہے۔۔ جبکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم اس سے ہٹ کر اپنی تھیم تھوڑی سی ٹویسٹڈ کردیں تو انٹیلجنٹ مائیں اس کی طرف ضرور متوجہ ہونگی جو تربیت کو روٹین کے کام کی طرح نہیں بلکہ اہم فریضے کی طرح کرتی ہیں۔۔
مینجر بغیر پلکیں جھپکے میری تمہید سن رہا تھا۔۔ 
بلاشبہ اسکو پریزینٹ کرنا اور عام پبلک تک اسی طرح پہنچانا بہت مشکل ہے وہ بھی تب جب ہم جانتے ہیں کہ اس قوم میں کامن سینس کی کتنی کمی ہے۔۔ لیکن اگر ایک بار یہ ہوجائے تو ہماری کیمپین کا مقابلہ کوئی اور کمپنی نہیں کرپائے گی۔۔
میں نے رُک کر مینجر کو دیکھا۔۔
اُس نے کہا ۔۔ آئیڈیا بتاؤ
میں نے تھوک نگلا۔۔
سر، ہم پوزیٹو چیز کو نیگیٹو کے انداز میں پوچھیں گے۔ ہم ماؤں سے یہ کہیں گے کہ اُن کا بچہ کیا نہیں ہیں۔۔ 
واٹ؟ کیا مطلب۔۔۔ مینجر نے بلند آواز میں کہا۔۔
سر، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اُنہوں نے کس طرح کسی خاص قسم کی بری عادت کو ختم کرنے کے لئے اپنے بچے پر ورک آؤٹ کیا،، بلیو می ایسی بہت سی مائیں ہیں جو یہ کرتی ہیں۔۔ مثال کے طور پر آپ کو کوئی خط ملے جس میں لکھا ہو کہ میرا بیٹا جھوٹا نہیں ہے کیونکہ جب پہلی بار اُس نے اپنی غلطی چھپانے کے لئے جھوٹ بولا تب میں نے اُسے یہ اعتماد دیا کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے مگر اُس کو جھوٹ سے چھپانا گناہ ہے، میرے اعتماد نے اُسے سچ بولنے کی ہمت دی، اور میں نے اُسے شیخ عبدالقادر کا وہ واقعہ سنایا جب وہ ڈاکوؤں کہ ہاتھ لگ گئے تھے مگر اُنہوں اپنی ماں کی نصیحت کی وجہ سے جھوٹ نہیں بولا۔۔، ویسے بھی سر مجھے لگتا ہے کہ جس طرح ہم لوگ ایک ٹو۔ڈو لسٹ بناتے ہیں کہ ہمیں یہ یہ کام آج کرنے ہیں، یا چلیں یہ کہہ لیں کہ ہم سب ہی ماؤں سے یہ پوچھتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بچوں کو کیا بنانا ہے، اسی طرح ہم سب کی اور ہماری قوم کی ماؤں کی ناٹ ٹو۔ڈو لسٹ بھی ہونی چاہئے، کہ ہمیں یہ کام کبھی نہیں کرنا، یا ہمیں اپنے بچے کو یہ کبھی نہیں بننے دینا، کیونکہ وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنے گا اس میں بہت سے عوامل کو عمل دخل ہوگا، لیکن اگر وہ جھوٹا، چغل خور، حاسد یا دوسروں کا دل دکھانے والا بنے گا تو اس میں سراسر اُس کی تربیت کا عمل دخل ہے۔ 
میں نے ایک سانس میں سب کہہ کر مینجر کی طرف دیکھا۔۔
مینجر مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
یو نو واٹ نمرہ۔۔ میں ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ کچھ ایسا کیا جائے جو نہ صرف الگ ہو بلکہ اُس کا امپیکٹ معاشرے کے لئے فائدہ مند ہو، یہ آئیڈیا بہترین ہے، اور تمہاری ان سب باتوں کو ہی ایدورٹائز کر کے ہم لوگوں کو یہ تھیم سمجھائیں گے، اور دیکھتے ہیں کہ ہماری نسل میں کتنی سمجھدار اور صحیح معنوں میں ذمہ دار مائیں ہیں۔
تھینک یو سو مچ سر۔۔ میں نے بتیس دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا،
مجھے روایتی چیزوں سے سخت نفرت تھی، اس لئے میں نے کچھ ہٹ کر کرنا چاہا، لیکن میں نے توقع اُنہی روایتی جوابات کی کرلی تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کہیں کوئی اور بھی میری طرح روایات سے نالاں ہے لیکن حالات نے اُس کو میرے جیسے وسائل نہیں دیئے۔ 

*********                                            
                  کیمپین شروع ہوگئی، تشہیر کا کوئی طریقہ نہ تھا جو ہم نے چھوڑ دیا ہو، مارننگ شوز سے لے کر کئی ڈراموں تک میں ہم نے سین شامل کروا کر تربیت کی اہمیت اور اپنی تھیم کا تعارف کروایا۔۔ مگر یہ سب کرتے ہوئے ہم یہ بھول گئے کہ جس ماں پر ہم تربیت کی بھاری ذمہ داری ڈالتے ہیں اُس کی اپنی ذہنی اور جسمانی حالت اس قابل ہوتی بھی ہے یا نہیں، کہ وہ ایک اچھا انسان معاشرے کودے سکے، ہم بچے کی زرا سی لغزش پر ماں اور اسکی تربیت کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے اُس ماں کو زندگی میں کونسی اچھی چیز دی ہے جسے وہ بچوں  میں منتقل کرسکے 
خطوں کا سلسلہ شروع ہوا، میرا بیٹا چور نہیں ہے، جس میں ماں نے اپنے بیٹے کو چوری چھپے اپنے کزن کی چیزیں اٹھاتے ہوئے دیکھا اور اُس کی رہنمائی کی تاکہ یہ عادت پختہ نہ ہو، میری بیٹی ظالم نہیں ہے، اس کیس میں ماں نے بیٹی کو بے زبان جانوروں پر رحم کرنا سکھایا، ایک خط پر تو ہم بہت دیر تک ہنسے جس کا ٹائٹل تھا میری بیٹی پیٹو نہیں ہے، اس میں ماں نے بچی کو جنک فوڈ کے بجائے ہیلتھی کھانا کھانے پر آمادہ کئے رکھا اور اس مقابلے میں حصہ لینا بھی اسی مہم کا ایک حصہ تھا، مجھے لگا کہ واقعی ہر ماں ونر ہے جو اپنے بچے کے لئے اتنا کرتی ہے اور اتنا سوچتی ہے، پھر ایک خط نے میری ٹیم کو کتنے دن اداس رکھا اور آج تک اس کی یاد سے میری آنکھیں برس جاتی ہیں،

میرا بیٹا مرد نہیں ہے 
یہ کہانی شاید میرے بیٹے کی ہے، اور اُن راستوں کی جن پر میں اُس کی تربیت کے لئے گزری ہوں لیکن یہ بات بہت سمجھنے والی ہے کہ اولاد کی تربیت میں ماں اُنہی راستوں کا انتخاب کرتی ہے جن پراُسکا بچپن اور اس کی اپنی کہاںی متاثر ہوتی ہے، اس لئے یہ کہانی میرے بیٹے فاتح کے ساتھ ساتھ میری بھی ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا یہ دیکھا کہ گھرکی سب عورتیں مردوں کی محکوم تھیں، مردوں کا بچا ہوا کھاتیں، مردوں کی ڈانٹ سنتی، وہ اپنے ہنسنے اور رونے کے لئے اپنے مردوں کے اشاروں کا انتظار کرتیں، کبھی کوئی مرد گھر سے باہر ہوتا تو دادی کھاتی ہوئی عورتوں  کا ہاتھ روک لیتیں اور مردوں کے لئے سب اُٹھا رکھتیں، مرد باہر سے بھرے پیٹ آکر اُن کھانوں پر نظر بھی نہ ڈالتے، کھانا پھینک دیا جاتا مگر عورتوں کو نصیب نہ ہوتا، ابا جب اماں سے کسی بات پر ناراض ہوتا، تو دادی صحن میں رکھے پلنگ پر بیٹھی دور سے آواز لگاتی، ارے مرد بن دو ہاتھ لگا، سیدھی ہوجائے گی۔۔ اماں کی طرح چاچیاں بھی پٹتی، آدھے پیٹ کھاتیں، اور یہی حال پھپھیوں کا بھی تھا۔ اُن کی بھوک بھی آدھے پیٹ کھا کھا کر تقریباً مر چکی تھی، وہ بھی سب عورتوں کے ساتھ بیٹھتیں تو کوئی نند بھاوج یا جیٹھانی نہیں ہوتی، سب عورتیں ہوتیں، سب کے دکھ ایک جیسے ہوتے، میری پھپھیاں ہمیشہ کہتیں کہ دادی نے بھی ایسی ہی زندگی گزاری ہے اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ عورت کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے، 
اور اس ماحول میں رہتے رہتے شاید میری ماں چاچیاں میں اور میری باقی کزنز بھی یہی سمجھنے لگی تھیں ۔۔ پھر ایک کے بعد دوسری میری عمر کی سب لڑکیوں کی شادی کا وقت آیا، مجھے کبھی یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ عورت کی اس بربادی کو اتنا سیلیبریٹ کیوں کیا جاتا ہے، اُسکو دوسروں کے برتن دھونے کے لئے بھیجنے کے لئے اتنی خوشی کیوں منائی جاتی ہے، ہم میں سے کسی کی آنکھوں میں کوئی خواب نہ تھے، ہمارا محکوم ہی تو بدل رہا تھا، ہماری حالت پر تو کوئی فرق نہ پڑنا تھا۔۔۔ جب میری شادی فاتح کے ابّا سے ہوئی، وہ بڑے خوش لگ رہے تھے، شاید اُنہیں ایک فُل ٹائم نوکرانی مل رہی تھی اس لئے، جس پر سارا دن حکم چلا کر وہ اپنی مردانہ انا کو سکون پہنچا سکتے تھے، جب وہ کمرے میں آئے اُنہوں نے میری تعریف میں زمین آسمان کی قلابیں ملا دیں۔ مجھے حیرت ہوئی، ان کے لہجے سے لگ رہا تھا اُن کی زندگی کی ساری محرومیاں آج اس شادی کے بعد ہی ختم ہوئی ہیں، میں متحیر تھی، مگر پھر اس سراب نے میری آنکھیں دھندلا دیں، اور میں اُن کے دکھائے ہوئے سبز باغ میں گھومنے نکل گئی، مگر خوشیوں کی عمر بہت چھوٹی ہوتی ہے، اس کا احساس مجھے تب ہوا جب مجھے کمرے کے باہر اپنی ماں اور چاچیوں جیسی زندگی کزارنے کے لئے تن تنہا چھوڑ دیا گیا، پیار محبت کا ہر وعدہ کتنا کھوکھلا تھا مجھے اندازہ ہوگیا، اس دن  میری کتاب میں مردانگی کے معیار کے لئے اور بھی کئی نئے لفظ شامل ہوگئے تھے، پھر خدا نے مجھے تخلیق کے عمل سے گزارہ اور دنیا کی ہر عورت یہ جانتی ہے کہ اس کی زندگی میں اس سے بڑا کوئی مرحلہ نہیں آتا، اس ایک خوشی کے لئے وہ ہر شخص کے دیئے ہوئے زخم بھول جاتی ہے، اور کتنے تعجب کی بات ہے، جو مرد روز ہر ممکن طریقے سے عورت کی انفرادیت اوراسکے انسانی حقوق کو بہت استحقاق کے ساتھ پامال کرتا ہے وہ اس مرد کی اولاد پیدا کرکے خود پر کتنی بار فخر کرتی ہے۔ مَیں اٹھتے بیٹھتے یہ دعا کرتی کہ اللہ مجھے بیٹی دے دے، میں مظلوم پیدا کرلوں گی مگر ظالم نہیں، میرے مردوں نے مجھے مردانگی کا جو معیار سمجھایا تھا وہ اتنا غیر انسانی تھا کہ میں کوئی مرد پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن قدرت نے مجھ سے جو کام لینا تھا، اس کے لئے اللہ نے میری گود میں فاتح ڈال دیا، میں شاید دنیا کی پہلی عورت ہوں گی جو اولادِ نرینہ کی پیدائش پر اتنا روئی ہونگی۔۔ اس دکھ سے نکلنے میں مجھے کئی دن لگے، اور اس دکھ سے نکلتے نکلتے میں نے یہ فیصلہ ضرور کرلیا تھا کہ مجھے اس بیٹے کو اپنے باپ، دادا اور اپنے شوہر جیسا مرد نہیں بناؤں گی، اگر مردانگی کا مطلب عورت کی عزتِ نفس مجروح کر کے، اس کے انسانی حقوق غصب کر کے اُس پر حکمرانی کرنا ہے تو میرا بیٹا مرد نہیں بنے گا۔ میں نے آگ کے گھر میں رہتے ہوئے اپنے بیٹے کے اندر کے انسان کو جھلسنے نہیں دیا، میں نے اُس کو سمجھایا کہ مرد بننے سے بہتر ہے کہ وہ ایک اچھا انسان بن کر رہے، میں نے اُسے محمدﷺ سے لے کر دنیا کے ہر اُس شخص کی عظمت کی مثال دی جو عورت کو اپنے جیسا انسان سمجھتے ہیں میں نے اُسے یہ اعتماد دیا کہ عورت کو اپنے برابر کا درجہ دینے پر تمہاری عزت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، میں نے اُس کو وہ احساس کمتری نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے دنیا کا ہر مرد عورت کو محکوم بنا کر رکھنا چاہتا ہے، اور پھر ایک دن جب اُس کی پھوپھی کی بیٹی نے اُس سے شادی کرنے سے انکار کیا تو اُس کے باپ نے کہا کہ یہ شادی خاندان کی عزت کے لئے بہت ضروری ہے، اس لئے مرد بن کر جائینگے اور زبردستی نکاح کر کے لے آئینگے، تو میرے بیٹے نے مرد بننے سے انکار کردیا، جب اُس کے آفس میں اُسکی ٹیم نے اُسکو اس بات پر اکسایا کہ مرد ہونے کے ناطے وہ ایک مرد کو فیور دے کر پروموٹ کردے، تو اس نے مرد بننے سے انکار کردیا، اس نے زندگی میں ہر موقعے پر مرد بننے سے زیادہ انسان بننے کو ترجیح دی۔ اور آج اُس ہی اچھے انسان نے میری گونگی ریاضت کو اس کہانی کے ذریعے زبان دی، میں اپنے خاندان بھر کی عورتوں میں نالائق ترین عورت ہوں کیونکہ میں چٹکیوں میں دس بارہ مزیدار کھانے نہیں بنا سکتی، میرے آس پاس کی ہر عورت میرے طور طریقوں سے نالاں ہے ، مگر مجھے فخر ہے کہ میں نے معاشرے کو ایک فعال فرد دیا ہے، بس ایک فرد ، ایک انسان ۔۔ جو عورت یا مرد کے لیبل اور اس جنس کی قید سے آزاد ہو کر اچھائی کو فروغ دیتا ہے، سب کی بھلائی کے لئے کوشاں ہے، جو عورت کو اللہ کی مخلوق سمجھتا ہے ، خوفِ خدا کے باعث اس پر ظلم نہیں کرتا اور اُس کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا ہے ۔۔


********                                                 

اُس ایک خط نے عورت، ماں اور تربیت ہر چیز کے بارے میں میرا نظریہ بدل کر رکھ دیا، اور مجھے یہ احساس ہوا کہ تربیت پر انگلیاں اٹھانا آسان ہے، مگر ماؤں کے مسائل کو سمجھنا بہت مشکل ہے، ہم ماؤں کو ایک صحتمند اور اچھی زندگی نہیں دے سکتے مگر اُن سے امید کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کو صلاح الدین ایوبی دیں۔

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...