Tuesday, February 5, 2019

میراث

ابّا دنیا کے سب سے محنتی آدمی تھے، شاید ہی ایسا کوئی کام تھا جو وہ خود نہ کر سکتے ہوں، گھر میں کئی پریشانیاں تھیں کچھ معاشی تھیں، کچھ ابّا کی طبیعت بھی بہت اچھی نہیں رہتی تھی، وسائل بھی بہت نہ تھے مگراُن کے چہرے پر ایک 
عجیب سا سکون تھا، جیسے وہ بہت مطمئن ہوں
پتہ نہیں ابا واقعی اتنے اطمینان سے مصائب کا مقابلہ کرتے تھے یا وہ ہم بچوں پر اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے، ابآ کتنے کمزور تھے یہ احساس مجھے اُس دن ہوا جب وہ ایک دن ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گئے۔ ماں باپ کے لئے اولاد کو بڑھتے ہوئے دیکھنے میں ایک عجیب سی خوشی ہوتی ہے، جب بچہ اُنکی گود سے نکل کر خود اپنے پیروں پر چلنے لگتا ہے، جب اُس کی زبان صحیح صحیح الفاظ ادا کرنے لگتی ہے، جب وہ اپنے فیصلے خود کرنے لگتا ہے، اور پھر ان سب خوشی کے لمحات میں ایک ایسا وقت آتا ہے، جب وہ بچہ اتنا خود مختار ہوجاتا ہے کہ خود کو ماں باپ سے الگ تصور کرنے لگتا ہے، اس کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، اپنے عزائم اور مقاصد ہوتے ہیں، وہ اپنا گھر اپنا خاندان بنانا چاہتا ہے۔۔
جیسے ابا نے ہم سب بہن بھائیوں کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھا تھا، اسی طرح میں نے بھی ابا کو بہت نزدیک سے بوڑھا ہوتے دیکھا تھا، میں نے ابا کے رعب کو ڈھلکتے دیکھا تھا، اُن کے جوان اور تر و تازہ چہرے پر جھریاں پڑتی محسوس کی تھیں، اُن کی تلوار جیسی مونچھوں کی جگہ اب سفید داڑھی نے لے لی تھی۔
ابّا سادہ آدمی تھے، اُنہوں نے آج کل کے لوگوں کی طرح ترقی نہیں کی، نہ ہی اُن کے کوئی بڑے بڑے مقاصد تھے، بس عام لوگوں کی طرح صبح کام پر جانا، اور واپس آکر ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارنا، اماں کے ساتھ باتیں کرنا، چھٹی کے دن ابا جو بھی کام گھر پر کرتے وہ ہم سب بہن بھائی دیکھتے، سیکھتے اور اُن کا ساتھ دیتے۔ 
میں جانتی تھی کہ سادہ لوح ابا اتنی محنت اس لئے کررہے ہیں کہ گھر بنا سکیں، ایک بہت اچھا گھر، جس گھر میں سیڑھیاں اوپر کی منزل کو جائیں اور پھر گھر کے اوپر بھی ایک گھر ہو، جب کبھی وہ اماں سے گھر کے بارے میں بات کرتے میں بہت خوشی سے اُن سے پوچھتی۔۔
ابّا ہمارا بہت بڑا گھر ہوگا؟
ہاں بیٹی۔ وہ جواب دیتے
گھر کے اوپر بھی گھر ہوگا۔ میں پھر کہتی
وہ ہنس کر گردن تائید میں ہلا دیتے۔۔
ہم وہاں کیا کریں گے؟ میں پوچھتی
کیا کریں گے مطلب؟ تم سب وہاں رہنا، کھیلنا کودنا، جب تمہاری اماں تمہارے شور و غل سے تنگ ہوں تو اوپر والی منزل پر بھاگ جانا۔۔ چھٹی والے دن ہم سب چھت پر جا کر کھانا کھایا کریں، گرمیوں کی راتوں میں چھت پر ہی سوئیں گے۔۔ ابا لمبی لمبی پلاننگ بتاتے
ابا پھر ہم ہمیشہ وہاں رہیں گی؟ میں مزید کہتی۔
ہاں، میں اور تمہارے بھائی تو رہیں گے، لیکن تم اور تمہاری چھوٹی بہنیں اپنے اپنے گھر چلی جاؤگی، پھر تم سب کئی کئی دن بعد یہاں اکھٹی ہوا کرو گی، تم سب یہاں ساتھ ہنسو بولو گے تو میرا یہ گھر بنانے کا مقصد پورا ہوجائےگا، میں نے زندگی میں اور کوئی بڑا کام نہیں کیا، لیکن میری خواہش تھی کہ اپنے بچوں کو چھت ضرور دوں تا کہ وہ اُس طرح تتر بتر نہ ہوں جیسے میں اور میری بہنیں ہوگئیں، اگر میں یہ کر سکا تو خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت ترین اور کامیاب آدمی سمجھوں گا بیٹی۔۔

ابا کی آنکھیں کسی خواب کی سی کیفیت میں ڈوب جاتیں اور یہ سب کہتے کہتے کسی قدر نم ہوجاتیں۔۔ میں ابا کو دیکھ کر خاموش ہوجاتی اور اللہ سے دعا کرتی کہ ابا کے خواب ضرور پورے ہوں، خواب تو خواب ہیں، انسان کا کسی قدر اپنی کوشش پر اختیار ہے وہ اپنے طور پر بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کچھ چیزیں، وقت، واقعات اور حادثات اُس کے بس میں نہیں ہوتے۔ 

ابا کی مستقل مزاجی اور ان تھک محنت سے گھر بن گیا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ابا مزدوروں کے ساتھ مزدوروں ہی کی طرح کام کیا کرتے، راج کے ساتھ راج بن جاتے، مستری کے ساتھ مستری، گھر کی کتنی ہی اینٹیں ابا نے اپنے ہاتھ سے رکھی تھیں، کتنے ہی کمروں کے نقشے اور بنیادیں  ہم چھٹی والے دن ابا کے ساتھ جا کر طے کرتے، ابا اپنے آلات سے فرش کا ڈھلان چیک کرتے، دیوراوں کی موٹائی، اُن کا رنگ، گھر کی سجاوٹ ہر چھوٹی بڑی چیز میں اب بھی ابا نظر آتے ہیں، ہر ایک کمرے میں وہ کھڑے، چلتے پھرتے، کام کرتے، مزدوروں کو ہدایت دیتے، اُن سے حساب کتاب لیتے نظر آتے۔۔ گھر بن گیا، ہم سب وہاں رہنے لگے، ابا کے کہنے کے مطابق، وہی اوپر نیچے کی دھما چوکڑی، وہی گرمیوں کی راتوں کو چھت پر ڈیرے اور پھر اُس گھر سے وقتِ رخصت۔۔ یہ بیک وقت زندگی کا سب سے خوبصورت مگر سب سے تکلیف دہ وقت تھا، یکے بعد دیگرے ہم ساتوں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں، بہنیں چلی گئیں، بھابیاں آگئیں، بھائیوں کے بچوں نے گھر کے در و دیوار میں رنگ اور روشنیاں بھر دیں، ابا سارا دن اُن بچوں کو گرد اگرد جمع کئے رہتے۔۔ کتنی ہی یادیں ابا نے اس گھر سے منسوب کردی تھیں۔۔ اور زندگیوں کو اتنا بھرپور رکھنے والے ابا ایک دن خاموشی سے چلے گئے، کوئی طریقہ، کوئی آہ و بکا، کوئی فریاد اُنہیں روک نہ سکی 


اماں کی زندگی میں بھی ابا کے سوا تھا ہی کیا، انہوں نے اپنی تمام عمر ان کے ، ان کی اولاد کے لئے اور اُن کے گھر کے لئے وقف کی ہوئی تھی، شاید وہ ابا ہی کے لئے دنیا میں موجود تھیں، ابا گئے تو چند مہینوں میں وہ بھی ابا ہی کے پاس چلی گئیں۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا کیسے ویران ہوتی ہے یہ کوئی اُس سے پوچھے جس کے ماں باپ نہ ہوں، اکثر عجیب عجیب خوف سے نیند میں آنکھ کھل جایا کرتی تھی اور مجھے یہ تسلی نہیں ہوتی تھی کہ دو شفیق ہاتھ میری لئے دعا کرتے ہیں تو میں ہر بلا سے محفوظ ہوں، بلکہ یہ احساس ہوتا تھا کہ اب میرے لئے دعا کرنے والا کوئی نہیں۔ 
اماں ابا نہیں رہے مگر وہ گھر اب بھی ابا کا گھر ہی کہلایا جاتا رہا، جب کبھی وہاں جاؤ ہر جگہ اماں اور ابا بیٹھے نظر آتے، 

اوپر والی منزل پر ابا اپنے ہاتھ سے کچن کی دیوار بناتے نظر آتے، کبھی چھت پر پرندوں کو دانہ ڈالتے ہوئے، کبھی صحن میں اماں سِل بٹے سے چٹنی پیس رہی ہوتیں، اور کبھی تار پر ابا کا سفید قمیض شلوار سکھا رہی ہوتیں۔ 

پھر ایک دن خبر ملی کے سب بہن بھائیوں کو ابا کے گھر جمع ہونا ہے، تو بھائی دفتر اور بہنیں سسرالی کی تمام مصروفیات ترک کر کے آگئیں، لیکن آج نہ وہ گھر ابا کا گھر تھا اور نہ وہ لوگ جو وہاں جمع تھے وہ میرے بہن بھائی تھے، 

ابا کا گھر بیچا جا رہا تھا، اور بھکاری کشکول اٹھا لائے تھے، یکدم سب اتنے تنگ دست اور مفلس ہوگئے تھے کہ ابا کے گھر بکنے سے ہی مالا مال ہوسکتے تھے، اور سب کی پریشانیاں بس ان چند روپوں سے حل ہونے والی تھی

ایک سیکنڈ کے لئے ایسا لگا کہ وہ سب بہت عرصے سے اس انتظار میں تھے شاید میں ہی بے خبر تھی، یا شاید میرے ذہن کے کسی گوشے میں کبھی یہ خیال آہی نہیں سکا کہ یوں بھی تو ہو سکتا ہے، لیکن آتا بھی کیسے میرے لئے تو وہ گھر ابا کی نشانی تھا، میرے لئے وہ مٹی بجری اینٹوں اور سیمنٹ کی کوئی عمارت نہیں تھی، ابا کی عمر بھر کی کمائی تھی، اُن کی مستقل مزاجی اور اپنی اولاد کے سکون کے لئے ساری عمر کی گئی ریاضت تھی۔۔ پتہ نہیں باقی سب کے لئے وہ صرف ایک جائیداد کیوں تھی؟ کیا ابا اپنے جیسی بے لوث محبت اور سادہ دلی اپنی اولاد میں منتقل کرنے میں ناکام ہوگئے تھے؟ یا واقعی دنیا اور دنیاوی ضروریات اتنی اہم ہیں کہ اُن کے آگے ان جذبوں کی نہ کسی کو ضرورت ہے نہ پرواہ۔۔ کیا سب بہت مادہ پرست ہوگئے تھے یا میں ہی ضرورت سے زیادہ حساس ہورہی تھی، ابا کے گھر سے نکلتے ہوئے میرا دل بری طرح کھنچ رہا تھا، ایک منٹ کو لگا کہ پتہ نہیں اگلی بار یہاں اس استحقاق سےبھی آسکوں گی یا نہیں، دروازے کے باہر لگی ابا کے نام کی لوح دیکھ کر میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں، ایک ہی لمحے میں ذہن کے پردے پر اس گھر کے بننے سے لے کر یہاں آکر بسنا، اسکول کالج جانا، بھائیوں کا دفتر کے لئے نکلنا، بہنوں کی رخصتی، بھائیوں کی بارات سے واپسی، بھتیجیوں اور بھتیجوں کی پیدائش اور اُن کے اس گھر میں اُٹھنے والے پہلے قدم، اما ابا کے جنازے اور پھر یہ آج کا دن۔۔۔ سب ایک جھماکے کی صورت ابھرے اور میری برستی آنکھوں  کے ساتھ سارے منظر بہہ گئے۔۔ 


میں گھٹنوں پر سر رکھے زاروقطار رو رہی تھی جب ابا میرے پاس آکر بیٹھ گئے،
مت رو بیٹی، ایسا بھی کیا ہوگیا، دنیا میں یہی تو ہوتا ہے، باپ مکان بناتا ہے کہ بچوں کو چھت دے سکے، ان کے حصے بخرے نہ ہوجائیں اور باپ کے مرنے کے بعد وہی بچے خود اپنے ہاتھ پیر کاٹ دیتے ہیں، 
لیکن ابا۔۔۔۔ مجھ سے جملہ مکمل نہیں ہوسکا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں
لیکن کیا؟ 
وہ گھر آپکی نشانی تھا۔۔۔ میں نے سانس بحال کرنے کی کوشش کی 
ابا نے ایک سرد آہ بھری۔۔ بیٹی صحیح معنوں میں تو اولاد ماں باپ کی نشانی ہوتی ہے، میں نے جن بچوں کو اکھٹا کرنے کے لئے وہ چھت بنائی تھی، وہ تو میرے مرنے کے بعد اکھٹا ہونا ہی بھول گئے، دنیا کی ہوس نے اُنہیں خون کا رنگ تک بھلا دیا ہے، تو اُس عمارت کو رکھ کر کیا کریں گے، میری نشانی تو تم سب ہو، جہاں مل کر بیٹھ جاؤ گے وہی میرا گھر ہوگا، مگر ساتھ بیٹھنے کی فرصت کسے ہے؟ کینہ، بغض، منافقت، حسد اور مطلب پرستی نے دلوں کے آئینے اتنے سیاہ کردیئے ہیں کہ خون کے رشتوں کے عکس اب وہاں سے مکمل طور پر غائب ہیں۔۔ ابا نے نظر اُٹھا کرآسمان کو دیکھا مجھے لگا اُنکی پلکیں بھی بھیگی ہوئی تھیں
ہمیں معاف کردیں ابا۔۔ ہم آپ کی محبت کا حق ادا نہیں کرسکے۔۔ میں نے سر واپس گھٹنوں پر رکھ دیا۔۔
نہیں بیٹی، معافی نہ مانگو، تم تو میری سب س پیاری بیٹی ہو بس مجھ سے ایک وعدہ کرو۔۔ ابا نے التجائیہ لہجے میں کہا
میں نے سر اٹھا کر اُنہیں دیکھا
وعدہ کرو کہ اپنی اولاد کو اور کچھ چاہے نہ دے پاؤ، مگر اُنہیں آپس کی محبت ضرور دینا، محبت کرنا سکھانا، بے لوث محبت، جو خون کے رشتوں کا حق ہے، اُنہیں لالچ اور مادہ پرستی سے نفرت کرنا سکھانا، اُنہیں سمجھانا کہ اصلی دولت کیا ہے، اُنہیں بتانا کہ خدا نوٹوں میں، عالیشان گھروں میں، اور برانڈڈ کپڑوں میں نہیں بستا، اُس کے نزدیک تو وہ لوگ محترم اور محبوب ہیں جو اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں، اُن کے حقوق پورے کرتے ہیں،انسان کی اصل دولت اُسکی میراث بھی یہی ہے. میری دعا ہے کہ اللہ تمہیں اولاد کی طرف سے کبھی کسی آزمائش میں ڈالے۔۔۔

ایک جھرجھری سی میرے پورے جسم کو ہلا گئی، میری آنکھ کھلی تو میرا تکیہ بھی آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا، شاید میں خواب دیکھتے ہوئے بھی روتی رہی تھی۔

No comments:

Post a Comment

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...