Sunday, June 10, 2018

عالمی یومِ بحر ۲۰۱۸


عالمی یومِ بحر ۲۰۱۸ ؁


پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی کی روک تھام
اور
سمندر کو صحت مندبنانے کی تجاویزات کی حوصلہ افزائی




خالقِ کائنات نے بھی دنیا کو کس قدر بیش قیمت نعمتوں سے مالا مال کررکھا ہے، حیرت انگیز طور پر ان نعمتوں کا صحیح توازن ہی اس کرّہ ارض کی بقا کا واحد راستہ ہے مگر بنی نوع انسان نے اپنی تمام تر صلاحیات کا استعمال کر کے اس توازن کو حتی الامکان بگاڑے رکھا ہے، بلاشبہ قدرتی وسائل کے معاملے میںیہ لاپرواہ رویہ ایک گھاٹے کاسودا ثابت ہوا ہے اورفی زمانہ ان نعمتوں کا بیان کسی خسارے کی روداد سا بن گیا ہے۔۔ اور میں بھی ایسی ہی ایک روداد ہوں۔
میَں بحرِ ہند کے وسیع و عریض دامن کا ایک حصہ ہوں، جو شمال مغرب کی سمت سے جنم لے کر بھارت، عمان، پاکستان اور یمن کے درمیان بہہ رہا ہے، میَں خلیجِ عمان کوپانی کی پتلی سی گزرگاہ ’’ہرمز‘‘ کی مدد سے خلیجِ فارس سے جوڑنے کا ذریعہ ہوں، یہی نہیں بلکہ جنوب مغربی سمت سے میں خلیجِ عدن کو ریڈ سی سے جا ملاتا ہوں۔۔ جی ہاں۔۔ میں بحیرۂ عرب ہوں!

میری اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ، خود قرآن مجھے اللہ کی نعمتوں میں شمار کر کے سورۃ النحل کی آیت ۱۴ میرا ذکر اس طرح کرتا ہے کہ
’’اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس لیے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو تاکہ اس کا شکر کرو‘‘ ۔
اس آیت میں اللہ تعالی سمندر کو ایک فائدہ مند وسیلے کے طور پر پیش کرتا ہے جس سے انسان متعدد فائدے حاصل کر سکتا ہے مگر افسوس کہ انسان نے ان قدرتی وسائل کی قدر نہیں جانی، وہ ان سے فائدے ضرور حاصل کرتا ہے مگربدلے میں ان کا خیال نہیں رکھتا ، اسی لیے مجھ جیسے کئی وسائل بدحالی کاشکار ہیں، اور فائدہ پہنچانے کے بجائے خطرات کا پیش خیمہ بن گئے ہیں۔اور آج میں بات کروں گا ایشیائی ممالک بلخصوص پاکستان میں اپنی موجودگی اور اپنے حالات کی۔ 
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیںیہ بلاشبہ خطے کے اعتبار سے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے، پھر چاہے اس حیثیت میں اضافہ کرنے والی شمال میں موجود بلند و بانگ برف پوش قراقرم کی پہاڑیاں ہوں یا پھرایشیا کا تیسرا بڑا صحرا ئے تھر، وہیں اس کی زرخیز زمین اور پھر میری موجودگی نے اسے متعدد خوبیوں کا مجموعہ بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ ہمیشہ ہی ایک ممتاز حیثیت کا حامل رہا ہے۔
پاکستان میں میری شناخت اُس ۸۰۰ کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی سے ہوتی ہے جوسندھ سے بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس ساحلی پٹی کوصوبۂ سندھ میں کراچی بندرگاہ اورصوبۂ بلوچستان میں گوادر بندرگاہ کی بدولت ملک کی صنعتی ترقی میں خاطرخواہ اضافہ کرنے کاشرف حاصل ہے۔ان بندرگاہوں کی وجہ سے یہ صوبے ملک کے نمایاں تجارتی مراکز ہیں۔میں متعدد مچھلیوں کے ساتھ ساتھ کئی قسم کی وہیل مچھلیوں، کچھوؤں، ڈولفن، سیپیوں والے متعدد جانور، اور کورل ریفز کا بھی گھر ہوں۔ میرے ساحل سے آنے والی ٹھنڈی ہواؤں نے شہر کے موسموں کو بھی باقی شہروں سے منفرد بنائے رکھا ہے، مون سون کے مہینوں میں سمندری ہوائیں بارشوں کا لطف دوبالا کئے دیتی ہیں۔جہاں ایک طرف گرمیوں کے موسم میں چلنے والی سمندری ہوائیں کسی عطیہ خداوند سے کم نہیں،وہیں میرا مزج بگڑنے پر کئی بار شہر کو سمندری طوفانوں جیسے خدشات کا بھی سامنا رہا ہے۔متعدد اہم باتوں کے علاوہ اسی ساحل سے میری بدترین یادبھی وابستہ ہے جب ۲۰۰۳ ؁ میں، مَیں ایک تکلیف دہ سانحے سے دوچار ہوا جس میں سمندری پانی اور حیات کئی عرصے کے لئے سیاہی میں ڈوب گئے ۔
کئی سو سال پہلے جب بھارت اور پاکستان برّصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے تب بھی میری ساحلی پٹی نے صوبۂ سندھ کے شہر کراچی کو ایک امتیازی حیثیت دے رکھی تھی،گو اُس وقت کراچی ،کراچی نہیں بلکہ ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ، کولاچی تھا اور اسکی آبادی صرف ایک لاکھ ماہی گیروں پرہی مشتمل تھی۔ چونکہ بحیرۂ عرب سمندری حیات کے معاملے میں زرخیز مانا جاتا ہے اس لئے یہ پہلے بھی ماہی گیروں کے ذریعۂ معاش کا اہم مقام سمجھا جاتا تھا اور اب بھی ہے۔میرے وسییع و عؑ ریض د امن میں کولاچی کے ماہی گیروں کے لئے پاپلیٹ، پلّہ، اور سُرمئی مچھلی جیسی لذیذ خوراک کے علاوہ کئی قسم کے جھینگے اورانواع واقسام کے سمندری جانور ہیں جوصرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی لوگوں کی خوراک کے طور پر بے حد مرغوب سمجھے جاتے ہیں، اسی زرخیز سمندری حیات کی بدولت ماہی گیری کا یہ عام سا پیشہ صنعتی سطح تک ترقی کرتا گیا۔
وقت گزرتا گیا اور برٹش راج میں اس چھوٹے سے شہر کی اہمیت مزید بڑھ گئی اب یہ صرف بندرگاہ نہیں بلکہ صنعت و تجارت کے مرکز میں تبدیل ہوتا جا رہا تھااور میرا ساحل ملک میں درآمدات وبرآمدات کا بہترین ذریعہ بنا۔ ۱۸۹۹ ؁ تک کراچی بندرگاہ مشرق میں گندم کی برآمدات کرنے والی سب سے بڑ ی بندرگاہ بن چکی تھی۔
ترقی کے راستے پر ایک بار چل نکلنے کا بعد یہ شہر پھر کہاں رُکا،چند سو ماہی گیروں کی آبادی پر مشتمل یہ شہر اب ہر رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اور کئی مختلف زبانیں بولنے والے تقریباً۲ کروڑ سے زائد افراد کا گھر بن چکا ہے،جہاں ماہی گیری کی صنعت میں اب لگ بھگ ۸۰ ہزار کے قریب ماہی گیر شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کپڑا،چمڑا، ربڑ،پلاسٹک،ادویات، اور اشیأخوردونوش کی صنعتیں اس شہر کی شناخت کا حصہ ہیں،مگر دن دگنی رات چوگنی ترقی کے اس سفرکو دیکھنے میں سب سے زیاد ہ ظلم بھی مَیں نے ہی سہا ہے! 
شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ان صنعتوں نے سمندر کے سکون کو برباد کرکے رکھ دیا۔ سمندری پانی کی تمام خصوصیات کو بدل کر اُسے ایک کثیف چیز میں تبدیل کردیا اور اس پانی میں سانس لینے والی زندگی کے لئے جینا دو بھر کردیا۔سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں جو شہریوں کے لئے تازگی اور فرحت کا احساس لاتی تھیں، اب بدبودار تھپیڑوں کی صورت انسانوں کو سمندر سے دور بھگا دیتی ہیں۔ 
یہ عظیم الشان صنعتیں جہاں شہر کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، وہیں یہ مجموعی طور پر ایک بڑی مقدار میں زہریلے مادّوں والا فضلہ پیدا کرنے کی بھی ذمہ دار ہیں ،ایسے مادے ہوا اور زمین کے ساتھ ساتھ پانی کو بھی آلودہ کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ صنعتی فضلہ کسی بھی قسم کے حفاظتی عمل سے گزارے بغیر سمندر کے پانی میں شامل کردیا جاتا ہے، جس سے سمندری پانی آلودہ اور سمندری حیات بے حد متاثر ہوتی ہے۔

کراچی شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود شہر میں سیوریج اور سالڈ ویسٹ کے انتظامات بدستور عدم توجہی کا شکار ہیں۔شہر میں ایسی سرکاری کچرا کنڈیاں کم ہی ہیں جہاں پر کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگایا جا سکے ، اس لئے رہائشی علاقوں کے کچرے کوبھی جلا کر یا بغیر جلائے سمندر ہی کی نذر کردیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کی احتسابی کمیٹی کے مطابق روزانہ ۴۷۲ملین گیلن سیوریج میری نذر کردیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ کورنگی انڈسٹریل ایریا، نہرِ خیام، کینجھر جھیل، اور ملیر ندی کے راستے مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔
سندھ اینوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ، نعیم مغل نے بتایا کہ ’’ کراچی میں کُل دس ہزار مختلف صنعتی مراکز ہیں جو مجموعی طور پر ہر روز ۸۰ ملین گیلن فضلہ پیدا کرتے ہیں، اس فضلے میں متعدد زہریلے مادے اور کیمیکل موجود ہوتے ہیں اور یہ سب براہِ راست سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ شہر کے رہائشی علاقوں میں سے ہر روز ۰۰۰،۱۲ ٹن کچرا اکھٹا کیا جاتا ہے لیکن کوئی لینڈفل نہ ہونے کی وجہ سے اُسے بھی سمندر بُرد کردیا جاتا ہے۔ ان رہائشی علاقوں سے آنے والے کچرے کی اکثریت پلاسٹک پر مشتمل ہے جو سمندری حیات کا بدترین دشمن ہے‘‘
پلاسٹک کیا ہے؟ اور یہ مجھ میں پناہ لینے والی حیات کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟ یہ حقائق کوئی سمندر سے ہی پوچھے ۔۔ شہریوں کے لئے یہ پلاسٹک روزمرہ استعمال کی جانے والی ایک عام چیز ہے۔مختلف مہنگی دھاتوں سے احتراز کے پیش نظر برتنوں سے لے کر آلات تک اب ہر چیز پلاسٹک میں دستیاب ہے۔ اپنی دستیابی اور پائیداری کی بدولت یہ غیر محسوس طریقے سے زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ استعمال کے وقت انتہائی آسان لگنے والی یہ پلاسٹک بعد از استعمال جب کوڑے کرکٹ کا حصہ بن جاتی ہے تو ماحول پر سب سے زیادہ مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ حیاتیاتی فضلے یعنی organic wasteمثلاً پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے اور دیگر باقیات کی طرح زمین یا پانی میں شامل ہو کر اپنی صورت بدل کر ماحول دوست صورت اختیار نہیں کرتی بلکہ کئی سال تک ماحول میں موجود رہ کر اسے نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنتی رہتی ہے۔۔

روزمرہ کچرے میں کم ازکم بھی۱۰ فیصد پلاسٹک پائی جاتی ہے، یہ پلاسٹک اپنی بناوٹ میں موجود کیمیائی مادوں کی وجہ سے تنزلی یعنیdegradation کا شکار نہیں ہوتی بلکہ سالہا سال ماحول میں موجود رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایک عام پلاسٹک کی بوتل ۴۰۰ سال جبکہ مچھلی پکڑنے کے لئے استعمال کئے جانے والا جال ۶۰۰ سال تک سمندر کے پانی میں اپنی صورت برقراررکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بحرِ اوقیانوس میں پچھلے چند سالوں میں کچرے کے ڈھیر سے بنے جزیرے نمودار ہوچکے ہیں۔یہ وہی کچرا ہے جو بنی نوع انسان وقتاً فوقتاً میری نذر کرتی رہتی ہے چاہے وہ صنعتوں سے آئے، رہائشی سے علاقوں سے یا سیرو تفریح کے لئے آنے والے لوگ تحفتاًمیری طرف اچھال جائیں یہ سب جمع ہو کرایسی ہی صورت اختیار کرتا ہے۔ایسے ہی چند حقائق کی بنیاد پر دنیا کے کئی محققین کی رائے ہے کہ ۲۰۵۰ ؁ تک سمندر میں مچھلیاں کم اور پلاسٹک کے زیادہ پائے جانے کا امکان ہے۔ 
سمندری پانی میں پلاسٹک اپنی موجودگی سے ’’بائی سیفنول‘‘ جیسے ماحول دشمن کیمیائی مادے کا اضافہ کرکے اسے کثیف بناتی ہے جسکی وجہ سے سمندری حیات بدستور تباہ حالی کا شکار ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ساحلی علاقے سے ۱۲۹ کلو میٹر تک اب مچھلیوں کا کوئی نام و نشان نہیں، اور ماہی گیر سمندر میں کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے مچھلیوں اور جھینگوں کو تلاش کرتے ہیں۔خود میرے ساحل کے ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پہلے میری ساحلی پٹی سے ہی اُنہیں خاطر خواہ مقدار میں مچھلیاں مل جاتی تھیں مگر اب اُنہیں سمندر میں چھ سے سات گھنٹے کا سفر کر کے تسلی بخش مقدار میں مچھلی ملتی ہے۔
مقدار کے ساتھ ساتھ سمندری خوار ک کا معیار بھی پستی کی طرف گامزن ہے،مچھلیاں نہ صرف اپنی ساخت میں کمزور دکھائی دینے لگی ہیں بلکہ ان سے ملنے والی غذائیت بھی متواتر کمی کا شکار ہے۔ پلاسٹک سے پھیلنے والی کثافت مچھلیوں کے جسم کا مستقل حصہ بنتی جا رہی ہے اور ایسی مچھلیوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے سے انسان کینسر اور کئی دوسرے موذی امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات سے دوچار ہے ۔مچھلیوں کے علاوہ دوسرے سمندری جانور بھی اس آلودگی کے سبب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور اُن کی نسلیں خاتمے کی طرف رواں دواں ہیں، متعدد قسم کے کچھوے پلاسٹک کی تھیلیوں کو جیلی فش سمجھ کر نگلنے کی کوشش کرنے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، سمندری جانوروں کی بقا کے لئے انتہائی اہم کورل ریفز اب پتھر بن چکے ہیں، اور پچھلے کئی سالوں میں ڈولفنز اور وہیل مچھلیوں نے میرے ساحل کے پاس آنا چھوڑ دیا ہے، یہ ساری علامات مجھے اس بات سے خبرادر کرتی ہیں کہ ان جانوروں کی نسلوں کی تباہی سے قدرتی ماحولیاتی نظام بہت جلد اپنا توازن کھو دے گا، اور اگر ایسا ہوا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان انسانوں کو ہی ہوگا۔جس طرح اب سمندر کے کثیف پانی سے مسلسل قریب رہنے والے ماہی گیر بھی اب کئی قسم کی طبی شکایات درج کرواتے نظر آتے ہیں۔ ماہی گیروں میں اس کثافت سے جلد، تنفس، اور معدے کی کئی بیماریوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی فضلے کی بدولت مجھ سے معاش تلاش کرنے والے ماہی گیر اب کرومیم ، کیڈمیم اور لیڈ جیسی دھات کے زہریلے اثرات کا شکار ہورہے ہیں۔ ایسے اثرات کا انکشاف انسانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم 



ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کسی سے چھپے نہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے مگر انسانی افعال اس سے نمٹنے کو مشکل تر بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ ۲۰۱۶ ؁ میں جرمنی کے ’’تھنک ٹینک‘‘ جرمن واچ کی شائع کردہ ایک فہرست میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی نشاندہی کی گئی ، اس فہرست میں پاکستان پہلے پانچویں نمبر پر ہے۔ 
عالمی تپش یعنی global warming کی وجہ سے ساری دنیا ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہے، انسان اپنے ماحول سے لاپرواہی برتتے ہوئے ایک ماحول دشمن روّیہ اختیار کئے ہوئے ہیں، جس میں اُسے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پائیدارئ وسائل کا کوئی خیال نہیں، پھر چاہے وہ زمینی وسائل ہوں یا آبی۔۔ انسان تو جس ہوا میں سانس لیتا ہے اُسکو بھی آلودہ کر چھوڑا ہے، اور خود کو کثافت کے اس دلدل میں پھنسا کر وہ ترقی کی کون سی منازل طے کررہا ہے یہ وہ خود بھی نہیں جانتا،وہ بس ایک دوڑکاحصہ بن گیا ہے، جس کا اختتام شاید اس سیارے کی تباہی پر ہوگا۔ 
عالمی تپش کے پیشِ نظردنیا بھر میں موسم تیزی سے بدل رہا ہے، گرمیاں ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ رہی ہیں،اوزون لئیرکی خستہ حالی کے باعث سورج اپنی تمام تر صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے برفانی تودوں کو تیزی سے پگھلا رہا ہے ،ان برفانی تودوں کا پانی دنیا بھر کے سمندروں سے جا ملتا ہے۔جس کی وجہ سے پچھلی دہائی میں سمندری سطح میں ۱۰ سینٹی میٹر تک اضافہ ہوا ہے، سمندری سطح کا یہ اضافہ سمندری طوفانوں کی شرح میں زیادتی کا پیش خیمہ ہے، یوں تو بحیرۂ عرب میں ان طوفانوں کی شرح نسبتاًکم ہے اور ان کے ممکنہ رُخ بھارت کے شہر گجرات، پاکستان میں بدین/تھرپارکر، کراچی/ٹھٹھہ، گوادر یا عمان کی ساحلی پٹی کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن ان تبدیلیوں کے باعث اب شہرِ کراچی میں موجود میری ساحلی پٹی پران طوفانوں کا خدشہ قدرے بڑھ گیا ہے۔دو کروڑ سے زائد کی آبادی والے شہرکے لئے یہ خطرہ کتنابڑا ہے اس کا اندازہ کرنا بہت آسان ہے مگر اس کے باوجود اسکی روک تھام کے لئے کئے جانے والے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔



المیہ یہ ہے کہ مجھے قدرتی طور پر نتھار دینے والے تمر کے درختوں کو بھی ترقی کی نذر کر کے میرے لئے اپنا بچاؤ مزید مشکل کردیا۔ تمر کے یہ درخت نہ صرف مختلف قسم کی مچھلیوں،کیکڑوں اور جھینگوں کے نورسیدہ انڈوں کو نشونما کے لئے جگہ دیتے ہیں، بلکہ قدرتی طور پر طوفان کے مقابلے میں بھی شہریوں کے محافظ ہیں،تمر کے یہ درخت طوفان کے آنے پر پانی کے تیز بہاؤ کو قابو کرنے میں مدد دیتے ہیں جس کے نتیجے میں طوفان سے ہونے والے نقصانات کا اندیشہ تقریباً ختم ہوجاتا ہے۔ سمندری پانی کی یہ گزرگاہیں پانی کو صاف کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں مگر فی زمانہ مجھے محفوظ رکھنے والے یہ درخت بھی محفوظ نہیں۔

جہازرانی اور بندرگاہوں کی وفاقی وزارت کے سیکریٹری خالد پروز نے ایک اندازے کے مطابق بتایاکہ’ کراچی بندرگاہ کے علاقے سے تقریباً ۲۷۵ ملین گیلن سیوریج کا فضلہ سمندر برد کیا جاتا ہے جبکہ ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی سے سمندر میں بہائے جانے والے سیوریج فضلے کی مقدار ۱۳۶ ملین گیلن ہے۔ایسی صورتِ حال میں کراچی بندرگاہ پر موجود تمر کے یہ قدرتی جنگلات بلاشبہ ایک اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں مگر بندرگاہ پر ہونے والی تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان جنگلات کی نگہداشت ایک مشکل امر ہے ۔



جہازرانی بندرگاہوں پر ہونے والی تجارتی سرگرمیوں کا لازمی حصہ ہے مگر اس سے بھی سمندر کو کئی قسم کی آلودگی کا سامنا ہے۔ایسی صورتحال کے باوجود تجارتی سرگرمیوں کو روکنا یقیناًممکن نہیں مگر اُس کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے اقدامات کرنا لازم ہے۔ جس میں تمر کے درختوں کی شجرکاری اور نگہداشت سرِفہرست ہے۔ تاکہ میری قدرتی صفائی کے عمل کو یقینی بنایا جاسکے اورماحولیاتی تبدیلی کے باعث تجارتی عوامل میں بھی کبھی رکاوٹ نہ آئے۔ 
انسانیت کو بلاشبہ اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے مگر اُسے اشرف باقی تمام مخلوق اور قدرتی وسائل پر غالب آنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ اُنہیں اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہوئے آئندہ نسلوں کے استفادے کو بھی یقینی بنانا ہے،وہ اس سیارے کا مالک نہیں ہے بلکہ اس پورے قدرتی نظام کو ان مختلف مخلوق اور وسائل کے ساتھ بانٹ رہا ہے۔اُسے ان وسائل سے کام لیتے ہوئے انہیں تباہ و برباد نہیں کرنا بلکہ انکی قدرتی صورت کو محفوظ رکھنا ہے، تاکہ نسل در نسل نوعِ انسانی ان سے فائدہ لیتی رہے۔
مختلف زمینی اور آبی وسائل کی خستہ حالی سیارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لئے ان کے تحفظ کی ذمہ داری انسان پر ہی سب سے زیادہ ہے۔ اس تحفظ کے عمل کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ ماحول کی طرف اپنے روّیے کو تبدیل کرلے، اپنے اندر ماحول کے متعلق حسّاسیت پیدا کرے۔۔انفرادی سطح پر کی جانے والی کاوشیں اجتماعی صورت میں کارگر ثابت ہوتی ہیں، جیسے میںَ بوند بوند سے مل کر سمندر بن جاتا ہوں، اور کتنے طریقوں سے نوعِ انسان کی فلاح میں مددگار ہوں۔ 
پلاسٹک کے مصنوعات کو ماحول سے ختم کرنانا ممکن ہے بجز اس کے کہ اس کا استعمال ہی ختم کردیا جائے، ورنہ وہ کسی نہ کسی صورت زمیں پر یا سمندر میں ماحول کا حصہ بن کر ماحول کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔
پولیتھین بیگز کے بجائے کپڑے کے تھیلوں کے استعمال کو ترجیح دی جائے۔
سٹائروفوم کے کپ اور پانی پینے کیلئے پلاسٹک کی بوتلوں کے استعمال کی مکمل تردید ہونی چاہیئے ۔
پلاسٹک ریپرز اور پلاسٹک سے بنی دوسری چیزیں جیسے قلم ، تار یا پھر کھلونوں کے ٹوٹ جانے پر کچرے میں پھینکنے کے بجائے ری سائیکل کر کے کسی اور صورت میں استعمال کے قابل بنا لیا جائے، تاکہ وہ کچرے کے ڈھیر کا حصہ بن کر زمین یا پانی کو آلودہ کرنے کاسبب نہ بنیں۔
اور سب سے اہم یہ کہ سیر و تفریح کے غرض سے میرے ساحل پر آنے والے لوگ مجھے آلودہ نہ کرکے جائیں، کوشش کریں کہ اول توایسی کوئی چیز ساتھ نہ لائیں جو بعد از استعمال کچر ے کا حصہ بن جائے اور اگر کچرا جمع ہو بھی جائے تو اُسے ساحل پر نہ پھیلائیں، اپنے پولیتھین بیگز کو میرے کچھوؤں سے دور رکھیں۔ 
حکومتی عہدیداروں سے میری التجاء ہے کہ
حکومتی سطح پر پلاسٹک مصنوعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں تا کہ لوگوں کے لئے انفرادی طور پر اس کا متبادل ڈھونڈنا اور استعمال کرنا آسان ہو
رہائشی علاقوں کے کچرے کی چھانٹی اور ری سائکلنگ سے اُسے کار آمد بنایا جائے تاکہ کچرے کی مقدار میں کمی آئے اوراس کو ٹھکانے لگانے کے لئے زمینی اور آبی وسائل کا ضیاع نہ کرنا پڑے 
صنعتوں کو اس بات کا پابند بنایاجائے کہ اپنے فضلے کو حفاظتی اقدامات سے گزارے بغیر مجھ میں نہ ملائیں تاکہ مجھ میں سانس لینے والی زندگی اور مجھ سے معاش تلاش کرنے والے انسان متاثر نہ ہو سکیں۔ 
کئی ترقی یافتہ ممالک کی طرح سیوریج کے پانی کو مختلف پلانٹز کے زریعے ممکنہ حد تک صاف کرکے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جائے تاکہ مستقبل میں ہونے والی پانی کی قلت جیسے مسائل سے نمٹنے کا انتظام ہو اور ملک کے زرعی شعبے کو کسی نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ 



کاش بنی آدم میری سر پٹختی لہروں کی آہ و فغاں سن لے، جو اپنے ہر طرزِ عمل سے اُسے یہ باور کروانا چاہتی ہیں کہ اللہ کے حکم کے مطابق مجھ
سے فائدہ لیتے رہو، اور بدلے میں مجھے نقصان نہ پہنچاؤ۔ورنہ ان نقصانات کا بدلہ لینا قدرت بھی جانتی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...