Thursday, July 5, 2018

اسکول سے پہلے اسکول نہیں - Say No To Pre-School


کہتے ہیں دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب صنعتی انقلاب آیا تو مرد و عورت دونوں گھروں سے باہر نکل آئے اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے دونوں ہر شعبہ ہائے زندگی میں شانہ بشانہ جُت گئے، اس صنعتی انقلاب نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا، انہی دنوں کئی نئی ایجادات ہوئیں جس سے نقل و حمل اور ترسیل کے ذرائع 
بڑھ گئے ۔۔۔ 
 اُس ہی انقلابی دور میں اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ جب ماں اور باپ دونوں گھر کے باہرہوں تو بچوں کو ابتدائی تعلیم و تربیت کا بیڑا کون اُٹھائے ۔۔ اس کے لئے چرچز، یا اُن بزرگ عورتوں نے خدمات پیش کیں جو اُس وقت صنعتی ترقی کے لئے اور کوئی کام نہیں کر سکتی تھیں،
اس طرح دنیا میں پری اسکولنگ کا تعارف ہوا، یعنی اسکول سے پہلے اسکول۔۔ جہاں بچہ روزمرّہ زندگی کے ادب و آداب سیکھتا ہے۔ ترقی کرنے کے بعد اُس قوم نے اس روش کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ وائرس کی طرح سرائیت کرتا رہا ، بالخصوص پاکستان میں اب ہر گلی محلے میں اسکول کھلے نظر آتے ہیں، اور ہر دوسری ماں اُس دن کا انتظار کرتی ہے جب بچہ ڈھائی سال کا ہو اور وہ اُسے کسی اچھے پری اسکول میں داخل کروا کر اپنی جان چھڑا لے، اور بچے کو اسکول کے حوالے کر کے اب وہ بلکل بری الذمہ ہے۔۔ 
دکھ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادیات اتنی کمزور ہیں کہ کئی مائیں جو بچوں کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتیں وہ بھی اپنی نوکریوں کی وجہ سے بچوں کو پری اسکول کے حوالے کردیتی ہیں، وہ بڑے بڑے بین الاقوامی ادارے بھی جہاں مردوں سے زیادہ عورتیں ملازم ہیں وہ بھی  ڈے کئیر جیسی سہولت فراہم نہیں کرتے۔۔ اور پھر کئی عورتیں خود سے زیادہ دوسروں کی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھاتی ہیں، اُن کے لئے ماں کے کردار سے زیادہ اہم بہو اور بیوی کا   کردار ہوتا ہے، اور ایسی غیر انسانی توقعات کی زد میں ماں کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور پری اسکولز کا کاروبار چمک جاتا ہے

تمام ترقی یافتہ ممالک جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں وہاں سات سال کی عمر سے پہلے کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا ، اور سات سال تک پری اسکولنگ کے بجائے ہوم اسکولنگ کی جاتی ہے، یعنی ہر وہ ممکن چیز جو پری پرائمری کلاسس میں سکھائی جاتی ہیں وہ مائیں گھر پر ہی بچوں کو سکھاتی ہیں۔ یا پھر کسی تجربے کار خاتون کی مدد لیتی ہیں، 
دورِ جدید میں ہونے والی کئی تحقیقات یہ بات ثابت کرتی ہیں، کہ چھوٹے بچوں پر بڑے بستوں کا بوجھ، صبح اٹھنے کی سختی اور کام کا دباؤ کوئی بھی مثبت اثرات مرتب نہیں کرتے۔۔ اور تحقیقات تک جانے کی کیا ضرورت ہے، اگر ہم بچوں کی حالت پر خود غور کریں تو اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے اُن کے جسم اور ذہن اس مشقت سے متاثر ہوتے ہیں
 بلاشبہ والدین بچے کے بہتر مستقبل کے لئے اُس کو اچھی سے اچھی جگہ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں، مگر اس کے برعکس اُن کا نقصان کردیتے ہیں، کم عمری میں ہی اتنی تھکن اور ذہنی دباؤ بچے کے مزاج کو چڑچڑا بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے اُسکی خوارک میں کمی آجاتی ہے۔۔ نتیجتاً اُس کی صحت خراب ہوتی ہے اور وہ آئندہ آنے والی تعلیم کے لئے پہلے ہی کمزور ہوجاتا ہے
احادیثِ مبارکہ میں بھی کئی جگہ بچوں پر کم سنی میں کسی بھی قسم کی سختی کرنا منع ہے یہاں تک کہ نماز اور دین کے دوسرے معاملات میں بھی اُن پر کسی قسم کے فرائض کی پابندی نہیں
بچوں کی تربیت کے متعلق اہم احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک سے سات سال کی عمر میں بچے کو سینے سے لگا کر رکھا جائے، کیونکہ یہ سال اُس کو  والدین اور اہلِ خانہ سے زہنی وابستگی پیدا کرنے کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان سالوں میں بچے پر سختی کرنا منع ہے تاکہ بچے ضدی یا سرکش نہ بن جائے اور اُس کے دل میں اہلِ خانہ کے لئے نفرت کے جذبات نہ پیدا ہوں۔۔
 والدین کو اب یہ شعوری کوشش کرنی چاہئے کہ بچے کو جب تک ہو سکے گھر میں ہی بھرپور توجہ دیں اُس کو کھیلنے کودنے اور کھیل سے تھک ہار کر بھر پور خوارک اور نیند لینے دیں۔ جہاں تک ممکن ہو بچے کو گھر پر ہی ابتدائی تعلیم سے متعارف کروائیں۔۔ اس کے لئے صرف وقت اور تحمل کی خاص ضرورت ہے جو والدین خصوصاً ماں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا، باقی فی زمانہ اس مشن کو پورا کرنے کے لئے ہر طرح کے وسائل بازار اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں، مگر چند سالوں تک اُٹھائی گئی یہ تکلیف بچے کو بہت سی تکلیفوں سے بچا کر اُس کے اچھے مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔

اللہ ہمیں اپنوں سے چھوٹوں کی بہترین رہنمائی کرنے کے قابل بنائے اور ہماری نسلوں کو ذہنی جسمانی اور روحانی سکون دے ہم  سب  کو  ہمارے  نیک  مقاصد  میں  کامیاب  کرے  اور  ہمیں  معاشرے  کی  فلاح  کے  لئے  فعال  کردار  ادا  کرنے کی  توفیق  دے۔  آمین

Wednesday, July 4, 2018

Feminist دینِ

اس سال آٹھ مارچ پر نکلنے والی عجیب و غریب ریلی نے ملک بھر کے مردوں میں غم و غصے کی لہر دوڑادی تھی۔۔ اس ریلی میں عورتیں کچھ ایسے انوکھے مطالبات کرتی نظر آئیں جو انتہائی ناقابلِ قبول تھے، ویسے بھی جس معاشرے کی زیادہ تر آبادی عورتوں کو اُن کے بنیادی حقوق بھی نہ دیتی ہو اُن سے اتنے بے باک مطالبوں پر اور امید بھی کیا کی جا سکتی تھی بجز اس کے کہ وہ اسکی شدید خلاف ورزی کرتے اور عورتوں پر فتوات لگا دیتے۔۔ اور یہی ہوا،
مطالبات کچھ یوں تھے

 لوگوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو ان مطالبات کو بے حد آزاد خیال اور معاشرے کے لئے تباہ کن سمجھتا ہے۔۔
اور دوسرا وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ یہ مطالبات خطرناک نہیں بس انہیں سمجھنا مشکل ہے، جیسے خواتین یہ چاہتی ہیں کہ کچن کی ذمہ داری کا لیبل اُن پر سے ہٹا دیا جائے
مگر وہیں چند مذہبی اقدار کی بری طرح توہیں کی گئی
ان مطالبات کی زبردست جوابی کاروائی کی گئی اور شعبہ ہائے زندگی سے مرد نکل کر عورتوں کے مقابل کھڑے ہوگئے، 
یہاں تک کہ ایک تصویر میں مولوی صاحب نے بینر پکڑ رکھا تھا کہ ’’اپنے جنازے خود پڑھاؤ‘‘ 
یہاں مجھے ذاتی طور ہر عورتوں سے یہ اختلاف ہے کہ حقوق مانگنے کے وقت تمام اخلاقی ضابطے توڑ دئے جاتے ہیں مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ پیشہ ورانہ زندگی میں یہی عورتیں اپنا عورت کارڈ استعمال کر کے مختلف آسانیاں طلب کرتی نظر آتی ہین جیسے گھر کی ذمہ داریوں کا بہانہ کر کے دیر سے آنا اور جلدی چلے جانا وغیرہ وغیرہ
دراصل مسئلہ فیمنزم نہیں ہے، اس کی تعریف تو بہت عام ہے ، یعنی ایسے لوگ جو اس بات کے حامی ہیں کہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتی ہیں۔ اور اس سوچ میں کوئی قباحت نہیں، قباحت تو یہ ہے کہ جو لوگ عورتوں کے حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں اُنہوں نے عام سی بات کو اتنے بھونڈے انداز میں پیش کیا ہے کہ اس نے لوگوں میں ایک عجیب سرکشی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔۔ چاہے وہ اس کے حامی ہوں یا مخالف سب ایکسٹریمسٹ ہوگئے ہیں۔۔ جبکہ دین اسلام تو خود فیمینسٹ دین ہے! جی ہاں دین اسلام نے عورتوں کو جو مرتبہ دیا ہے اُسکی نفی کوئی معاشرہ نہیں کر سکتا
 لوگوں کی اس خود ساختہ مسئلے پر بحث دیکھتے ہوئے دل چاہتا تھا کہ میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالوں مگر کچھ وقت نے مہلت نہ دی یا شاید یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے اس معاملے کا ایک اور رُخ دکھانا چاہتا تھا، اور وہ مجھے اپنے حرم لے گیا 
جہاں سعی کرتے ہوئے مجھے اچانک خیال آیا کہ جو دین عورت کو اتنی عزت دیتا ہو کہ اُس کی اپنی اولاد کے لئے کی گئی دوڑ دھوپ کو رہتی دنیا تک اپنی عبادت کا لازمی حصہ بنا دے اُس دین سے تعلق رکھنے والی عورت کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے یہ ذلت اور خواری اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے
جب  میں اُن ستونوں میں آگے پیچھے متعدد مردوں کو بھاگتے ہوئے دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ یہ کس کی تقلید کررہے ہیں؟ یہ کیوں نہیں سوچ رہے کہ عورت کا تعلق تو کھانا بنانے اور گھر صاف رکھنے سے ہے، تو یہ عورت ہونے کی کون سی معراج ہے جس کے لئے دنیا بھر کے مختلف معاشرتوں سے تعلق رکھنے والے مرد اپنی عبادتوں کو مقبول کرنے کے لئے بس بھاگتے جا رہی ہیں۔۔ 
اور یہ بات خود عورتیں کیوں نہیں سوچتیں کہ خدا نے اُنہیں کہاں کہاں معزز بنایا ہے۔۔ 
محمد ﷺ کوخود شادی کی پیشکش کرنے والی اپنے شہر کی ایک بااثر خاتون تھیں، جنہوں نے بعد ازاں مال و دولت اور اثر و رسوخ سے دینِ اسلام کی بھی بھرپور خدمت کی
اس کے علاوہ دینِ اسلام کی پہلی شہید بھی ایک خاتون تھیں، حضرت مریمؑ کا رتبہ بھی کسی سے چھپا نہیں وہ پیغمبر نہ تھیں مگر قرآن نے اُن کا ذکر بلند کیا، اور اُنہیں رہتی دنیا تک پاکیزگی اور عصمت کی مثال بنایا 
اسی طرح کئی جگہ بیوی، بہن، بیٹی اور ماں ہر روپ میں عورت کے عظیم الشان مرتبے کی مثالیں موجود ہیں، مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ اتفاقی طور پر نہیں کیا گیا، بلکہ اس بات کا احساس دلانے کے لئے کیا گیا کہ عورتیں بھی معاشرت اور مذہب میں خاطر خواہ حصہ رکھتی ہیں، 

     اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  ارشاد ربانی ہے کہ:

                وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً(النساء: ۱۹)
                اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔

                 معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم دیاہے۔

شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی
 اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

                لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن(۱۲)

                شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔(۱۳)

                اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔

                 اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔

جہاں دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔  حدیث مبارک ہے

                حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ(۸)
                مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔

                اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے

اسی طرح علم کی فرضیت بھی دونوں کے لئے یکساں ہے، دینِ اسلام عورت کو علم حاصل کرنے کے معاملے میں بھرپور حوصلہ افزا ہے


تو پھر یہ جنگ کس چیز کے لئے ہے اور کس سے ہے، جب اللہ کا دین عورت کو تمام حقوق دے رہا ہے، صرف یہ دین عورت کو اپنا حسن اور وقار وائم رکھنے کے لئے چند متعین کردہ حدود میں رہنے کا حکم دیتا ہے، مگر اُن حدود سے کسی بھی صورت وہ مرد سے کم تر نہیں ہو جاتی۔۔ اُس کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار تو اُس کا اپنا دین ہے۔۔ اسی لئے میں کہتی ہوں کہ دینِ اسلام ایک فیمنسٹ دین ہے، اور فیمنسٹ ہونے میں کوئی برائی نہیں جب تک آپ اللہ کی بنائی ہوئی کوئی حد نہ توڑیں اور صرف معاشرتی اور مذہبی معاملات میں عزت اور برابری کی حامی ہوں

اللہ  ہم  سب  کو  ہمارے  نیک  مقاصد  میں  کامیاب  کرے,دین کو بہتر طور پر سمجھنے،  اور  ہمیں  معاشرے  کی  فلاح  کے  لئے  فعال  کردار  ادا  کرنے کی  توفیق  دے۔  آمین

لنچ باکس

میرے سارے دن کا موڈ خراب کرنے کے لئے یہ ناشتے کا ڈبہّ کافی ہے‘‘، صمد غصے سے ڈبے میں رکھے سیندوچ کو دیکھ رہا تھا جس میں سے ٹماٹر اور کھیرے باہر جھانک رہے تھے۔۔ اتنے میں میسج کی بیپ بجی اور اسکرین پر ثمرہ کا میسج دیکھ کر غصہ مزید بڑھ گیا۔۔
’’تم نے لنچ کرلیا؟‘‘ اُس نے پوچھا تھا۔۔
دل تو کررہا ہے بولوں یہ جو تم نے دیا ہے! یہ لنچ کہلانے کے لائق ہے؟؟ صمد نے خود سے کہا
’’نہیں‘‘، اُس نے مختصراً لکھ بھیجا
’’کیوں؟؟، کھا لینا چاہیئے تمہیں اب تک۔۔ ‘‘ اُس نے پھر میسج کیا
’’ہاں بس تھوڑا کام ختم کر لوں پھر کھاتا ہوں‘‘ جیسا بھی تھا کھانا تو وہی تھا۔
’’اوکےجلدی کھا لینا، ٹیک کئیر‘‘ ثمرہ نے جواب دیا  
صمد نے موبائل کو نخوت سے دیکھا اور ایک طرف رکھ دیا۔۔

**** 


’’پتہ ہے آج آفس میں کتنا مزہ آیا‘‘ ثمرہ دھپ سے بستر پر بیٹھی اور صمد کے قریب ہوتے ہوئے بولی
صمد بدستور موبائل میں دیکھتا رہا۔۔
’’صمد؟‘‘ ثمرہ نے اُس کی بے رُخی محسوس کی ’’کیا ہوا؟
’’کچھ نہیں
’’کیا پرابلم ہے؟؟
ثمرہ آفس کے علاوہ بھی لائف میں بہت کچھ ہے، تم سے کتنی بار کہا ہے کہ گھر پر اور مجھ پر بھی فوکس کرو، کوئی تمہیں کچھ کہتا نہیں ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم کبھی سدھرنے کی کوشش ہی نہ کرو‘‘
سدھرنے کی کوشش؟؟‘‘ آر یو سیرئیس؟؟ ایسا کیا کیِا ہے میں نے، اور کس بات کا دھیان نہیں رکھا میں نے، ثمرہ حیرت سے اُس کی طرف دیکھ رہی تھی
تمہارے سوال میں ہی جواب ہے، کہ تم نے کیا ہی کیا ہے، تم نے کچھ بھی نہیں کہا، تمہیں ایک سینڈوچ تک بنانا نہیں آتا۔۔ تنگ آگیا ہوں میں یہ کھیرا ٹماٹر کھا کر۔۔
’’صمد تم مجھ سے ایسے اس لئے بات کررہے ہو کیونکہ مجھے سینڈوچ بنانا نہیں آتا۔۔
’’ہاں اور اس لئے بھی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ تمہاری اس نوکری سے میں اور میرا گھر سَفَر کرتا ہے، تمہارے اس بے تُکے شوق کی خاطر ۔۔
’’میرے اس بے تکے شوق کی خاطر تم ڈھنگ کا لنچ نہیں کر پاتے؟ ثمرہ نے اُس کی بات کاٹ دی۔۔ 
صمد خاموش ہوگیا مگر او کا غصہ برقرار تھا، اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی بات ثمرہ کو کیسے سمجھائے
’’ میں نے تم سے کبھی نہیں بولا کہ میں ماسٹر شیف ہوں، جس شوق کو تم بے تُکا کہہ رہے ہو وہ میری لائف میں تم سے پہلے آیا تھا، اور ویسے بھی شادی کے لئے میں نے کام کے ٹائمنگ میں اتنی لیوریج لی ہے کہ میرا پروموشن متاثر ہوا ہے۔۔ میں نے اپنے چھہ سال کے کرئیر کو تمہارے لئے ، تمہارا لنچ بنانے کے لئے خراب کردیا ہے، ثمرہ کو شدید غصہ آرہا تھا
مجھے تم سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی، صمد نے غصے سے کہا 
فائن! ثمرہ منہ موڑ کر سو گئی

*****


اگلے دن صمد کی آنکھ کھلی تو ثمرہ بستر پر نہیں تھی، اور ابھی دونوں کے آفس جانے میں بہت وقت تھا، صمد کو تشویش ہوئی پھر اسے رات کی لڑائی یاد آئی اور اُس کا دل دھک سے رہ گیا، کہیں ثمرہ مجھے چھوڑ کر تو نہیں چلی گئی ، ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اُس کے ذہن میں ایک کوندہ لپکا تھا، اور اُس نے خود کو ساٹھ سال کی عمر میں اکیلا تصور کیا۔۔ 
اف !! وہ اُٹھ کر باہر بھاگا
دیکھا تو ثمرہ کچن میں تھی، اُس کا ٹیبلیٹ سامنے کچن کاؤنٹر پر پڑا تھا جس میں سے ترکیب دیکھ کر اُس نے ناشتے کے لئے آلو کے پراٹھے اور لنچ میں کلب سینڈوچ بنائے تھے، مگر اس سب کے لئے اُس کو بہت جلدی اٹھنا پڑا تھا۔۔ 
صمد کو سمجھ نہیں آیا کہ خوش ہو یا شرمندہ۔۔ پھر اُس کے اندر کے شیوونسٹ نے اُسے کہا کہ اُس کی ڈانٹ سے ثمرہ سدھر گئی ہے۔۔
ثمرہ نے اُس سے کوئی بات نہیں کی، اُس نے ناشتہ کیا، کپڑے استری کئے، سب چیزیں جگہ پر واپس رکھیں، اور آفس کے لئے نکل گئی۔۔ 
دو دن تک یہی روٹین رہا، صبح جلدی اُٹھنے کی وجہ سے وہ رات کو تھک کر جلدی سوجاتی تھی، 

اب لنچ اچھا بناؤگی تو منہ بھی بنا کر رکھو گی کیا۔۔؟ صمد نے ایک صبح ثمرہ سے کہا 
تمہیں اچھے لنچ سے مطلب ہے وہ تمہیں مل رہا ہے۔۔ 
ثمرہ تمہیں پتہ ہے ایسا نہیں ہے۔۔
مجھے کچھ نہیں پتہ صمد، مجھے بس وہ پتہ ہے جو تم نے مجھے فیل کروایا ہے، میں یہ سب کرنا چاہتی ہوں ، میں تمہارے لئے تمہارے آرام کے لئے یہ سب کر سکتی ہوں، لیکن میں یہ سب محبت سے کرنا چاہتی ہوں مجبوری سے نہیں، میں جو ہوں جیسی ہوں ویسے رہتے ہوئے بھی یہ سب کر لوں گی، لیکن جس طرح تم نے اُس دن بی ہیو کیا، مجھے بہت انسلٹنگ لگا۔۔ 
وہ اپنی بات کر کے نکل گئی، صمد ایک بار پھر غصے میں تھا۔۔ 

تیسرے دن جب ثمرہ  میکے میں تھی،، امی نے صمد سے پوچھا
’’تم نے ثمرہ کو کچھ بولا ہے؟‘‘ امی چشمے کے پیچھے سے اُس کو گھور رہی تھیں جیسے اُس کا چہرہ پڑھنا چاہتی ہوں
’’نہیں‘‘، صمد نے نظریں چرا لیں
’’جھوٹ مت بولو‘‘ امی نے گھرکا
’’ارے بھئی کیا ہوا‘‘ ابو بھی متوجہ ہوگئے
’’آپ تو اس کو کچھ بولتی نہیں، تو مجھے ہی بولنا پڑے گا‘‘ صمد نے ناراضی سے کہا
’’کیا مطلب؟ کیا بولوں اُسے‘‘ امی نے پوچھا
’’آپ کیسی ساس ہیں؟َ وہ ٹھیک سے کھانا نہیں بناتی اور آپ اُسے کچھ بھی نہیں سمجھاتیں، آپ اُسے کیا دیکھ کر لائی ہیں‘‘ صمد نے ساری بھڑاس نکال دی
’’اوہ! تو تم چاہتے تھے کہ اچھا کھانا پکانے والی بہو لائی جائے،‘‘ 
’’امی بات کو غلط مطلب مت دیں، وہ ان معاملات میں کتنی لاپروا ہے، اس کو گھر مینج کرنا نہیں آتا‘‘ 
’’صمد گھر مینج کرنا اور گھر کے کام کرنا سیکھا جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی بری نیت اور بری فطرت کا ہو تو اچھائی نہیں سیکھ سکتا، ایٹ لیسٹ وہ ایک صاف دل کی لڑکی ہے، اپنی غلطیوں کو سمجھتی ہے، مجھ سے اکثر کئی چیزیں پوچھتی ہے، سیکھنے کی کوشش کرتی ہے، میرے لئے اتنا کافی ہے، میں انسانوں کو اُن کے اسکلز پر جج نہیں کرسکتی مگر افسوس کہ میرا اپنا بیٹا اتنا بے بصیرت ہے‘‘ 
بس شروع عورتوں کی وکالت‘‘ صمد غصے سے اٹھ کر چلا گیا

*****

تھوڑے دن بعد آفس میں اُسے ایک پرانے دوست کی کال ریسیو ہوئی ، اور وہ اُس سے ملنےاُسکے آفس پہنچ گیا
عثمان سے مل کر اور اُس کی فیلڈ کے بارے میں جان کر اُسے بہت مزہ آیا،، باتوں باتوں میں ہی عثمان نے اُسکے سامنے اپنا لنچ باکس کھول لیا۔۔ اور اُس سے ضد کی کہ ساتھ کھا کر جائے
’’نہیں تم کھاؤ، بھابی نے تمہارے لئے دیا ہے۔۔ ‘‘ صمد نے نرمی سے منع کیا
’’ارے نہیں وہ ہمیشہ دو لوگوں کا کھانا دیتی ہے۔۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے عثمان وہ عظیم الشان لنچ باکس کھولا
دم کیا قیمہ، لچھے دار پراٹھے ، اچار ، سلاد ، رائتہ اور شاہی ٹکڑے۔۔ 
یہ لنچ باکس ہے یا دعوت؟؟ صمد نے حیرانی سے بولا
’’ہا ہا ہا ۔۔ یار تمہیں تو پتہ ہے کہ میں کھانے کا کتنا شوقین ہوں، امّی نے بہت مشکل سے ڈھونڈا ہے عظمی کو۔۔ بہت زبردست کھانا پکاتی ہے، تم چکھو‘‘ عثمان نے اُس کو کہا
اور چکھنے کے بعد صمد کے دل کی حالت اور خراب ہوگئی، یار ایسی بھی بیویاں ہوتی ہیں۔۔ اتنا زبردست کھانا
واقعی بھابی تو ماسٹر شیف ہیں۔۔ صمد نے کہا اور پھر اُسے ثمرہ کا جملہ یاد آیا ’’ میں نے تم سے کبھی نہیں بولا کہ میں ماسٹر شیف ہوں، صمد کی آہ نکل گئی
بھابی ہاؤس وائف ہیں؟ صمد نے پوچھا
ہممم کہہ سکتے ہو، شادی سے پہلے وہ ایک فیشن ڈزائننگ فرم میں انٹرن تھی، اب وہ گھر سے آن لائن ڈزائنر شاپ چلاتی ہے، اُس کی ایک فرینڈ اُس کی پارٹنر ہے اور ایک رائڈر ہے۔۔ اچھی ارننگ ہو جاتی ہے اور مجھے جو گھر سے باہر نکلنے کا ایشوتھا وہ بھی ختم، دراصل میں کمفرٹیبل نہیں ہوں بیوی  کو اس طرح باہر کام کرنے دینے کے۔۔ عثمان کہہ رہا تھا
صمد کے افسوس میں اضافہ ہورہا تھا
چلو گُڈ، آل پرفیکٹ‘‘ صمد نے بوجھل دل سے کہا
’’نہیں یار آل پرفیکٹ کب ہوتا ہے،، آج کل بہت ٹینس ہوں‘‘ عثمان نے کہا
ارے کیوں کیا ہوا‘ صمد نے پوچھا
’’یار بس امی خوش نہیں ہیں عظمی سے، کہتی ہیں اس کا یہ کام بند کروا دو، اب میں کس منہ سے کام بند کرواؤں جبکہ وہ ہر چیز اتنی اچھی طرح مینج کرتی ہے۔۔ گھر کو، میری بیٹی کو، اپنے کام کو، تم یقین نہیں کرو گے کہ امی کو ہل کر پانی بھی نہیں پینا پڑتا، اُس نے گھر کے معاملات سے اُنہیں بری الذمہ کردیا ہے ۔۔ مگر پچھلے کچھ دن سے امی بہت عجیب بی ہیو کررہی ہیں۔۔پتہ نہیں کیوں، اُن کا بی پی بھی نارمل نہیں آرہا۔۔ عثمان افسوس سے کہہ رہا تھا
افف! اتنی پرفیکٹ بہو سے بھی اتنی شکایتیں اور ایک میری اماں ہیں۔۔ صمد نے دل میں سوچا۔۔ 
’’خیر تم کسی دن لاؤ نا بھابی کو عظمی سے ملوانے ۔۔ عثمان نے موضوع بدلا۔۔ 
’’ہاں ضرور‘‘ ملاقات تمام ہوئی مگر پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔ صمد دل ہی دل میں عظمی بھابی سے بے حد متاثر ہو چکا تھا، اور اسکے ذہن میں اُن کی ایک شبیہہ بن گئی تھی، ملگجے کپڑوں میں مزیدار لوازمات بناتی ہوئی، بکھرے ہوئے بالوں سے بچی کو سنبھالتے ہوئے، گہرے سیاہ حلقوں والی آنکھوں سے کپڑے ڈیزائن کرتے ہوئے، اُس کی شدید خواہش تھی کہ ثمرہ اُن سے ملے اور اُن سے کچھ گُر سیکھ لے۔۔ اور پھر ایک دن عثمان کی باقاعدہ دعوت موصول ہوئی اور اُس نے فوراً حامی بھر لی۔۔ 
اور وہاں جا کر تو صمد کے لئے سانس لینا اور بھی مشکل ہوگیا۔۔ عظمی اس کی سوچ کے بر عکس انتہائی خوبصورت حلیے میں تھی، اس کا چہرہ بے حد فریش تھا، لگ رہا تھا کہ وہ خود کو بھرپور توجہ دیتی ہے، صمد کو ثمرہ پر مزید غصہ آیا، 
ایک میری بیوی ہے، ناشتہ بنانے کے لئے جلدی اٹھنا پڑے تو سارا دن منہ پر بارا بجتے رہتے ہیں، اُس نے سوچا
اُس کے دل میں عظمی کے بت کے چاروں طرف پکی اینٹوں والا مندر بن گیا۔۔
دعوت پر تکلف تھی، کھانے سے پہلے سوُپ اور چکن لالی پاپس، کھانے میں جس قسم کی بریانی اور کڑھائی سَرو کی گئی تھی اُس فلیور کی یہ دونوں ڈشز صمد نے کہیں اور نہیں  کھائیں تھیں، مگر جو مچھلی اُنہوں نے بنائی تھی اُس کا ذائقہ بہترین ریستورنٹ جیسا تھا۔۔ میٹھے میں رس ملائی اور گلاب جامن دیکھ کر صمد کا منہ کھلا رہ گیا کیونکہ وہ بھی عظمی کے ہاتھ کی بنی تھیں۔۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ثمرہ پر اس دعوت کا بہت اچھا پریشر بن گیا ہوگا، کیونکہ وہ تو کسی بھی دعوت کے لئے یہ سب اکیلے نہیں بنا پاتی، اور اگر بنا لیتی تو دعوت ختم ہونے تک خود بے ہوش ہو جاتی۔۔ 
پھر اُس کو اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا، کاش کہ ثمرہ بھی عظمی بھابی جیسی ہوتی، اُس نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی تھی۔۔
واپسی پر ثمرہ نے اُس کو بتایا کہ
 ’’میں نے بھابی کا اسٹوڈیو دیکھا ، اوپر والی منزل پر ہے ‘‘
’’اچھا‘‘
’’بہت اچھے ڈیزائن ہیں صمد‘‘ 
’’ہمم اُنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اچھے ہی ڈیزائن ہوں گے‘‘ صمد نے کہا
’’یار لیکن تمہیں پتہ ہے صمد، کچھ بہت عجیب ہے اُس پورے سیِن میں‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’پتہ نہیں! 
’’کیا پتہ نہیں‘‘
’’مجھے بس کچھ ٹھیک نہیں لگا، آنٹی کا رویہ بہت عجیب تھا اپنی بہو کے ساتھ، اور بھابی کے ری ایکشن بھی۔۔ بھابی مجھے تھوڑی عجیب لگیں جیسے وہ ویسی نہیں ہیں جیسی بن رہی ہیں خیر‘‘
’’جل رہی ہو؟‘‘ صمد کو بھڑاس نکالنے کا موقع مل گیا
’’ کیا مطلب؟ کس چیز سے؟‘‘ ثمرہ نے نا سمجھی سے اُس کی طرف دیکھا
’’اُن کی پرفیکشن سے‘‘ صمد نے استہزئیہ لہجے میں بولا
اور ثمرہ اُسکا طنز سمجھ گئی، اُس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے مگر وہ ضبط کر کے بیٹھ گئی، بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔ 


*****
پھرچند دن بعد عثمان نے صمد کو بتایا کہ وہ کمپنی کے کام کے سلسلے میں ترکی جا رہا ہے، اور اُس کو تین ہفتے لگ جائیں گے۔۔
اُن تین ہفتوں میں وہ وقتاً فوقتاً فیس بک پر اُس کی ترکی میں مختلف مقامات پر تصاویر دیکھتا رہا، مگر تین ہفتوں بعد وہ اُس سے رابطہ کرنا یاد نہ رکھ  سکا۔۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد اُس کو اچانک احساس ہوا کہ عثمان نے بھی اُس سے رابطہ نہیں کیا
صمد نے کال کی مگر فون بدستور بند تھا، فیس بک واٹس ایپ وہ کہیں بھی دستیاب نہ تھا، اُس نے ہفتہ اتوار بڑی مشکل سے گزارے، ثمرہ سے بھی ذکر کیا، اُس کو بھ یتشویش ہوئی کہ عثمان ترکی سے خیر و عافیت کے ساتھ پاکستان آگیا ہو، اور پھر پیر کے روز صبح اپنے آفس جانے سے پہلے وہ عثمان کے آفس پہنچ گیا۔۔
وہاں جا کر اُسے پتہ چلا کہ عثمان جب سے ترکی سے واپس آیا ہے اُس نے جوائننگ نہیں دی اور فی الوقت وہ اسپتال میں داخل ہے۔۔صمد اُسکے دفتر سے نکل کر سیدھا اسپتال پہنچا، وارڈ کے باہر ہی عثمان کی امی اپنے بھانجے کے ساتھ کھڑی تھیں، اور وہ اُنہیں سمجاھ رہا تھا
’’خالہ ایسے نہیں کریں، آپ گھر چلیں، روز روز ایسے بیٹھنے کا کیا فائدہ،
 انکی آنکھیں خشک تھیں مگر چہرے پر بے حد کرب تھا
’’اسلام علیکم‘‘ صمد نے قریب جا کر کہا۔
’’صمد بیٹا، تمہیں بھی معلوم ہوگیا‘‘ آنٹی نے کہا
’’ آنٹی میں کب سے رابطے کی کوشش کرہا تھا، مجھے تو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ کیا ہوا، آج پریشان ہو کر آفس گیا تو اُن لوگوں نے بتایا کہ عثمان یہاں ہے‘‘ میں نے بتایا
’’آفس والے؟؟ آفس والوں کو کیا پتہ ہے؟؟ ‘‘ آنٹی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں، صمد کو بے حد عجیب لگا
’’ اُنہیں تو بس یہ پتہ ہے کہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے عثمان یہاں داخل ہے، کیوں آنٹی کیا ہوا ہے ؟؟ ایسا کیا ہے جو کسی کو نہیں پتہ‘‘ صمد نے بھی ڈر کر پوچھا۔۔
آنٹی کی خشک آنکھوں میں سیلاب آگیا، صمد کا خوف مزید بڑھ گیا تھا۔، کہیں اسکا خوب رو جوان جہان دوست کسی جان لیوا بیماری میں تو نہیں پھنس گیا تھا۔ 
آنٹی نے اُسے کچھ نہیں بتایا، عثمان دواؤں کے اثر کی وجہ سے مستقل نیند میں تھا۔۔ 
صمد کئی دیر وہاں کھڑا رہا۔۔ 
’’آنٹی نماز پڑھنے اُٹھیں تو اس نے عثمان کے کزن کو جا پکڑا، اور وہ لڑکا اپنی کم عقلی کے باعث سب بول گیا
دراصل خالہ کہ جو بہو ہیں نا عظمی بھابی، عثمان بھائی کی وائف۔۔ وہ اپنی شاپ کے رائڈر کے ساتھ بھاگ گئیں، شادی سے پہلے سے افئیر تھا اُن کا۔۔ آنٹی نے ایک دو بار اُنہیں اوپر والی منزل میں رائڈر سے بات چیت کرتے بھی دیکھا تھا، اسی لئے وہ عثمان بھی سے کہتی تھیں کہ ان کا کام بند کروا دو۔۔ بھابی اس کام سے خوب پیسے جمع کررہی تھیں۔۔ اور جیسے ہی عثمان بھائی اتنے ٹائم کے لئے گئے اُنہوں نے سامان سمیٹنا شروع کردیا۔۔ وہ اپنی بیٹی کو بھی چھوڑ گئیں‘اسی لئے عثمان بھائی کو نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے، ڈاکٹر نے اُنہیں ٹریکولائزر دیا ہوا ہے، کیونکہ ہوش میں آکر وہ پھر سے اعصاب کھونے لگتے ہیں‘‘
سولہ سترہ سال کے لڑکے کے منہ سے دوست کی بیوی کے بارے میں سن کر صمد کے سر پر بم پھوٹنے لگے
صمد کے لئے وہاں کھڑے رہنا مشکل ہوگیا، وہ یہ سوچ سکتا تھا کہ اُس کا دوست کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہوگیا لیکن یہ بات اُس کے لئے بلکل نا قابلِ برداشت تھی کہ وہ جس کو گھر کی عزت بنا کر رکھتا ہو وہی عورت اُس کی عزت کا جنازہ نکال دے، 
’’میں دوست ہو کر یہ نہیں سہہ پا رہا تو عثمان اور آنٹی کی کیا حالت ہوگی‘‘ اُس نے سوچا
اچانک امی کی آواز اُس کے کانوں میں گونجنے لگی
’’صمد گھر مینج کرنا اور گھر کے کام کرنا سیکھا جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی بری نیت اور بری فطرت کا ہو تو اچھائی نہیں سیکھ سکتا، ایٹ لیسٹ وہ ایک صاف دل کی لڑکی ہے، اپنی غلطیوں کو سمجھتی ہے، مجھ سے اکثر کئی چیزیں پوچھتی ہے، سیکھنے کی کوشش کرتی ہے، میرے لئے اتنا کافی ہے، میں انسانوں کو اُن کے اسکلز پر جج نہیں کرسکتی مگر افسوس کہ میرا اپنا بیٹا اتنا بے بصیرت ہے‘‘ 
اُس کے دل میں شدید چبھن کا احساس ہوا 
اُسے یاد آیا کہ اُس نے کس قدر دل سے اللہ سے کہا تھا کہ ثمرہ بھی عظمی بھابی جیسی ہوجائے
’’اوہ مائے گاڈ، اللہ پلیز۔۔۔ میری بیوی کو ایسا ہی رکھنا پلیز۔۔ میں تو یہ سوچ کر ہی مر جاؤں گا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کرے، اف کبھی نہیں‘‘ 
اُس ہی وقت فون بجنے لگا، اُس نے دیکھا تو ثمرہ کی کال تھی۔۔
’’ہیلو‘‘
’’ہاں صمد، کھانا کھا لیا؟‘‘
’’نہیں‘‘ صمد کے گلے میں آنسو پھنس گئے
’’کیوں نہیں کھایا، کتنی بار کہا ہے کہ دوپہر میں وقت پر کھا لیا کرو‘‘ ثمرہ روٹین کی طرح اُس کو کھانا نہ کھانے پر ڈانٹ رہی تھی، اور اُس کو آج احساس ہوا تھا کہ ثمرہ اچھا لنچ نہیں بناسکتی تھی مگر وہ اپنے طور پر اُس کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرتی تھی، وہ روز آفس میں لنچ کرنے سے پہلے اُس سے ضرور پوچھتی تھی کہ صمد نے لنچ کیا یا نہیں۔۔ 
صمد کا ضبط ٹوٹ گیا، وہ رونے لگا
’’صمد؟؟ کیا ہوا تمہیں؟ تم ٹھیک ہو؟‘‘ ثمرہ نے بہت بے چین ہو کر پوچھا تھا
’’ آئی ایم سوری ثمرہ‘‘ صمد نے بمشکل آواز نکالی
’’کس بات کا‘‘ ثمرہ نے حیرت سے پوچھا
’’پلیز مجھے معاف کردینا میں بہت سیلفش ہوں‘‘ صمد نے بچوں کی طرح روتے ہوئے کہا
’’صمد تم نے دوسری شادی تو نہیں کر لی نا؟‘‘ ثمرہ نے بے یقینی سے پوچھا
’’ایڈیٹ‘‘ صمد نے غصے سے کہا 
’’کیا ہوا؟‘‘ ثمرہ نے پوچھا
’’میں دوسری کہاں سے کروں گا‘‘ صمد نے کہا
’’تو پھر یہ کیا کررہے ہو؟ رو کیوں رہے ہو‘‘ ثمرہ نے پوچھا
’’ کچھ نہیں، تم آفس سے کب نکلو گی‘‘ صمد نے آنسو پونچھ کر اپنی سانس بحال کی
’’ابھی تو دو گھنٹے ہیں‘‘ ثمرہ نے بتایا
’’ٹھیک ہے میں آؤں گا تمہیں لینے‘‘ صمد نے کہا
’’خیریت‘‘ ؟
’’ہاں، نئی بیوی کے لئے ولیمے کا جوڑا تمہاری پسند سے لینا ہے، صمد نے کہا 
’’شٹ اپ، ٹائم سے آجانا‘‘ ثمرہ نے ہنستے ہوئے فون بند کردیا۔۔ 
 ثمرہ کی ہنسی سن کرصمد نے ایک نظر آسمان کی طرف دیکھ کر دل میں کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکر الحمداللہ   

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...