Sunday, February 25, 2018

باغی یا بے عقل؟

دورِ حاضر میں معاشرہ جس بے راہ روی کا شکار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، لبرل اور سیکیولر نظریات کو فروغ دینے کے لئے مختلف عناصرتندہی سے کام کررہے ہیں، جس میں میڈیا سرِ فہرست ہے، کیونکہ یہ اُن چند ذرائع میں سے ایک ہے جو کم وقت میں زیادہ لوگوں تک نہ صرف رسائی رکھتا ہے بلکہ بے حد موثر طریقے سے لوگوں کے ذہنوں کو قابو کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے، جیسے کئی گھنٹے تعفن زدہ ماحول میں کام کرنے کے بعد انسانی حسیات بُو محسوس کرنے کے قابل نہیں رہتیں اسی طرح برے کاموں کی خوبصورت انداز میں بارہا یاد دہانی کے بعد اُن کی برائی بھی برائی معلوم نہیں ہوتی۔ اور اس کام کا بیڑا مارننگ شوز سے لے کر ہر انٹرٹینمنٹ چینل نے اُٹھایا ہوا ہے۔

لیکن اب بات صرف شادی، طلاق اور گلی محلوں کے معاشقوں سے نکل کر خود ساختہ سلیبرٹیز تک پہنچ گئی ہے، کیونکہ یہاں اس سوچ کو عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی کے افعال کی اچھائی یا برائی کا تعین کرنے والے ہم کوئی نہیں ہوتے یہ تو اُس شخص کی ذاتی رائے ہے کہ وہ کس چیز کو اچھا اور کسے برا خیال کرتا ہے، گویا یہ سوچ دینِ اسلام کے چند اہم ترین اصولوں میں سے ایک کی سراسر نفی ہے جس کے تحت ہر اہلِ ایمان یہ مانتا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو اچھائی اور برائی میں تمیز اور تفریق کرنے والا ہونا چاہیے نیز اللہ سبحانہ و تعالی خود بھی حق اور باطل کو الگ الگ ظاہر کردیتے ہیں، 

قندیل بلوچ نامی خود ساختہ سوشل میڈیا سلیبرٹی کی وجہ شہرت  اُسکی اُوٹ پٹانگ بے باک ویڈیوز تھیں، مگر آہستہ آہستہ الیکٹرانک میڈیا نے اُس کو ایک سنسنی خبر بنانا شروع کردیا، جن ٹاک شوز میں ملک کے اہم مسائل پر بات کر کے لوگوں میں شعور و آگہی کو فروغ دینا چاہئے وہاں میزبان متعدد بار قندیل بلوچ  کو مدعو کر کے اُسکی ویڈیوز پر تبادلہ خیال کرتے رہے، ہر شخص اپنے تئیں اس معاملے ہر رائے رکھتا تھا، کچھ اُس کو گالیاں دیتے تھے، کچھ دوستی کی پیشکش کرتے   رہے، کچھ نے اُس سے ہمدردی ظاہر کی، چند لبرلز نے لوگوں کو 
non judgmental
ہونے کی مشہورِ زمانہ ترغیب دی اور ملک کی ایک بہت بڑی آبادی صرف وقت گزاری کے لئے اُن ویڈیوز سے محظوظ    
ہوتے رہے،
اور پھر ایک دن اس سب تماشے کا اختتام قندیل بلوچ کی موت پر ہوا، 
مگر یہ اختتام قرار نہیں پایا یہاں سے ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا جہاں حقوقِ نسواں کی متعدد تنظیموں نے عورت کی آزادی کی حمایت اور غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی شدید مخالفت کی، بات یہیں تک رہتی تو شاید قابلِ قبول ہوتی کچھ تنظیموں نے تو ہمدردی کی انتہا میں اُسکو شہید کے درجے تک پہنچا دیا۔ اِلاّ ماشاؑاللہ

مگر بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی، کئی سالوں سے جس قندیل بلوچ کا تماشا بنوانے میں جس میڈیا نے اہم کردار ادا کیا، وہی اُسکی موت کو بھی بہت ذہانت سے استعمال کرنے کی ایک ترکیب لے آیا، جس کا نتیجہ حال ہی میں پیش ہونے والا ڈرامہ ’باغی‘ تھا۔ جس نے نہ صرف چینل کی ٹی آر پی میں بیش قیمت اضافہ کیا بلکہ یوٹیوب پر بھی سینکڑوں صارفین کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ 

افسوس اس بات کا ہے کہ ایک عبرت لینے والی ایک کہانی کو انتہائی متاثر کن چیز بنا کر پیش کیا گیا، جس کے بعد کوئی بھی لڑکی معاشی حالات، گھریلو مسائل یا محض چند بچکانہ خواہشوں کے حصول کے بہانے اب با آسانی دلائل کے ساتھ ڈٹ سکتی ہے، اور خود کو ’’باغی‘‘ تصور کر کے ایک نئی خود ساختہ سلیبرٹی بن سکتی ہے۔

مزید دل شکن بات یہ ہے کہ لاکھوں فن کاروں ، ہدایت کاروں، تخلیق کاروں اور ادیبوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم 
 تخلیق نہیں کر سکتے۔ original content

نیز یہ کہ ماڈل کی زندگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات کی عکس بندی کے لئے انڈسٹری کے کئی نامور فنکاروں کو ڈرامے میں شامل کیا گیا، جس سے لوگوں کے ذہنوں میں بلاواسطہ یہ خیال پختہ ہوجاتا ہے کہ ملک کے کئی بڑے فنکار اس طریقہ کار کے حامی ہیں

اگلا ہتھیار موسیقی کا ہے جس سے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نشے کی حد تک عشق ہے، اور یہ ہتھیار یہاں بھی کار گر ثابت ہوا، گلوکار کی درد بھری آواز نے الفاظ میں جان ڈال دی، گانے کے بیشتر بول یہ ظاہر کرتے رہے کہ ماڈل انتہائی تکلیف میں ہے اور اپنے حالات سے مجبور ہو کر وہ بغاوت کرنے کے لئے مجبور ہے،

ڈرامے میں کئی ایک جگہ تکنیکی غلطیاں بھی محسوس کی جاسکتی تھیں، جیسے گاؤں  میں رہنے والی لڑکی فوزیہ جو پورا دن پنجابی بولتی نظر آتی تھی وہ رات کو اپنے بستر پر لیٹ کر جب خود سے بات کرتی تھی تو اُسکی زبان اُردو ہوجاتی تھی،

اسی طرح ماڈل کو جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں کوٹ ادو کی رہائشی بتایا گیا جہاں پر سرائیکی زبان بولی جاتی ہے، جبکہ ڈرامے میں گاؤں کے تمام رہائشی پنجابی بولتے رہے،


ڈرامے میں کئی ایک جگہ کہانی کو مصلحتاً یا ضرورتاً تبدیل کیا گیا جو اخلاقی طور پر کسی بھی سوانح کے لئے ٹھیک نہیں، نیز ماڈل کی زندگی کے کئی غیر اخلاقی پہلوؤں کو ڈھکے چھپے انداز میں اس طرح دکھایا گیا کہ اُن کی برائی ناظر پر واضح نہ ہو سکے۔ 

اب بات کرتے ہیں ڈرامے کی کہانی کی، یا یوں کہہ لیں ماڈل کی زندگی کی، ڈرامے کے آغاز سے ہی کئی منفی اور مثبت چیزوں کو آپس میں اس طرح گڈمڈ کر کے دکھایا گیا جس سے ناظرین پر مرکزی کردار کی ہر بری عادت پر اچھائی کا پردہ پڑ جائے، جیسے کہ لڑائی یا بدتمیزی کر کے کسی کے حق میں بولنا، حالانکہ حق گو ہونے کےلئے منہ پھٹ اور بد تمیز ہونا قطعی ضروری نہیں

بچکانہ اور حقیقت سے دور خواہشوں کی تکمیل کے لئے کسی بھی حد تک چلے جانا، شوبز کو کمائی اور شہرت حاصل کرنے کا آسان طریقہ سمجھنا، کئی قسطوں تک کہانی کا مرکز تھے

پسند کی شادی اور شادی کے بعد کی زندگی کے بارے میں توقعات اور غیر حقیقت پسندانہ روّیہ بھی مادل کی زندگی  کو خراب کرنے کی اہم وجہ دکھائی دیتا رہا، مگر اُسکو دکھانے کے انداز کی بدولت ماڈل کو وہاں بھی ڈھیروں ہمدردیاں موصول ہوتی رہیں

ہر بار طلاق کی وجہ ماڈل کی غصیلی طبیعت اور سینہ تان کر طلاق مانگنا تھا، جس پر وہ بعد ازاں خود کو ملامت بھی کرتی دکھائی گئی

شوبز میں قدم رکھنے کی کوششوں کے دوران بھی اُسکو جگہ جگہ اپنی بچکانہ اورشدید رد عمل کی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑا

اور ایک مرتبہ اس گندگی میں پیر رکھنے کے بعد وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس دلدل میں دھنستی رہی،
محفوظ چار دیواری میں مرد کے آگے عزت کے لئے آواز اّٹھانے والی لڑکی  دنیا بھر کے سامنے ذلت اُٹھاتی رہی،
پھر اپنی ساری زندگی کی ذلت کے بدلے وہ اپنے خاندان کی بھلائی کے لئے کوشاں رہی مگر وہاں بھی اُسے مایوسی کا سامنا ہوا کیونکہ حرام رزق پر پلنے والے جسم اور ذہن وہی کچھ کر سکتے ہیں جو ماڈل کے خاندان نے کیا۔

ڈرامے کے اختتام پر یہ دکھانا چاہا کہ ماڈل ذلت و رسوائی کی یہ زندگی چھوڑ کر دوبارہ کسی چار دیواری میں جانا چاپتی تھی مگر دنیا نے اُسے اس کا موقع نہ دیا، اور خود ہی منصف بن کر اُس کو ختم کردیا۔۔ یہاں ہر شخص کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، زندگی ہر کسی کو تصحیح کا موقعہ نہیں دیتی اس لئے ہمیں حتی ال امکان اللہ سے ڈرنا چاہئے اور خود کو سیدھے راستے کی طرف گھسیٹنا چاہیے۔ 

اس تمام کہانی میں واضح کرنے کی باتیں یہ تھیں کہ تعلیم تربیت اور شعور کی کمی کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کتنی ہی عورتیں نہ صرف ذلت کی زندگی گزارتی ہیں بلکہ اسی ذلت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں 

ساتھ ہی یہ کہ ہر وہ لڑکی جو اپنی کامیابی اور اپنے مستقبل کے لئے خواب دیکھتی ہے وہ یہ جان لے کہ دنیا وہ نہیں ہے جو رنگین میگزین اور ٹی وی ڈراموں میں نظر آتی ہے یہاں ہر کوئی اپنے طے شدہ راستوں کی بنیاد پر خود اپنے لئے جنت اور دوزخ کا انتخاب کرتا ہے۔

پھر بھی ہماری اللہ سے دعا ہے کہ وہ ظالموں سے بدلہ لے، اور مرحومہ کی مغفرت فرما کر اُس کے درجات بلند کردے۔ آمین


Friday, February 9, 2018

سنڈریلا - After the Shoe-Fit

میَں سنڈریلا ہوں۔۔ اور میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، دنیا کے ہر کونے میں بسنے والی لڑکی نے میری کہانی سُنی اور کبھی نہ کبھی کسی لمحے میں اس کہانی کو جینے کی تمّنا ضرور کی ہے، لیکن یہ کہانی اور اس کے کئی ایسے حقائق ہیں جو کسی نے نہیں سُنے کیونکہ یہ کہانی ہمیشہ راوی نے آپ تک پہنچائی ہے، اور اپنی زندگی کی کہانی دوسرے کے نظریے سے دیکھی جائے تو بہت مختلف محسوس ہوتی ہے! 
میں صرف ’’ایلا‘‘ تھی لیکن میری کہانی اور شہزادے کی لازوال محبت نے مجھے سنڈریلا کے نام سے مشہور کردیا، یہ نام بھی شہزادے کی محبت کی طرح لازوال رہا، لیکن یہ میرا نام نہیں ہے، میں ایلا ہوں چاہے دنیا مجھے کچھ بھی کہے، نئے نام اور نئی زندگی کے یہ حسین تخیل دل دماغ میں رنگ ضرور بھر دیتے ہیں مگر جب ان لمحوں کو جینا پڑتا ہے تو ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا  اس نئی زندگی کے لئے ہم نے خود کو چھوڑ دیا؟
میں سارے شہر میں اپنی رحمدلی کی وجہ سے مشہور تھی، ایسی معصوم رحمدلی جو ہر اک کے لئے یکساں تھی، اُس میں کوئی تفریق نہ تھی، میری زندگی سادہ تھی اور میں اُس میں خوش تھی۔۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ ہر ایک کی طرح میری زندگی بھی پرفیکٹ نہ تھی۔۔ میرے آس پاس موجود لوگوں نے میری محبت کی قدر نہ کی، اور مجھے خاندانی اعتبار سے معیاری زندگی نہ ملی، مگر اس میں میرا قصور نہیں تھا، سو میں نے اس پر افسوس نہ کیا، اور خود پر محنت کرتی رہی۔۔ میں اپنی زندگی میں خوش تھی، بطخوں کو کھانا کھلا کر، مرغیوں کے پیچھے بھاگ کر، اور فارغ اوقات میں ڈبل روٹیاں بیک کر کے میرے دن رات اچھے گزر جاتے تھے، اس دن رات میں بظاہر کوئی کمی نہ تھی سوائے محبت بھرے رشتوں کے، جن کے بغیر میں نے جینا سیکھ ہی لیا تھا۔۔
 پھر اچانک ایک نئے ایڈونچر نے میرے جسم میں برق سی دوڑادی،
 شہر میں کتنا بڑا اہتمام ہورہا تھا، رنگ و نور کی بارش سے بھیگا شاہی محل ساری عوام کے لئے کھولا جا رہا تھا، میں بھی چاہتی تھی کہ اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر زندگی میں ایک بار شاہی محل دیکھ لوں لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا، اس کے لئے خدا نے ایک روحانی ماں بھیج کر میری زندگی کو ایک جادوئی موڑ دیا، اور میں شاہی محل تک پہنچا دی گئی، وہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ خداوند نے مجھے شاہی محل کے لئے نہیں بلکہ شہزادہ تھامس کے لئے وہاں بھیجا تھا۔۔
 شہزادے کے حسنِ نظر نے مصنوعی مسکراہٹوں اور منافق نیتوں والے چہروں کے بیچ میں میرے چہرے کو پسند کیا، اُس نے چند لمحوں میں ایک طویل سفر کر کے  اس بات کا فیصلہ کیا کہ میں الگ ہوں، اور یہ انفرادیت اتنی خاص ہے کہ وہ اپنے اور میرے بیچ حائل کئی تفریقات کے خلاف کھڑا ہو کر بھی مجھے اپنا لے گا، میں وہاں سے نکل گئی، مگر وہ میرا کانچ کا جوتا لئے مجھے ڈھونڈتا رہا۔۔ 
اُس کی محبت میرے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھی، کیونکہ میری زندگی میں یہ واحد کمی تھی، اور ایسی کمی جس کو میں نے کبھی پورا کرنے کی کوشش نہ کی، بلکہ خود ہمیشہ دوسروں کی زندگی میں اس کمی کو پورا کرتی رہی۔ 
شہزادے کے لئے مجھ سے پیار کرنا کیوں آسان ہوا میں کبھی نہیں سمجھ سکی۔۔
شاید اس لئے کہ وہ مرد ہے اور مرد کے لئے سب آسان ہے، وہ محبت کر کے بھی ہر چیز پر قابض رہنا جانتا ہے، وہ محبت کرتا ہے مگر خود کو نہیں لُٹاتا۔۔ 
اب تک آپ سب نے جو کہانی سُنی ہے وہ جوتا فِٹ آنے پر ختم ہوجاتی ہے، جبکہ میری اصلی کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔۔

محبت کرنا بلاشبہ ایک حسین ترین احساس ہے اور یہ اپنی خالص حالت میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، مگر اس کا اگلا مرحلہ اس احساس کو نبھانے کا ہے۔۔ ہم سب انسانوں کی پہلی محبت ہم ’خود‘ ہوتے ہیں،  مگر کبھی کبھی کسی سے محبت کر کے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم خود سے محبت کرنے کے قابل نہیں رہے، 
شہزادے سے شادی کا دن آگیا تھا، اور اُس دن مجھے ادراک ہوا کہ عورت کے لئے اپنا گھر اور اپنے لوگ چھوڑنا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا خود اپنے آپ کو چھوڑنا ہوتا ہے، میں ایلا سے شہزادی سنڈریلا تھامس بن رہی تھی، مگر مجھے سنڈریلا نامی  نئی زندگی کی خوشی کے ساتھ ساتھ معصوم ایلا کی موت کا بہت افسوس تھا۔۔
سارے شہر کی لڑکیاں شہزادہ تھامس سے شادی کرنے اور شاہی محل میں رہنے کی خواہش مند تھیں، مگر یہ تاج میرے سرَ پہنایا گیا، اُس وقت کئی آنکھیں مجھ پر رشک اور حَسد سے اُٹھتی رہیں، مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ اِس تاج کے وزن نے  میرے سِر اور گردن تمام عمر جھکائے رکھنی ہے، شاہی محل میں قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ باہر سے اس محل کی دیواریں جتنی شاندار ہیں اندر رہنے والوں کے دل اُتنے ہی تنگ ہیں، شاہی محل کے لئے میں ایک غیر ضروری اضافہ تھی جس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاہی زندگیوں پر کوئی اثر نہ پڑتا،  میری کم مائیگی کا احساس مزید بڑھ گیا۔۔  میں  مس فٹ تھی، شاید میں شاہی زندگی کے قابل نہ تھی، میں ایک آزاد روح تھی، ایک ایسا سورج جس کی حدت اور روشنی سب کے لئے تھی، شاہی محل نے اس سورج کو طاقچے میں بند کر کے اس کی رونق محفوط کرنی چاہی، اس کی تقدیس کو بڑھانا چاہا کیونکہ اگر شاہی خاندان کی بہو بطخوں کے پیچھے بھاگے اور ڈبل روٹی بیک کرے تو شاہی خاندان کی عزت گھٹتی ہے،
شہزادہ چاہتا تھا میں اُسکی مشکور رہوں کہ وہ مجھے اس زندگی میں لایا تھا، وہ خوش تھا، اُس کی زندگی مکمل تھی۔۔ کیونکہ اُس نے میرے لئے شاہی محل نہیں چھوڑا تھا، میں نے اُس کے لئے اپنی سادہ زندگی چھوڑی تھی، اُس نے اپنے روزمرہ کے شاہی معمولات نہیں چھوڑے تھے، اُس کی زندگی میں وہ سب تھا جو میرے آنے سے پہلے بھی ہوتا تھا، اور میں اُن سب میں ایک اضافہ تھی، مگر میری زندگی سے وہ سب چلا گیا تھا جو میرا تھا، اور میرے پاس اب صرف شہزادہ تھا۔۔  
میرے بارے میں ہر وہ چیز جو میرے لئے باعثِ خوشی تھی وہ مجھ سے ختم ہوتی جا رہی تھی، میرے دن رات، میرے الفاظ یہاں تک کہ میری سوچ بھی میری اپنی نہ رہی تھی، کچھ اپنا تھا تو صرف شہزادے کی محبت جو قلعے میں بند شہزادی کے جسم سے ساری سوئیاں نکال دیتی تھی۔۔ حقائق کا یہ بیان اس لئے تھا تا کہ ہر وہ لڑکی جو بچپن سے اب تک میری کہانی سے فینٹاسائز ہو کر سنڈریلا بننے کے خواب دیکھتی آئی ہے، وہ یہ جان لے کہ ’فیری ٹیل‘ تو وہیں ختم ہوگئی تھی جہاں وہ جوتا مجھے فِٹ آیا تھا، مگر زندگی وہاں ختم نہیں ہوتی، 

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...