Thursday, July 5, 2018

اسکول سے پہلے اسکول نہیں - Say No To Pre-School


کہتے ہیں دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب صنعتی انقلاب آیا تو مرد و عورت دونوں گھروں سے باہر نکل آئے اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے دونوں ہر شعبہ ہائے زندگی میں شانہ بشانہ جُت گئے، اس صنعتی انقلاب نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا، انہی دنوں کئی نئی ایجادات ہوئیں جس سے نقل و حمل اور ترسیل کے ذرائع 
بڑھ گئے ۔۔۔ 
 اُس ہی انقلابی دور میں اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ جب ماں اور باپ دونوں گھر کے باہرہوں تو بچوں کو ابتدائی تعلیم و تربیت کا بیڑا کون اُٹھائے ۔۔ اس کے لئے چرچز، یا اُن بزرگ عورتوں نے خدمات پیش کیں جو اُس وقت صنعتی ترقی کے لئے اور کوئی کام نہیں کر سکتی تھیں،
اس طرح دنیا میں پری اسکولنگ کا تعارف ہوا، یعنی اسکول سے پہلے اسکول۔۔ جہاں بچہ روزمرّہ زندگی کے ادب و آداب سیکھتا ہے۔ ترقی کرنے کے بعد اُس قوم نے اس روش کو چھوڑ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے، مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ وائرس کی طرح سرائیت کرتا رہا ، بالخصوص پاکستان میں اب ہر گلی محلے میں اسکول کھلے نظر آتے ہیں، اور ہر دوسری ماں اُس دن کا انتظار کرتی ہے جب بچہ ڈھائی سال کا ہو اور وہ اُسے کسی اچھے پری اسکول میں داخل کروا کر اپنی جان چھڑا لے، اور بچے کو اسکول کے حوالے کر کے اب وہ بلکل بری الذمہ ہے۔۔ 
دکھ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادیات اتنی کمزور ہیں کہ کئی مائیں جو بچوں کو خود سے دور نہیں کرنا چاہتیں وہ بھی اپنی نوکریوں کی وجہ سے بچوں کو پری اسکول کے حوالے کردیتی ہیں، وہ بڑے بڑے بین الاقوامی ادارے بھی جہاں مردوں سے زیادہ عورتیں ملازم ہیں وہ بھی  ڈے کئیر جیسی سہولت فراہم نہیں کرتے۔۔ اور پھر کئی عورتیں خود سے زیادہ دوسروں کی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھاتی ہیں، اُن کے لئے ماں کے کردار سے زیادہ اہم بہو اور بیوی کا   کردار ہوتا ہے، اور ایسی غیر انسانی توقعات کی زد میں ماں کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور پری اسکولز کا کاروبار چمک جاتا ہے

تمام ترقی یافتہ ممالک جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں وہاں سات سال کی عمر سے پہلے کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا ، اور سات سال تک پری اسکولنگ کے بجائے ہوم اسکولنگ کی جاتی ہے، یعنی ہر وہ ممکن چیز جو پری پرائمری کلاسس میں سکھائی جاتی ہیں وہ مائیں گھر پر ہی بچوں کو سکھاتی ہیں۔ یا پھر کسی تجربے کار خاتون کی مدد لیتی ہیں، 
دورِ جدید میں ہونے والی کئی تحقیقات یہ بات ثابت کرتی ہیں، کہ چھوٹے بچوں پر بڑے بستوں کا بوجھ، صبح اٹھنے کی سختی اور کام کا دباؤ کوئی بھی مثبت اثرات مرتب نہیں کرتے۔۔ اور تحقیقات تک جانے کی کیا ضرورت ہے، اگر ہم بچوں کی حالت پر خود غور کریں تو اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے اُن کے جسم اور ذہن اس مشقت سے متاثر ہوتے ہیں
 بلاشبہ والدین بچے کے بہتر مستقبل کے لئے اُس کو اچھی سے اچھی جگہ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں، مگر اس کے برعکس اُن کا نقصان کردیتے ہیں، کم عمری میں ہی اتنی تھکن اور ذہنی دباؤ بچے کے مزاج کو چڑچڑا بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے اُسکی خوارک میں کمی آجاتی ہے۔۔ نتیجتاً اُس کی صحت خراب ہوتی ہے اور وہ آئندہ آنے والی تعلیم کے لئے پہلے ہی کمزور ہوجاتا ہے
احادیثِ مبارکہ میں بھی کئی جگہ بچوں پر کم سنی میں کسی بھی قسم کی سختی کرنا منع ہے یہاں تک کہ نماز اور دین کے دوسرے معاملات میں بھی اُن پر کسی قسم کے فرائض کی پابندی نہیں
بچوں کی تربیت کے متعلق اہم احادیث میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک سے سات سال کی عمر میں بچے کو سینے سے لگا کر رکھا جائے، کیونکہ یہ سال اُس کو  والدین اور اہلِ خانہ سے زہنی وابستگی پیدا کرنے کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان سالوں میں بچے پر سختی کرنا منع ہے تاکہ بچے ضدی یا سرکش نہ بن جائے اور اُس کے دل میں اہلِ خانہ کے لئے نفرت کے جذبات نہ پیدا ہوں۔۔
 والدین کو اب یہ شعوری کوشش کرنی چاہئے کہ بچے کو جب تک ہو سکے گھر میں ہی بھرپور توجہ دیں اُس کو کھیلنے کودنے اور کھیل سے تھک ہار کر بھر پور خوارک اور نیند لینے دیں۔ جہاں تک ممکن ہو بچے کو گھر پر ہی ابتدائی تعلیم سے متعارف کروائیں۔۔ اس کے لئے صرف وقت اور تحمل کی خاص ضرورت ہے جو والدین خصوصاً ماں کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا، باقی فی زمانہ اس مشن کو پورا کرنے کے لئے ہر طرح کے وسائل بازار اور انٹرنیٹ پر موجود ہیں، مگر چند سالوں تک اُٹھائی گئی یہ تکلیف بچے کو بہت سی تکلیفوں سے بچا کر اُس کے اچھے مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔

اللہ ہمیں اپنوں سے چھوٹوں کی بہترین رہنمائی کرنے کے قابل بنائے اور ہماری نسلوں کو ذہنی جسمانی اور روحانی سکون دے ہم  سب  کو  ہمارے  نیک  مقاصد  میں  کامیاب  کرے  اور  ہمیں  معاشرے  کی  فلاح  کے  لئے  فعال  کردار  ادا  کرنے کی  توفیق  دے۔  آمین

No comments:

Post a Comment

Best Blogs

Reflective Journal ربوبیت کا

انسان  کے  لئے  دنیا  میں  جو  چیز سب  سے  زیادہ  اہم  ہے  وہ  ہے  ’’تعلق‘‘ خواہ  وہ  خونی  رشتے  ہوں،  معاشرتی  تعلقات،  یا  ارد  گرد  کے  ...