Friday, February 9, 2018

سنڈریلا - After the Shoe-Fit

میَں سنڈریلا ہوں۔۔ اور میں کسی تعارف کی محتاج نہیں، دنیا کے ہر کونے میں بسنے والی لڑکی نے میری کہانی سُنی اور کبھی نہ کبھی کسی لمحے میں اس کہانی کو جینے کی تمّنا ضرور کی ہے، لیکن یہ کہانی اور اس کے کئی ایسے حقائق ہیں جو کسی نے نہیں سُنے کیونکہ یہ کہانی ہمیشہ راوی نے آپ تک پہنچائی ہے، اور اپنی زندگی کی کہانی دوسرے کے نظریے سے دیکھی جائے تو بہت مختلف محسوس ہوتی ہے! 
میں صرف ’’ایلا‘‘ تھی لیکن میری کہانی اور شہزادے کی لازوال محبت نے مجھے سنڈریلا کے نام سے مشہور کردیا، یہ نام بھی شہزادے کی محبت کی طرح لازوال رہا، لیکن یہ میرا نام نہیں ہے، میں ایلا ہوں چاہے دنیا مجھے کچھ بھی کہے، نئے نام اور نئی زندگی کے یہ حسین تخیل دل دماغ میں رنگ ضرور بھر دیتے ہیں مگر جب ان لمحوں کو جینا پڑتا ہے تو ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا  اس نئی زندگی کے لئے ہم نے خود کو چھوڑ دیا؟
میں سارے شہر میں اپنی رحمدلی کی وجہ سے مشہور تھی، ایسی معصوم رحمدلی جو ہر اک کے لئے یکساں تھی، اُس میں کوئی تفریق نہ تھی، میری زندگی سادہ تھی اور میں اُس میں خوش تھی۔۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ ہر ایک کی طرح میری زندگی بھی پرفیکٹ نہ تھی۔۔ میرے آس پاس موجود لوگوں نے میری محبت کی قدر نہ کی، اور مجھے خاندانی اعتبار سے معیاری زندگی نہ ملی، مگر اس میں میرا قصور نہیں تھا، سو میں نے اس پر افسوس نہ کیا، اور خود پر محنت کرتی رہی۔۔ میں اپنی زندگی میں خوش تھی، بطخوں کو کھانا کھلا کر، مرغیوں کے پیچھے بھاگ کر، اور فارغ اوقات میں ڈبل روٹیاں بیک کر کے میرے دن رات اچھے گزر جاتے تھے، اس دن رات میں بظاہر کوئی کمی نہ تھی سوائے محبت بھرے رشتوں کے، جن کے بغیر میں نے جینا سیکھ ہی لیا تھا۔۔
 پھر اچانک ایک نئے ایڈونچر نے میرے جسم میں برق سی دوڑادی،
 شہر میں کتنا بڑا اہتمام ہورہا تھا، رنگ و نور کی بارش سے بھیگا شاہی محل ساری عوام کے لئے کھولا جا رہا تھا، میں بھی چاہتی تھی کہ اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر زندگی میں ایک بار شاہی محل دیکھ لوں لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا، اس کے لئے خدا نے ایک روحانی ماں بھیج کر میری زندگی کو ایک جادوئی موڑ دیا، اور میں شاہی محل تک پہنچا دی گئی، وہاں پہنچ کر احساس ہوا کہ خداوند نے مجھے شاہی محل کے لئے نہیں بلکہ شہزادہ تھامس کے لئے وہاں بھیجا تھا۔۔
 شہزادے کے حسنِ نظر نے مصنوعی مسکراہٹوں اور منافق نیتوں والے چہروں کے بیچ میں میرے چہرے کو پسند کیا، اُس نے چند لمحوں میں ایک طویل سفر کر کے  اس بات کا فیصلہ کیا کہ میں الگ ہوں، اور یہ انفرادیت اتنی خاص ہے کہ وہ اپنے اور میرے بیچ حائل کئی تفریقات کے خلاف کھڑا ہو کر بھی مجھے اپنا لے گا، میں وہاں سے نکل گئی، مگر وہ میرا کانچ کا جوتا لئے مجھے ڈھونڈتا رہا۔۔ 
اُس کی محبت میرے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھی، کیونکہ میری زندگی میں یہ واحد کمی تھی، اور ایسی کمی جس کو میں نے کبھی پورا کرنے کی کوشش نہ کی، بلکہ خود ہمیشہ دوسروں کی زندگی میں اس کمی کو پورا کرتی رہی۔ 
شہزادے کے لئے مجھ سے پیار کرنا کیوں آسان ہوا میں کبھی نہیں سمجھ سکی۔۔
شاید اس لئے کہ وہ مرد ہے اور مرد کے لئے سب آسان ہے، وہ محبت کر کے بھی ہر چیز پر قابض رہنا جانتا ہے، وہ محبت کرتا ہے مگر خود کو نہیں لُٹاتا۔۔ 
اب تک آپ سب نے جو کہانی سُنی ہے وہ جوتا فِٹ آنے پر ختم ہوجاتی ہے، جبکہ میری اصلی کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔۔

محبت کرنا بلاشبہ ایک حسین ترین احساس ہے اور یہ اپنی خالص حالت میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، مگر اس کا اگلا مرحلہ اس احساس کو نبھانے کا ہے۔۔ ہم سب انسانوں کی پہلی محبت ہم ’خود‘ ہوتے ہیں،  مگر کبھی کبھی کسی سے محبت کر کے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم خود سے محبت کرنے کے قابل نہیں رہے، 
شہزادے سے شادی کا دن آگیا تھا، اور اُس دن مجھے ادراک ہوا کہ عورت کے لئے اپنا گھر اور اپنے لوگ چھوڑنا اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا خود اپنے آپ کو چھوڑنا ہوتا ہے، میں ایلا سے شہزادی سنڈریلا تھامس بن رہی تھی، مگر مجھے سنڈریلا نامی  نئی زندگی کی خوشی کے ساتھ ساتھ معصوم ایلا کی موت کا بہت افسوس تھا۔۔
سارے شہر کی لڑکیاں شہزادہ تھامس سے شادی کرنے اور شاہی محل میں رہنے کی خواہش مند تھیں، مگر یہ تاج میرے سرَ پہنایا گیا، اُس وقت کئی آنکھیں مجھ پر رشک اور حَسد سے اُٹھتی رہیں، مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ اِس تاج کے وزن نے  میرے سِر اور گردن تمام عمر جھکائے رکھنی ہے، شاہی محل میں قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ باہر سے اس محل کی دیواریں جتنی شاندار ہیں اندر رہنے والوں کے دل اُتنے ہی تنگ ہیں، شاہی محل کے لئے میں ایک غیر ضروری اضافہ تھی جس کے ہونے یا نہ ہونے سے شاہی زندگیوں پر کوئی اثر نہ پڑتا،  میری کم مائیگی کا احساس مزید بڑھ گیا۔۔  میں  مس فٹ تھی، شاید میں شاہی زندگی کے قابل نہ تھی، میں ایک آزاد روح تھی، ایک ایسا سورج جس کی حدت اور روشنی سب کے لئے تھی، شاہی محل نے اس سورج کو طاقچے میں بند کر کے اس کی رونق محفوط کرنی چاہی، اس کی تقدیس کو بڑھانا چاہا کیونکہ اگر شاہی خاندان کی بہو بطخوں کے پیچھے بھاگے اور ڈبل روٹی بیک کرے تو شاہی خاندان کی عزت گھٹتی ہے،
شہزادہ چاہتا تھا میں اُسکی مشکور رہوں کہ وہ مجھے اس زندگی میں لایا تھا، وہ خوش تھا، اُس کی زندگی مکمل تھی۔۔ کیونکہ اُس نے میرے لئے شاہی محل نہیں چھوڑا تھا، میں نے اُس کے لئے اپنی سادہ زندگی چھوڑی تھی، اُس نے اپنے روزمرہ کے شاہی معمولات نہیں چھوڑے تھے، اُس کی زندگی میں وہ سب تھا جو میرے آنے سے پہلے بھی ہوتا تھا، اور میں اُن سب میں ایک اضافہ تھی، مگر میری زندگی سے وہ سب چلا گیا تھا جو میرا تھا، اور میرے پاس اب صرف شہزادہ تھا۔۔  
میرے بارے میں ہر وہ چیز جو میرے لئے باعثِ خوشی تھی وہ مجھ سے ختم ہوتی جا رہی تھی، میرے دن رات، میرے الفاظ یہاں تک کہ میری سوچ بھی میری اپنی نہ رہی تھی، کچھ اپنا تھا تو صرف شہزادے کی محبت جو قلعے میں بند شہزادی کے جسم سے ساری سوئیاں نکال دیتی تھی۔۔ حقائق کا یہ بیان اس لئے تھا تا کہ ہر وہ لڑکی جو بچپن سے اب تک میری کہانی سے فینٹاسائز ہو کر سنڈریلا بننے کے خواب دیکھتی آئی ہے، وہ یہ جان لے کہ ’فیری ٹیل‘ تو وہیں ختم ہوگئی تھی جہاں وہ جوتا مجھے فِٹ آیا تھا، مگر زندگی وہاں ختم نہیں ہوتی، 

No comments:

Post a Comment

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...